قبیلہ بنو غفار خوش نصیب تھا کہ اس نے رسول اللہﷺ کی مخالفت کرنے کے بجائے مثبت رویہ اپنایا۔ بعض لوگوں نے دعوتِ اسلام کو قبول کرنے سے انکار تو کیا مگر سخت ردِعمل یا مخالفت کا اظہار نہیں کیا اور بعض لوگوں نے تو اس دعوت کو سنا اور قبول کر لیا۔ جس تیزی کے ساتھ بنو غفار میں اسلام کی دعوت پھیلی وہ ایک مثال ہے۔ اس انداز میں کسی دوسرے قبیلے میں دعوتِ اسلام کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی تھیں۔ بنوغفار کے جوار میں رہنے والے قبیلہ بنو اسلم نے بھی ان کو دیکھ کر اسلام کی طرف رجوع کیا اور ان میں سے بھی بے شمار لوگ مسلمان ہونے لگے۔ ہجرت کے بعد ان دونوں قبیلوں کے لوگ مدینہ آنے لگے۔ آپﷺ نے بنو غفار کے لوگوں کے بارے میں دعائیہ الفاظ یوں ادا فرمائے: ''اللہ بنو غفار کی مغفرت فرمائے اور بنو اسلم کو سلامت رکھے‘‘۔ (صحیح مسلم‘ مسند احمد)
حضرت ابوذر غفاریؓ کا صحابہ کرام کے درمیان بہت بلند مقام ہے کیونکہ حضورﷺ نے بارہا ان کے مناقب بیان فرمائے جو احادیث کے مجموعوں میں محفوظ ہیں۔ حضرت ابوذرؓ ایک مرتبہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے حضور پاکﷺ کو سلام کہا تو آپﷺ کے چہرہ مبارک پر خوشی دوڑ گئی اور آپﷺ نے فرمایا: ''آسمان نے کسی فرد پر سایہ نہیں کیا اور نہ زمین نے اپنے اوپر کسی کو پناہ دی جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو‘‘ (جامع ترمذی)۔ سبحان اللہ! فرزندِ قبیلہ غفار کے لیے یہ کتنا بڑا اعزاز ہے۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ دنیا کے مال ودولت سے زندگی بھر دور رہے۔ جس شخص کو آنحضورﷺ کی زبانِ مبارک سے مندرجہ بالا جملے عطا ہوئے ہوں‘ اس کے نزدیک دنیا کی مادی دولت کی کیا وقعت ہے۔ آپؓ کے مناقب میں امام ترمذی نے جو روایت بیان کی ہے اس کے الفاظ ہیں: ''ابوذر زمین میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام جیسے زہد کے ساتھ زندگی گزارتا ہے‘‘۔
ابوذر غفاریؓ کی پاکیزہ زندگی کا عکس اس شعر میں دیکھا جا سکتا ہے:
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
حضور پاکﷺ کے حکم کے مطابق حضرت ابوذرغفاریؓ اپنے قبیلے اور گرد ونواح کے قبائل میں دعوت وتبلیغ کے کام کرتے رہے۔ ہجرتِ نبوی کے بعد اس علاقے سے مختلف اہلِ ایمان نے بھی مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوذر غفاریؓ جنگِ خندق کے بعد مدینہ میں آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بدر‘ احد اور خندق کے معرکوں میں شرکت سے محروم رہے؛ البتہ اس کے بعد ہر جنگ اور ہر مہم میں حضور پاکﷺ کے ساتھ شرکت کی سعادت حاصل کی۔
غزوۂ تبوک جسے قرآن وحدیث میں غزوۂ عُسرہ (مشکل ترین جنگ) کہا گیا ہے‘ بڑے ایمان افروز واقعات سے پُر ہے۔ حضور اکرمﷺ تیس ہزار صحابہ کے ساتھ دنیا کی نام نہاد سپر طاقت روم کے مقابلے کے لیے مدینہ سے تبوک روانہ ہوئے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کا اونٹ کمزور تھا مگر آپؓ نے اسی پر سوار ہو کر جہاد میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ موسم انتہائی گرم اور سفر بہت طویل تھا۔ ریگستان میں دوپہر کے وقت دھوپ اور گرمی جان لیوا ہوتی تھی۔ قرآن پاک میں غزوۂ تبوک کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
''جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور (اس امر پر) گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے کہ اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کریں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا ''اس سخت گرمی میں نہ نکلو‘‘۔ ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے کاش انہیں اس کا شعور ہوتا‘‘ (التوبہ: 81)۔
