بنوقریظہ کا عبرت ناک انجام! …( 3)

بنو قریظہ بے بس ہوگئے تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیے، مگر اس شرط پر کہ سردارِ اوس سعد بن معاذؓ ان کا فیصلہ کریں گے۔ ان کے ذہن میں یہی بات تھی کہ بنو قینقاع کے حلیف عبداللہ بن اُبَیْ نے ان کی حمایت کی تو ہمارا حلیف بھی ہماری حمایت کرے گا۔ ان بدبختوں کو معلوم نہ تھاکہ مومنِ صادق اور پکے منافق کے درمیان کتنا بڑا فرق ہوتا ہے۔ اگر یہ اپنا معاملہ آنحضورﷺ پر چھوڑتے تو رحمۃ للعالمین اپنے عفوورحمت کے بحرِ ذخّار سے انہیں محروم نہ فرماتے لیکن انہوں نے حضرت سعدؓ سے فیصلہ کرانے پر اصرار کیا۔ حضرت سعدؓ کو آنحضورﷺ کا پیغام ملا کہ وہ فیصلہ کرنے کے لیے محاذِ جنگ پر تشریف لائیں۔ آپؓ کی صحت کمزور تھی لیکن حکم نبوی کی تعمیل میں آپؓ ایک گدھے پر سوار ہو کر موقع پر تشریف لائے۔ نبی اکرمﷺ نے ان کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا'' جب تمہارا سردار یہاں پہنچ جائے تو تعظیماً کھڑے ہوجانا‘‘۔ روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے اس موقع پر کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔ (ابن ہشام، ج: 2، ص: 240)
حضرت سعد بن معاذؓ نے ان لوگوں کا فیصلہ تورات کے مطابق سنا دیا۔ تورات کا حکم اس بارے میں کیا ہے؟ تورات کا یہ متن ملاحظہ فرمائیے: ''جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باجگذار بن کر تیری خدمت کریں اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند‘ تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا۔ لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپایوں اور اس شہر کے سب مال اور لوٹ کو اپنے لیے رکھ لینا اور تو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو دی‘ وہ کھانا۔ ان سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہر نہیں ہیں۔ مگر ان قوموں کے شہروں میں جن کو خداوند تیرا خدا میراث کے طور پر تجھ کو دیتا ہے کسی ذی نفس کو جیتا نہ بچا رکھنا۔ بلکہ تو ان کو یعنی حتی اوراموری اور کنعانی اور فرزّی اور حوّی اور یبوسی قوموں کو جیسا خداوند تیرے خدا نے تجھ کو حکم دیا ہے بالکل نیست کردینا۔ تاکہ وہ تم کو اپنے سے مکروہ کام کرنے نہ سکھائیں جو انہوں نے اپنے دیوتائوں کے لیے کیے ہیں اور یوں تم خداوند اپنے خدا کے خلاف گناہ کرنے لگو‘‘ (تورات،کتاب استثنا، باب: 20، آیات: 10 تا 18۔بحوالہ کتابِ مقدس مطبوعہ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور،نظر ثانی شدہ طباعت 1993ء)۔
