حضرت نعیم بن مسعودؓ اپنے قبیلے کے لشکر کے ساتھ قریش کی مدد اور مسلمانوں کی تباہی کے لیے مدینے آئے تھے مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ان کے دل میں ممکن ہے‘ کبھی پہلے بھی ہدایت کی کوئی چمک پیدا ہوئی ہو‘ مگر اس محاصرے کے دوران تو رب کائنات نے ان کی کایا ہی پلٹ دی۔ دل میں دینِ اسلام کی محبت نے ایک بے نظیر چراغاں کر دیا۔ اب ان کے قلب و جگر میں ایک ہی خواہش تھی کہ اسلام دشمن لشکر خائب و خاسر ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہؓ کے ساتھ اس کڑی آزمائش میں فتح یاب ہوں۔ انہوں نے اپنی جنگی چال کا جو نقشہ بنایا، اللہ کے نبیﷺ نے اس کی تحسین فرمائی اور اللہ نے اس کی کامیابی کو یقینی بنا دیا۔ قریش اور یہود کے سرداروں سے رات کو خفیہ ملاقات کے بعدسب سے آخر میں حضرت نعیم اپنے قبیلے غطفان میں پہنچے اور سردارانِ قبیلہ عیینہ بن حصن الفزاری، طلیحہ بن خویلد الاسدی اور حارث بن عوف المری سے کہا کہ وہ ایک اہم بات پر ان سب سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس کے لیے تیار ہیں۔
ملاقات کے دوران آپؓ نے کہا: ''اے سردارانِ غطفان! میں غطفان کا فرزند ہوں۔ غطفان میری اصل اور جڑ ہیں۔ مجھے ساری دنیا سے زیادہ ان سے محبت ہے۔ آپ لوگوں کو اس بارے میں کوئی شک تو نہیں؟ ان سب نے بالاتفاق کہا ''جو کچھ تم کہہ رہے ہو ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ''میرے پاس ایک بڑی اہم خبر ہے۔ میں تمہیں ایک راز بتانے جا رہا ہوں۔ اسے فاش تو نہیں کرو گے؟‘‘ سب نے کہا کہ نہیں فاش کیوں کریں گے۔ اب بنو غطفان کو بھی انہوں نے بنو قریظہ کے بارے میں وہی بات بتائی جو قریش کو بتا چکے تھے اور پھر تاکیداً کہا کہ یہ یہودی تمہارے نوجوانوں کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں۔ یہودیوں کو اپنا ایک فرد بھی ضمانت کے طور پر نہ دینا۔ سردارانِ غطفان نے کہا کہ وہ اس نصیحت کے مطابق عمل کریں گے۔ انہوں نے اپنے قبیلے کے سپوت کا شکریہ بھی ادا کیا جس نے انہیں خطرے سے بروقت آگاہ کر دیا تھا۔
سردارانِ قبائل سے نعیم بن مسعودؓ نے اپنی جنگی چال خوب چلی۔ اتحادی فوجوں نے آپس میں مشورہ کیا۔ انہیں یہودیوں کی بدعہدی پر بڑا افسوس ہوا۔ انہوں نے ایک وفد ترتیب دیا جو جمعہ کی شام کو یہودیوں کے قلعے میں پہنچا۔ وفد نے براہِ راست بات کرنے کے بجائے بالواسطہ حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا: ''محاصرہ کافی طویل ہو چکا ہے۔ اب ہمیں فیصلہ کن اقدام کرنا ہے۔ کل صبح ہم دشمن پر کاری ضرب لگانا چاہتے ہیں۔ ہماری نظریں آپ لوگوں پر لگی ہوئی ہیں‘‘۔ وفد کی باتیں سن کر بنو قریظہ نے بھی براہِ راست اپنا مطالبہ پیش کرنے کے بجائے یوم السبت کا عذر پیش کر دیا اور کہا: ''تم جانتے ہو کہ کل تو یوم السبت ہے اور ہم سبت کی خلاف ورزی کسی صورت نہیں کر سکتے۔ پھر تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہماری اور تمہاری حیثیت میں بڑا فرق ہے۔ سبت کے بعد تم حملہ کرو تو ہم تمہارا ساتھ اس شرط کے ساتھ دے سکتے ہیں کہ تم اپنے ستر آدمی ہمارے پاس بھیج دو جو جنگ میں ہمارا ساتھ دیں‘‘۔
یہودیوں نے ستر آدمیوں کا مطالبہ پیش کیا تو ان کی بات سن کر وفد کو یقین ہو گیا کہ نعیم بن مسعود نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا مگر یہودیوں کو کوئی حتمی جواب دینے کے بجائے انہوں نے کہا کہ ہم اپنے بڑے سرداروں سے جا کر مشورہ کریں گے۔ جب وفد نے اتحادی فوجوں کے سرداروں کو اپنے مشن کی رپورٹ دی تو ان کے دلوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرا وفد بھیجا جائے جو جا کر یہودیوں کو اس بات پر راضی کرے کہ وہ یرغمالیوں کے بغیر اتحادی فوجوں کا ساتھ دیں۔ یہ وفد یہودیوں کے پاس پہنچا اور ان کو بتایا کہ یرغمالیوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے اور تمہارے درمیان دوستی بھی موجود ہے اور مسلمانوں سے عداوت کی وجہ سے ایک قدرِ مشترک بھی موجود ہے، لہٰذا تمہارا یہ مطالبہ بالکل نامناسب ہے۔
بنو قریظہ کے یہودیوں نے کہا کہ ان چکنی چپڑی باتوں سے ہم ہرگز قائل نہیں ہو سکتے۔ ابن سعد نے طبقات الکبریٰ کی جلد دوم کے صفحہ 69 پر بیان کیا ہے کہ بنو نضیر کا سردار حیَیْ بن اخطب‘ جو بنونضیر کی مدینہ سے جلاوطنی کے بعد اپنی خبیثانہ اسلام دشمن چالوں کی وجہ سے مدینہ کے اندر بنوقریظہ کے قلعوں میں مقیم تھا، اس موقع پر گھبراہٹ کا شکار ہو گیا‘ اس شیطان صفت یہودی سردار نے بنو قریظہ کو آمادہ کرنا چاہا کہ وہ قریش کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ وہ ملعون اسلام کا اتنا بڑا دشمن تھا کہ ہر قیمت پر پیغمبر اسلام کو نیچا دکھانا چاہتا تھا۔ مگر اس موقع پر اس کی بھی دال نہ گلی اور بنو قریظہ نے حتمی انداز میں کہا : ''خدا کی قسم ہم اپنا مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں ہرگز ہتھیار نہ اٹھائیں گے‘‘۔ (مزید تفصیلات سیرت ابن ہشام، جلد دوم، ص: 229 تا 230 اور البدایۃ والنہایۃ، ج: 1، ص: 734 تا 735 پر دیکھی جا سکتی ہیں)
کفار اور یہودیوں کے درمیان اختلافات کے بعد بنو قریظہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بھی رابطہ قائم کیا اور درخواست کی کہ ہم آپ کے ساتھ مصالحت کرنا چاہتے ہیں بشرطیکہ آپ ہمارے جلا وطن بھائیوں بنو نضیر کو مدینہ واپس آنے کی اجازت دے دیں۔ آنحضورﷺ نے ان کا یہ مطالبہ یکسر مسترد کر دیا۔ امام بیہقی نے یہ واقعہ دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔ اتحادی فوجوں کے حوصلے پہلے بھی کچھ بلند نہیں تھے مگر یہودیوں کے طرزِ عمل نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ حملہ آور فوجوں نے تقریباً تیس شب و روز سے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر رکھا تھا مگر انہیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ ان کی خوراک کا ذخیرہ ختم ہو چکا تھا۔ گوشت والے تمام جانور ذبح ہو چکے تھے۔ سواری کے جانوروں میں سے بھی بہت سے بھوک اور سردی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے اور باقی ماندہ بھی انتہائی لاغر اور کمزور ہو چکے تھے۔ اتحادی فوجوں نے یہودیوں کی بے وفائی پر ہنگامی اجلاس میں غوروخوض کیا تو سب سرداروں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ یہودیوں کو مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے اور اپنے اپنے علاقوں کی راہ لی جائے۔ اس دوران میں وہ شدید طوفان آ گیا جس کا تذکرہ سورۃ الاحزاب میں ملتا ہے۔
اتحادی فوجیں اب تک بنو قریظہ پر تکیہ کیے ہوئے تھیں کہ وہ مدینہ کے اندر سے مسلمانوں پر ہلہ بول دیں گے جس کے نتیجے میں مسلمان خندق کو چھوڑ کر اپنے گھروں اور اہل و عیال پر توجہ دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یوں خندق کو خالی پا کر اتحادی فوجیں مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں گی مگر اب سارا کھیل بگڑ چکا تھا اور ساری تدابیر الٹی ہو چکی تھیں۔ ابوسفیان نے لشکروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ''اب یہاں قیام کا کوئی فائدہ ہے نہ گنجائش۔ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں۔ خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابی جہل نے سردار کی رائے سے اختلاف کیا، مگر اس نے کوچ کا حتمی اعلان کر دیا۔ یہ سارا منظر حضرت حذیفہؓ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ان کو حضور اکرمﷺ نے کفار کے حالات معلوم کرنے کے لیے اس رات خندق کے پار جانے کا حکم دیا تھا۔ اس کٹھن ترین مہم پر آپؓ کا جانا اور حکمت و جرأت کے ساتھ مکمل معلومات حاصل کر کے بخریت واپس لوٹنا اتنا بڑا اعزاز ہے کہ جس پر سبھی صحابہ اور تابعین ان پر رشک کیا کرتے تھے۔ ان کی زبانی اس واقعہ کی بہت تفاصیل بیان ہوئی ہیں جو سیرت کی کتب میں محفوظ ہیں۔ اختصار یہ ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
''میں نے ابوسفیان کو اس دن پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ وہ میرے تیر کی زد میں تھا۔ میں بڑی آسانی سے اسے نشانہ بنا کر قتل کر سکتا تھا مگر آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ کسی پر ہرگز ہاتھ نہ اٹھانا۔ آپﷺ کے حکم کی وجہ سے میں نے اپنا ہاتھ روک لیا‘‘۔ حضرت حذیفہؓ ان لوگوں کی پست ہمتی اور ہزیمت سے محظوظ ہو رہے تھے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ''مجھے اﷲ نے اتنی جرأت عطا فرما دی کہ میرے دل میں کوئی خوف و خطر باقی نہ رہا۔ میں بلا جھجھک قریش اور غطفان کے لشکروں میں گھس گیا اور دشمنانِ اسلام کی سراسیمگی اور بدحواسی سے لطف اندوز ہونے لگا۔ لشکروں میں ہر جانب کوچ کوچ کا شور ہنگامہ برپا تھا‘‘۔
فوجوں کے راتوں رات محاصرہ اٹھا کر بھاگ جانے کے بعد اگلی صبح اہلِ مدینہ نے دیکھا کہ جہاں ہر جانب اسلحہ بردار دشمن ڈکار رہے تھے‘ وہاں کسی فرد بشر کا اب نام و نشان باقی نہ تھا۔ دشمن خائب و خاسر ہو کر واپس جا چکا تھا۔ اب اس کے لیے اپنے زخم چاٹنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ نے ایک کڑی آزمائش میں سے گزارا اور انہیں خالص سونا بنا دیا۔ احزاب کے چلے جانے کے بعد آنحضورﷺ نے صحابہ کرام کے حوصلوں کی تعریف کی اور ساتھ ہی یہ بشارت سنا دی: لا یغزونکم بعد ہا ابداً ولکن انتم تغزونہم۔ اس کے بعد وہ (دشمنانِ اسلام) تمہارے اوپر کبھی چڑھائی نہیں کریں گے بلکہ ان پر تم چڑھائی کرو گے۔ (جاری)