اس شدت کی گرمی میں صحرا کے ایک مقام پر پہنچ کر حضرت ابوذرؓ کا مریل اونٹ تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ آپؓ نے اسے اٹھانے کی بڑی کوشش کی مگر وہ نہ اٹھ سکا۔ حضرت ابوذرؓ نے اونٹ کو وہیں چھوڑا اور اپنا سامان کمر پر لاد کر پیدل ہی چل پڑے۔ آپﷺ راستے میں کسی جگہ سستانے کے لیے ٹھہرے ہوئے تھے۔ صحابہ نے صحرا میں ایک تنہا شخص کو پیدل سامان اٹھائے آتے ہوئے دیکھا تو آپﷺ کو خبر دی۔ آپﷺ نے فرمایا: میرا خیال ہے وہ ابوذر ہو گا۔ قریب آنے پر صحابہ کرام نے پہچان لیا کہ وہ ابوذر ہی ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! وہ ابوذر ہی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ ابوذر پر رحم فرمائے۔ وہ تنہا چلے گا‘ تنہا مرے گا اور تنہا ہی اٹھایا جائے گا۔ (سیرۃ النبویہ ابن ہشام)
حضرت ابوذرؓ جب قافلے میں آ پہنچے تو بعض صحابہ نے آنحضورﷺ کے فرمودات ان کے سامنے پیش کیے۔ آپؓ نے حضورﷺ کی خدمت میں جا کر عرض کیا: ''مجھے موت کا کوئی ڈر نہیں مگر اس بات سے تشویش ہوئی ہے کہ اگر میں تنہا فوت ہو جائوں گا تو میرا جنازہ کون پڑھے گا‘ میری قبر اور تکفین و تدفین کا کیا بنے گا؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت تیری نمازِ جنازہ میں شریک ہو گی۔ اس پر آپؓ مطمئن ہو گئے۔
حضرت ابوذرؓ کو آنحضورﷺ سے بے پناہ محبت تھی اور یہ آپؓ کی خوش قسمتی ہے کہ حضور پاکﷺ بھی آپ سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ جب کبھی آپؓ کوئی حدیث بیان کرتے تو کہتے۔ ''مجھ سے میرے خلیلﷺ نے یہ فرمایا...‘‘
حضرت ابوذر غفاریؓ کی زبانی ایک حدیث بیان ہوئی ہے جسے بخاری ومسلم نے بھی روایت کیا اور تمام محدثین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ابوذر غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے پاس میرے رب کا ایک آنے والا (فرشتہ) آیا۔ اس نے مجھے خوشخبری دی کہ میری امت میں سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس نے کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ اس پر میں (ابوذر) نے پوچھا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو‘ اگرچہ اس نے چوری کی ہو؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہاں! اگرچہ زنا کیا ہو‘ اگرچہ چوری کی ہو۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے تین مرتبہ اپنا سوال دہرایا اور تینوں مرتبہ حضور اکرمﷺ نے وہی جواب دیا۔ تیسری مرتبہ آپﷺ نے جواب دینے کے بعد فرمایا: ''اگرچہ ابوذر کو یہ کتنا ہی ناگوار گزرے‘‘۔ اس میں آنحضورﷺ کی تلقین و تنبیہ بھی ہے اور اظہارِ شفقت واپنائیت بھی واضح نظر آتا ہے۔ حضرت ابوذرؓ کا کمال ہے کہ جب بھی یہ حدیث بیان کرتے‘ آخر میں حضورﷺ کے اس فقرے کو ضرور دہراتے کہ ''اگرچہ ابوذر کو کتنا ہی ناگوار گزرے‘‘۔
حضور پاکﷺ نے حضرت ابوذرؓ کو ایک مرتبہ مدینہ کی کسی مسجد میں دیکھا۔ آپﷺ نے پوچھا: اے ابوذر! کیا تُو نے مسجد کا حق ادا کیا؟ عرض کیا: یا رسول اللہﷺ مسجد کا حق کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جب تو مسجد میں آئے تو دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے؛ چنانچہ ابوذرغفاریؓ اٹھے اور انہوں نے دو رکعت ادا کیے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا اے ابوذر! اگر تجھے اس مسجد سے نکل جانے کا حکم دیا جائے تو کیا کرے گا؟ عرض کیا: میں مسجد نبوی میں چلا جائوں گا۔ آپﷺ نے کہا: اگر وہاں سے بھی تمہیں نکلنے کا حکم ملے تو کیا کرو گے؟ کہا: یا رسول اللہﷺ میں اپنی تلوار نکال لوں گا اور مسجد نبوی سے نکالنے والوں کے سامنے ڈٹ جائوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا: ابوذر! ایسا نہ کرنا اور جو حکم تمہیں ملے اس کی اطاعت کرنا۔ (جاری)