بنو قریظہ کے معاملے میں تورات کے اسی فیصلے پر عمل درآمد کیا گیا۔ بنو قریظہ کے بارے میں حضرت سعدؓ کے اس فیصلے کا اعلان ہوگیا تو آنحضورﷺ نے ان کے زخموں کی وجہ سے انہیں رخصت کر دیا۔ نبی اکرمﷺ نے اس کے بعد بنو قریظہ کے مردوں اور عورتوں کو الگ الگ مدینہ کی طرف صحابہؓ کی نگرانی میں روانہ کر دیا۔ مردوں کو غیر مسلح کرنے کے بعد محمد بن مسلمہ انصاریؓ کو حکمِ نبوی ملا کہ وہ اپنے دستے کے ساتھ ان لوگوں کو بحفاظت مدینہ لے جائیں اور حضرت اسامہ بن زیدؓ کی بڑی حویلی میں ان سب کو مقید کردیں۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ کو آنحضورﷺ نے خواتین اور بچوں کو اپنی نگرانی میں لے جانے کا حکم دیا اور انہیں ایک دوسری بڑی حویلی میں ٹھہرایا گیا۔ ان سب کو کھانے پینے کی اشیا اور دیگر بنیادی ضروریات پہنچائی گئیں۔
مدینہ کے باہر جہاں منڈی لگا کرتی تھی اور جسے سوق المناخہ کہا جاتا تھا،کے چاروں جانب خندقیں کھو دی گئیں۔ ان یہودیوں کو اپنے اپنے مرگھٹ پر لایا جاتا اور تیز دھار تلوار کے ساتھ تہِ تیغ کر دیا جاتا۔ اس خدمت پر سیدنا علیؓ بن ابی طالب اور زبیر بن العوامؓ مامور کیے گئے۔ اس میں حکمت یہ تھی کہ یہ دونوں صحابی ایسی کاری ضرب لگاتے تھے کہ مقتول فوراً موت کے گھاٹ اتر جاتا ورنہ اگر ایسی ضرب نہ ہو تو مقتول کافی دیر تڑپتا اور اذیت میں مبتلا رہتا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے تو جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے بھی تیز دھار چھری استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور کند چھری سے کسی جانور کو ذبح کرنا اسلام میں ظلم قرار پاتا ہے۔ جونہی کسی یہودی کوخندق کے کنارے لایا جاتا اسے قتل کرنے کے بعد خندق میں پھینک کر اوپر مٹی ڈال دی جاتی۔ نبی اکرمﷺ اور کبار صحابہ کرامؓ اس موقع پر موجود تھے۔
مؤرخین کے مطابق اس وقت ایک عجیب صورت پیداہوگئی جب قبیلۂ خزرج کے دو بزرگ صحابہ حضرت سعدؓ بن عبادہ اور حضرت حبابؓ بن المنذر آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ شاید قبیلہ اوس کے ہمارے بھائی اس منظر کو پسند نہیں کر رہے۔ حضرت سعد بن معاذؓ کے کانوں میں جب یہ خبر پہنچی تو انہوں نے فرمایا:'' اوس کے اس شخص میں کوئی خیر نہیں جو اس عمل پر کراہت محسوس کر رہا ہے۔ جو اس فیصلے پر راضی نہیں، اللہ اس سے راضی نہ ہو‘‘۔ اس موقع پر حضرت اُسَیْدبن حضیرؓ (سردارِ قبیلہ اوس) اٹھے اور فرمایا ''یا رسول اللہﷺ! انصار کے تمام لوگوں کو حکم دیجیے کہ وہ باری باری اس قتل میں حصہ لیں‘‘۔ چنانچہ اس کے بعد اوس اور خزرج کے تمام لوگوں نے بھی حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کا ہاتھ بٹایا۔ صحابہ کرام کے دلوں میں عصبیتِ جاہلیہ کے کوئی جراثیم نہ تھے، وہ تو مکمل خود سپرد گی کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ مقتولین کی تعداد کے بارے میں آرا مختلف ہیں لیکن کم و بیش چھ سو مردانِ جنگی تھے جو موت کے گھاٹ اتارے گئے۔(سیرۃ الحلبیہ، ج: 2، ص: 120)
