مادہ پرستی شیوئہ مومن نہیں…(2)

دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اَولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بُوئے اسد اللّٰہی
رسولِ رحمتﷺ کی دی ہوئی تربیت اور مدرسۂ نبوی کا فیضان تھا کہ سیدنا عثمانؓ بن عفان جن کی دولت‘ سخاوت اور فیاضی ضرب المثل تھی۔ خلیفہ بننے کے بعد آپؓ ایسی سادہ زندگی گزارنے لگے تھے کہ کپڑوں کے صرف دو جوڑے زیر استعمال رہتے تھے۔ ایک دھلنے کیلئے اتارتے تو دوسرا پہن لیتے۔ سواری کیلئے صرف دو اونٹ رکھے ہوئے تھے جو مدینہ سے مکہ کے سفر اور واپسی کیلئے استعمال ہوتے تھے۔ باقی ساری دولت راہِ خدا میں صرف کر دی تھی۔ ایک وسیع وعریض سلطنت کے حکمران اس خلیفۂ راشد نے اپنی شہادت سے پہلے اپنے مکان کی چھت سے شرپسند لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اپنی زندگی کا یہ پہلو اُن کے سامنے نمایاں کیا تو کوئی ایک مخالف بھی اس کی نفی نہ کر سکا تھا۔ سیدنا عثمانؓ بن عفان کو آنحضورﷺ نے غنی کا خطاب دیا تھا اور آپؓ واقعی سلطنتِ غنا کے تاجدار تھے۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سادگی وفقر کی راہوں پر چلنا عالی ہمت لوگوں ہی کی شان ہوتی ہے۔ سیرتِ مصطفی کی کرنوں کی جھلک رسول اللہﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کی زندگیوں میں نمایاں نظر آتی ہے۔ یہی حبِّ رسول کا تقاضا اور وفاداری کا ثبوت ہے۔ عملی اور غیر مشروط اطاعت کے بغیر محبت وعشق کے دعوے محض خود فریبی ہیں۔
سیدنا علیؓ بن ابی طالب حکمران تھے مگر پیوند لگے کپڑے زیب تن ہوتے اور نانِ جویں آپؓ کی خوراک ہوتی۔ راستے میں کوئی حاجت مند روک کر اپنا دکھڑا سنانے لگتا تو دیر تک اس کی بات پوری توجہ سے سنتے اور داد رسی فرماتے۔ کوئی بڑھیا اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ ہوتی تو اس کا بوجھ خود اٹھا لیتے۔ اس کے باوجود اللہ نے ایسا رعب بخشا تھا کہ کوئی بڑے سے بڑا سورما بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کر سکتا تھا۔ انسان کی عزت اور مقام ومرتبہ زرق برق لباس اور ہٹو بچو کے جھوٹے نعروں کا نہیں‘ کردار کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ آنحضورﷺ دعا فرمایا کرتے تھے: اے اللہ مجھے فقر کی زندگی دے اور اسی حالت میں مجھے دنیا سے بلا لے اور روزِ حشر مجھے مساکین کے ساتھ اٹھا‘‘ (حاکم عن ابی سعیدؓ‘ صحیح)۔ آقا و مولاﷺ کے زیر تربیت حضرت علیؓ نے یہ درس خوب یاد کر لیا تھا کہ انسان کا مقام ومرتبہ دولت کی ریل پیل سے نہیں بلکہ کردار سے متعین ہوتا ہے۔ آپؓ نے اسی لیے فرمایا کہ ''ہم ربِّ جبار کی تقسیمِ رزق پر بہ دل وجان خوش ہیں۔ ہمیں اطمینان ہے کہ ہمارے مقدر میں علم ہے اور جہلا کی تجوریوں میں مال وزر ہے‘‘۔
حضرت عمرؒبن عبد العزیز نے خلافت راشدہ کے ملوکیت میں بدل جانے کے بعد جب اقتدار سنبھالا تو ملوکیت کو پھر خلافتِ راشدہ میں تبدیل کر دیا۔ آپؒ تابعی بھی ہیں اور بہت بڑے مجدد بھی۔ آپ نے بنو امیہ کے شاہی خاندان میں آنکھ کھولی۔ آپ کا دادا مروان حکمران تھا۔ آپ کا تایا اور سسر عبد الملک بن مروان وقت کا بادشاہ تھا۔ آپ کے چار برادرانِ نسبتی (سالے) بھی حکمران ہوئے۔ ولید بن عبد الملک اور سلیمان بن عبد الملک آپ سے پہلے اور یزید بن عبد الملک اور ہشام بن عبدالملک آپ کے بعد حکمرانی کی مسند پر براجمان ہوئے۔ سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد جب بارِ حکومت آپ کے کندھوں پر آن پڑا تو آپ نے سب سے پہلے اپنی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔ تمام ناجائز مراعات بیت المال میں واپس جمع کرا دیں۔ خلافتِ راشدہ کے اس نظام کو زندہ کرنا آسان کام نہیں تھا لیکن آپ نے پورے شاہی خاندان سے تمام ناجائز جائیدادیں اور مراعات واپس لے کر بیت المال کے حوالے کر دیں۔
حضرت عمر ثانیؒ کے سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ اپنے گھر میں اپنی بچیوں سے ملنے کے لیے ان کے کمرے میں گئے تو بچیوں نے اپنے دوپٹوں کے پلو سے اپنے منہ ڈھانپ لیے۔ خلیفہ راشد نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا: ''بابا جان! آج خشک روٹی کے ساتھ کوئی سالن دستیاب نہیں تھا۔ ہم نے پیاز کے ساتھ روٹی کھائی ہے‘ جس کی وجہ سے ہمارے منہ سے پیاز کی بساند آ رہی ہے‘‘۔ اپنی بچیوں کی زبان سے یہ سننا تھا کہ عمرؒ بن عبدالعزیز کا جی بھر آیا۔ آپ نے بے ساختہ ان کو اپنے بازوئوں میں لے کر ان سے پیار کیا اور کہا: ''میری لختِ جگر! اگر میں چاہتا تو دنیا بھر کی دولت تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دیتا مگر اس صورت میں تم بھی اور تمہارا باپ بھی دوزخ کا ایندھن بن جاتے۔ میں نے چاہا کہ ہم دوزخ کی آگ سے بچ جائیں‘‘۔ یہ تھا اپنے عہد کا عادل حکمران! عظیم باپ کی عظیم بیٹیوں نے یہ سن کر کہا: ''بابا جان! ہمیں کوئی شکوہ نہیں‘ ہم اس زندگی پر راضی اور خوش ہیں‘‘۔ یہ تھیں اپنے وقت کی شہزادیاں! بسا اوقات ایک انسان خود اصلاح وتربیت کی منزلوں سے گزر کر اپنے آپ کو تبدیل کر لیتا ہے مگر اس کے اہل وعیال اگر اسی کے رنگ میں رنگے ہوئے نہ ہوں تو ہر قدم پر مشکلات پیش آتی ہیں۔ نبیِ مہربانﷺ کی تعلیمات اور قرآن کے واضح احکام کی روشنی میں اصلاحِ اہل وعیال کی بڑی اہمیت ہے اور یہی چیز اس مثال سے نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ ''قُوٓا انفسکم واھلیکم نارًا‘‘۔ ''بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے‘‘ (التحریم: 6) یہ قرآن کا بہت اہم حکم ہے جس پر سب اہل ایمان کو عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
نبی اکرمﷺ کا تقویٰ اور خوفِ خدا مثالی تھا۔ آپﷺ نے دنیا کی زندگی کو مسافرت قرار دیا اور امت کو بھی اس عارضی زندگی میں مسافر بن کر رہنے کی تلقین فرمائی۔ نبی اکرمﷺ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ان سے فرمایا: دنیا میں یوں زندگی گزارو جیسے کوئی اجنبی مسافر اور منزل کا راہی گزارتا ہے اور خود کو (ہمیشہ) اہلِ قبور میں شمار کرو (مسند احمد‘ ترمذی)۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ جب سے میں نے یہ حدیث سنی ہے‘ ہر صبح میں اپنے آپ سے کہتا ہوں کہ اے عبد اللہ! شاید یہ تیری زندگی کا آخری دن ہے اور ہر شام کو یہ کہتا ہوں کہ اے عبد اللہ! شاید یہ تیری زندگی کی آخری رات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک بندۂ مومن اس عارضی زندگی کے بارے میں یہی تصور قائم کرے تو آخرت کی منزلیں آسان ہو جاتی ہیں۔
جو شخص اس عارضی دنیا کی حقیقت کو جان لے اس کے لیے آخرت کی تیاری آسان ہو جاتی ہے۔ مومن رزقِ حلال سے گریز نہیں کرتا کہ وہ اللہ کی نعمت ہے مگر وہ دنیوی عیش وعشرت اور ٹھاٹ باٹ کے لیے رزقِ حرام کا ایک ذرہ بھی اپنے مال میں داخل نہیں کرتا۔ حضور پاکﷺ کا فرمان ہے: جو دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاتا ہے‘ وہ اپنی آخرت کا نقصان کر لیتا ہے اور جو آخرت کی محبت کو ترجیح دیتا ہے وہ دنیا کا نقصان گوارا کر لیتا ہے۔ پس تم فنا ہو جانے والی (دنیا) کے مقابلے میں اسے ترجیح دو جو باقی رہنے والی ہے (یعنی آخرت)۔ (مسند احمد‘ عن ابی موسیٰ الاشعریؓ)۔ سادگی مسلمان کے لیے باعثِ عزت ہے وجۂ عار نہیں۔ مادی تعیشات کے پیچھے بھاگنے والے اور حلال و حرام کی تمیز سے بے پروا عناصر اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ آنکھیں بند کرتے ہی یہ سب ٹھاٹ باٹ ختم ہو جائے گا۔ پھر قبر کی تنہائیاں اور تاریکیاں ہوں گی اور وہاں اگر کوئی روشنی ہو گی تو وہ تقویٰ اور پرہیز گاری‘ اطاعتِ الٰہی اور خدمتِ خلق ہی کی بدولت ہو گی۔ ہم جس نبی کی امت ہیں اور جن سے محبت کے دعوے کرتے ہیں‘ ان جیسی زندگی گزارنا جنہیں بوجھ اور عار محسوس ہوتا ہے‘ وہ خود سوچ لیں کہ ان کا انجام کس گروہ کے ساتھ ہوگا۔
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
کچھ کام نہ آوے گا تیرے‘ یہ لعل زمرد سیم و زر

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں