اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: ''(اے نبی) جن کو آپ چاہتے ہیں‘ انہیں ہدایت نہیں دے سکتے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں‘‘ (القصص: 56)۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی انسان اس بات پر قادر نہیں ہے کہ کسی دوسرے انسان کو لازماً ہدایت دے دے۔ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے اور وہ جانتا ہے کہ کون ہدایت کا استحقاق رکھتا ہے۔
عرب کے جاہلی معاشرے میں ہر جانب ظلم وستم اور کفر وشرک کا دور دورہ تھا۔ ایک بدوی قبیلے کا نوجوان خطرناک ترین ڈاکو تھا۔ اس کا دھندا ہی لوٹ مار تھا۔ اپنے قبیلے اور گرد ونواح کے دیگر قبائل کے لوگ بھی اپنے شریر بچوں کو اس کے نام سے ڈراتے تھے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک رات ڈاکے کے دوران اس کے دل میں اچانک یہ خیال آیا کہ میں کس قدر بدبخت اور سنگدل ہوں‘ جرائم ہی جرائم میرے کھاتے میں جمع ہیں۔ اس خیال نے اس کی زندگی کا دھارا بدل دیا۔
وہ ڈاکو اب راتوں کو ڈاکا زنی کے بجائے غسل کرتا اور عبادت کے لیے کھڑا ہو جاتا۔ عربوں میں بت پرستی کے باوجود خدائے واحد کا تصور موجود تھا۔ قرآن پاک میں اس کی طرف کئی مقامات پر اشارات ملتے ہیں۔ ''اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے! پھر یہ کدھر سے دھوکا کھا رہے ہیں؟ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے‘ یقینا اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جِلا اٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔ کہو: الحمدللہ مگر ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں ہیں‘‘ (العنکبوت: 61 تا 63)۔
یہ ڈاکو رو رو کر کہتا: ''اے اللہ! اے ربِّ کعبہ! میں نہیں جانتا کہ تیری عبادات کا کیا طریقہ ہے۔ میں تیرے سامنے حاضر ہوں اور دست بستہ عرض گزار ہوں کہ مجھے معاف فرما دے‘‘۔ اسی کشمکش میں دن رات گزر رہے تھے اور تمام لوگ حیران تھے کہ خطرناک ڈاکو کو کیا ہو گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے یہاں تک بھی کہا کہ یہ پاگل ہو گیا ہے! ہاں یہ بات بھی اپنی جگہ وزنی تھی کہ عاشقوں کو لوگ مجنون ہی تو کہتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کون شخص تھا۔ اس کا نام جندب بن جنادہ تھا جس کا تعلق قبیلہ بنوغفار سے تھا۔ یہ وہی عظیم صحابی ہیں جو تاریخ میں ابوذر غفاریؓ کے نام سے زندہ جاوید ہیں۔
روایات میں آتا ہے کہ جندب تلاشِ حق میں سرگرداں تھا کہ کسی نے بتایا مکہ میں ایک قریشی نوجوان نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور وہ کہتا ہے کہ بتوں کی پوجا کرنے کے بجائے ایک اللہ کی پرستش کرو۔ اس مجنون نے یہ بات سنی تو دل میں ایک امید پیدا ہوئی کہ شاید گتھی سلجھ جائے۔ اپنے چھوٹے بھائی انیس کو مکہ بھیجا کہ وہاں جا کر اصل صورت حال معلوم کرو اور پھر واپس آ کر مجھے بتائو۔ اس کا بھائی مکہ گیا‘ کچھ دن وہاں قیام کیا اور حالات معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اس نے واپس آ کر اپنے بھائی کو جو معلومات دیں وہ ادھوری تھیں جن سے متلاشی ذہن کی تسلی نہ ہوئی۔ پھر اس ''خطرناک ڈاکو‘‘ نے فیصلہ کیا کہ وہ خود مکہ جا کرحقائق کو تلاش کرے۔ مکہ میں اسے کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ وہ اس انتظار میں تھا کہ کبھی اس شخص سے ملاقات ہو جائے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔
اجنبی مسافر نے زمزم کے پاس ڈیرا لگا لیا اور زمزم کے پانی ہی سے دو تین دن تک بھوک اور پیاس مٹاتا رہا۔ حضرت علیؓ اس زمانے میں بالکل نو عمر تھے اور بلا کے ذہین اور صاحب فراست۔ آپؓ نے دیکھا کہ ایک اجنبی آدمی چند دنوں سے یہاں زمزم کے پاس مقیم ہے تو آپ اس کے قریب گئے اور حال احوال معلوم کیا۔ اجنبی نے اپنی خواہش پیش کی تو حضرت علیؓ نے فرمایا: تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ اللہ نے اپنا نبی ہمارے درمیان مبعوث فرمایا ہے جو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔ آئو تم میرے ساتھ مگر ذرا مجھ سے فاصلے پر رہنا۔ یوں پیاسا چشمے پر پہنچ گیا۔ جب آنحضورﷺ نے اجنبی مسافر کے سامنے اپنی دعوت پیش کی تو اس نے بلاتوقف کلمہ شہادت پڑھا اور خود کو اسلام میں داخل کرنے کا شرف حاصل کر لیا۔ ان سے قبل مکہ میں چند ہی لوگ مسلمان ہوئے تھے۔ بعض روایات کے مطابق حضرت خدیجہؓ‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ‘ حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ بن حارثہ کے بعد یہ پانچویں صحابی تھے جو ایمان لائے۔ گویا سابقون الاولون میں سے تھے۔اس اجنبی نے اپنا تعارف کرایا کہ میں جندب بن جنادہ ہوں اور بنو غفار سے تعلق رکھتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: اچھا تم ابوذر غفاری ہو۔ اسی سے آپؓ کا نام ابوذرغفاری مشہور ہوا۔ ابوذرؓ نے عرض کیا: یہ کلمہ جو آپ نے مجھے پڑھایا ہے میں چاہتا ہوں قریش کے مجمع میں جا کر بلند آواز سے پڑھوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ابوذر ایسا نہ کرو۔ ابھی یہ دور اس طرح کھلا اعلان کرنے کا متقاضی نہیں ہے۔ ا نہوں نے اصرار کے ساتھ عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ مجھے اس کے بغیر چین نہیں آئے گا۔ آپﷺ نے فرمایا: قریش تمہیں اس کی سخت سزا دیں گے۔ عرض کیا: مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔
روا یات میں بیان ہوا ہے کہ حضرت ابوذرؓ کے قبول اسلام کے وقت سیدنا ابوبکر صدیقؓ بھی آپﷺ کے پاس بیٹھے تھے۔ آپ ماہر انساب تھے۔ آپؓ نے فرمایا کہ ابوذر کا نسب نبی پاکﷺ سے پندرہویں پشت پر جا کر مل جاتا ہے۔ جندب بن جنادہ بن قیس بن عامر بن ملیل بن صعیر بن حزام بن غفار۔ قبول اسلام کے وقت نبی پاکﷺ نے ابوذر سے پوچھا کہ اتنے دن کیا کھایا پیا؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ زمزم کے علاوہ کوئی چیز کھائی نہ پی۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ مجھے اجازت دیں کہ میں ابوذر کو کچھ کھلائوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ حضرت ابوبکرؓ ان کو اپنے ساتھ گھر لے گئے اور طائف کے انگوروں کا خشک میوہ آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ کئی دنوں کے بعد یہ پہلی غذا تھی جو آپ نے تناول فرمائی۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر سے واپس آنحضورﷺ کے پاس آئے اور اپنی خواہش کا پھر اظہار کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: اچھا جائو‘ اپنی خواہش کو پورا کر لو۔ آپؓ قریش کے مجمع میں پہنچے اور بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا۔ قریش نے یہ سنا تو بپھر کر ان پر حملہ آور ہو گئے۔ سب نے مار پٹائی شروع کر دی۔ وہ مار کھاتے جا رہے تھے اور کلمہ شہادت دہراتے جا رہے تھے۔ ایسے میں رسول اللہﷺ کے چچا عباس‘ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے‘ دور سے اس منظر کو دیکھ کر دوڑے دوڑے آئے اور اجنبی کو قریش کے نوجوانوں سے چھڑایا اور انہیں سرزنش کی کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ بعض روایات کے مطابق حضرت ابوذرؓ نے دو یا تین دن یہی عمل دہرایا اور اسی طرح قریش سے مار کھائی۔ آخری دن حضرت عباسؓ نے ان لوگوں کو بتایا کہ اللہ کے بندو! عقل سے کام لو یہ بنو غفار کے سرداروں میں سے ایک سردار ہے اور تم جانتے ہو کہ بنو غفار کتنے طاقتور جنگجو ہیں۔ تمہارے تجارتی قافلے اس قبیلے کے پاس سے گزرتے ہیں۔ تمہاری اس حرکت سے تمہارے قافلے محفوظ نہیں رہیں گے۔ اس تنبیہ سے کفارِ قریش کو اپنے تجارتی قافلوں کے بارے میں تشویش ہوئی!!
جب حضرت ابوذرغفاریؓ آنحضورﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: اے ابوذر! اب تم اپنے قبیلے میں چلے جائو اور وہاں اپنے لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرو۔ آپ نے واپس جا کر سب سے پہلے اپنے دو بھائیوں اور والدہ کو اسلام کی دعوت دی۔ ان تینوں نے دعوت کو قبول کر لیا۔ ابوذرؓ اس سے بہت خوش ہوئے اور اب بڑی ہمت اور امید کے ساتھ پورے قبیلے میں دعوت کا کام شروع کر دیا۔ (جاری)