جب عام لوگوں کو قتل کر دیا گیا تو بنو قریظہ کے ساتھ موجود بنو نضیر کے سردار حُیَیّ بن اَخطب کو خندق کے کنارے لا یا گیا۔ اس شریر یہودی سردار نے بنو قینقاع کی بھی پیٹھ ٹھونکی تھی کہ کوئی فکر نہ کرو‘ ڈٹ جائو۔ پھر اپنے قبیلے بنو نضیر کے محاصرے کے وقت بھی آخری لمحے تک لوگوں کو اسلام دشمنی پر ابھارتا رہا۔ جب بنو نضیر کو شکست کے بعد مدینہ سے نکلنا پڑا تو اس نے خیبر سے بنوقریظہ کے ساتھ مسلسل رابطے رکھے۔ غزوۂ احزاب کے وقت یہ بنو قریظہ کے قَلعوں میں موجود تھا اور بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کی دانش مندانہ سوچ (کہ جنگ کے بغیر ہتھیار ڈال دیے جائیں) کے مقابلے پر دوسرے قبیلے کا فرد ہونے کے باوجود اپنی اثر انگیزی کی وجہ سے اس کی شر انگیز فکر غالب آگئی۔ اسے اسلام سے اس قدر دشمنی تھی کہ ہر اسلام دشمن قوت کے ساتھ والہانہ ہمدردی کا اظہار اور اعلان کیا کرتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس جنگ میں بنوقریظہ کی شکستِ فاش کے بعد اس کے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
اپنے قتل سے قبل اس نے گلابی رنگ کا ایک لمبا چُغہ پہنا اور ابو جہل کی طرح بڑی آب وتاب کے ساتھ خود کو قتل کے لیے پیش کیا۔ مسلمان مؤرخین اس قدر منصف مزاج ہیں کہ کم و بیش سبھی نے اس کے قتل کے واقعات کو مِن و عَن بیان کیا ہے اور اتنے بڑے اسلام دشمن کی آخری لمحات میں جرأت و شجاعت اور ثابت قدمی کے واقعات بلاکم و کاست حوالۂ تاریخ کر دیے ہیں۔ جب آنحضورﷺ کے مقرر کردہ مخصوص دستے حُیَیّ بن اَخطب کو لے کر خندق کے کنارے آئے تو آنحضورﷺ خود وہاں موجود تھے۔ اس موقع پر بھی اس نے آنحضورﷺ اور اسلام کے خلاف اپنی عداوت اور بغض کو چھپانے کے بجائے برملا اس کا اظہار کیا۔ آنحضورﷺ کو دیکھتے ہی اس نے کہا کہ آپ کی مخالفت میں مَیں نے جو کچھ کیا اس پر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے، نہ ہی میں اسے قابلِ ملامت سمجھتا ہوں۔ بہر حال جسے اللہ رسوا کردے، اسے کون بچا سکتا ہے۔
اس موقع پر اس نے درخواست کی کہ قتل سے قبل اسے چند لمحات دیے جائیں کہ وہ چند کلمات کہہ سکے؛ چنانچہ اسے اس کی اجازت دے دی گئی۔ اس نے وہاں پر موجود لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: ''اے لوگو! اللہ کا حکم آجائے تو کوئی مفر نہیں اور اسے قبول کرنے میں کوئی پروا بھی نہیں۔ بنی اسرائیل کے بارے میں اللہ نے جو مقدر کر دیا تھا، وہ اس کے ہاں لکھا ہوا تھا، اسے کوئی نہیں ٹال سکتا تھا‘‘۔
اس کے بعد اس نے خود کو جلاد کے سامنے پیش کر دیا اور ایک ہی ضرب میں اس کا کام تمام ہوگیا، یوں طویل عرصے تک اسلام کے خلاف اپنے بغض و عناد اور عداوت کا اظہار کرنے والا یہودی سردار اپنے قبیلے سے الگ تھلگ بنو قریظہ کے مقتولین کے ساتھ راہیِ ملکِ عدم اور واصلِ جہنم ہوا۔ مختلف مؤرخین نے اس واقعہ کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے لیکن ان سب کا بنیادی مآخذ سیرت ابن ہِشام ہے، جو سیرت نگار ابن ہِشام نے اپنی معرکہ آرا کتاب کی دوسری جلدمیں صفحہ 241 پر درج کیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں