ارقم بن عبد مناف رضی اللہ عنہ

رسول رحمتﷺ غار حرا سے نورِ ہدایت لے کر مکہ آئے تو پورا شہر جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ بت پرستی نے نورِ توحید لوگوں کی نظروں سے بالکل غائب کر دیا تھا۔ اس اندھیر نگری میں قریش کے مختلف خاندان ایک ہی نسل سے ہونے کے باوجود خاندانی وقبائلی عصبیت کی گہری دلدل میں پھنس چکے تھے۔ پیغامِ توحید ان سارے امراض کا علاج تھا اور یہ پیغام لانے والی ہستی قبائلی عصبیتوں کے باوجود سبھی اہلِ مکہ کے درمیان نہایت معزز ومعتبر شمار ہوتی تھی۔ اس دورِ جاہلیت میں بھی سبھی اہلِ مکہ اس ہاشمی نوجوان کو صادق وامین کہہ کر پکارتے تھے۔ تاریخ نے ورق الٹا اور محمد بن عبداللہ محمد رسول اللہﷺ کے اعلیٰ مقام پر فائز کر دیے گئے۔
جب اللہ کے اس رسول محبوبﷺ نے کلمۂ توحید کی طرف لوگوں کو دعوت دی تو مخالفتوں کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ صادق وامین کو کاہن‘ شاعر حتیٰ کہ مجنون تک کہا جانے لگا۔ العیاذ باللہ! قریش کے سبھی قبائل کبر وغرور اور خاندانی تعصب میں مبتلا تھے مگر ان میں بنو مخزوم‘ بنو ہاشم‘ بنو اُمیہ تو ایک دوسرے کے ہر معاملے میں حریف بن کر سامنے آتے تھے۔ ایسی فضا میں بنو ہاشم کا دُرِّ یتیم اعلان کر رہا تھا کہ اسے اللہ نے اپنا نمائندہ بنا کر بنی نوع آدم کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ بنو مخزوم کا متکبّر اور اکھڑ سردار عمرو بن ہشام (ابوجہل) بنو اُمیہ کے سرداران عتبہ‘ شیبہ اور ابوسفیان‘ بنو جمیح کے سردار امیہ بن خلف اور ابی بن خلف اور دیگر تمام خاندانوں کے اہم افراد عقبہ بن ابی معیط‘ نضربن حارث اور عاص بن واثل سب مل کر نورِ حق کی شعاعوں اور وحی ٔ ربانی کی خوشبو کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ بھلا آفتاب کی شعاؤں کو کون سی دیوار روک سکتی ہے اور خوشبو کو کون قید کر سکتا ہے۔
نورِ توحید سارے مظالم اور رکاوٹوں کے باوجود پھیل رہا تھا۔ آہستہ آہستہ سب بڑے بڑے مخالف سردارانِ قریش کے اپنے گھروں میں یہ انقلابی پیغام سرایت کرتا جا رہا تھا۔ ابوجہل کے بھائی سلمہؓ بن ہشام اور عیاشؓ بن ابی ربیعہ جاہلیت کی تمام دیواریں مسمار کرتے ہوئے داخلِ اسلام ہو گئے۔ عتبہ بن ربیعہ کا بیٹا ابو حذیفہؓ‘ ابوسفیان کی بیٹی اُم حبیبہؓ سبھی دورِ اول میں مسلمان ہونے والوں میں شامل ہیں۔ ان انفاسِ قدسیہ کی جو تحسین اللہ اور اس کے رسول برحقﷺ نے قرآن و حدیث میں فرمائی‘ اس کے مقابلے میں سارے جہاں کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ تاریخ انسانی کے وہ روشن ستارے ہیں جن کی چمک تا قیامت قافلوں کو راستہ دکھاتی رہے گی۔ اللہ کے پیارے نبیﷺ کا دامنِ رحمت قیمتی ہیروں سے بھرا ہوا تھا۔ دنیا کی کوئی طاقت ان کو نہیں جھکا سکی تھی۔ یہ محض اللہ کے سامنے جھکنے والے اہلِ ایمان تھے۔
ارقم بن ابی الارقم ابوجہل کے خاندان کا چشم وچراغ تھا۔ اس کے والد کا نام عبد مناف تھا مگر وہ اپنی کنیت ابو ارقم کی نسبت سے زیادہ مشہور تھا جو اس کے بیٹے ارقم کی وجہ سے اس کے نام کا حصہ بن گئی تھی۔ اس خاندان کا گھر مکہ کے بہترین‘ شاندار اور مضبوط گھروں میں سے ایک تھا۔ دعوتِ اسلام کے آغاز ہی سے حضور پاکﷺ اور آپ کے صحابہؓ پر ظلم وستم شروع ہو گیا تھا۔ غلاموں اور کنیزوں میں سے جو لوگ ایمان کی دولت سے مستفید ہوئے تھے‘ ان کے لیے تو زندگی جہنم بنا دی گئی تھی مگر سلام ہے ان اللہ والوں کی استقامت کو‘ کبھی ان میں سے کسی ایک نے بھی اسلام چھوڑ کر کفر کی طرف لوٹنے کا ارادہ تک نہ کیا۔
ایسے پُرآشوب حالات میں بنو مخزوم کے اس نو عمر مخزومی نے ایک عظیم اور تاریخی فیصلہ کیا۔ اس نے اپناگھر حضور پاکﷺ کی خدمت میں اسلامی مرکز اور درس گاہ بنانے کے لیے ہدیہ کر دیا۔ اس گھر میں کئی بار جبریل امین وحی لے کر حاضر ہوتے رہے۔ یہ گھر اب درسگاہ اور مہبطِ وحی کے ساتھ مظلومین کی پناہ گاہ بھی بن گیا۔ اسلام کا یہ اولین مدرسہ حضرت ارقم کی نسبت سے ''دار الارقم‘‘ کہلایا۔ اسی مرکز میں کئی صحابہ ؓآکر مسلمان ہوئے۔ سب سے اہم واقعہ حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کا ہے‘ جس کا تفصیلی تذکرہ میری کتاب ''سیرتِ عشرہ مبشرہ‘‘ میں ص: 247 تا 250 پر درج ہے۔
قبولِ اسلام کے وقت حضرت ارقم کی عمر سترہ یا اٹھارہ سال بیان کی گئی ہے۔ آپؓ کا گھر صفا ومروہ سے مشرق کی جانب چند گز کے فاصلے پر تھا۔ یہ گھر دارِ ارقم کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور آج تک تاریخ میں اس کا نام روشن ہے۔ حضرت ارقمؓ نے نہ صرف آنحضورﷺ کو اپنا گھر پیش کر دیا تھا بلکہ وہ آپﷺ کی خدمت اور تواضع کا بھی حق ادا کرتے تھے۔ ابوجہل اپنے خاندان کے اس نوجوان صحابی کو برا بھلا تو کہتا تھا مگر اسے کبھی ہمت نہ پڑی کہ اس پر ہاتھ اٹھائے۔ حضرت ارقمؓ کا گھرانہ بنو مخزوم کے آسودہ اور خوشحال گھرانوں میں سے تھا۔ آپؓ کے والد سے ابوجہل قرض بھی لیا کرتا تھا‘ اس لیے اپنے تمام اسلام دشمن جذبات کے باوجود وہ حضرت ارقمؓ کا راستہ نہ روک سکا۔ حضرت ارقمؓ نے جب اپنا گھر آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو اس پر ابوجہل بہت سیخ پا ہوا مگر اس کے بس میں کچھ نہ تھا کہ اس نیک کام کے راستے میں رکاوٹ ڈال سکے۔
دارِ ارقم میں جس روز حضرت عمرؓ حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا‘ وہ دن اسلام کی تاریخ میں عظیم انقلابی دن تھا۔ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کے روز اول ہی آپؓ کی درخواست پر پہلی بار نبی اکرمﷺ نے اپنے صحابہ کے ساتھ‘ جن کی تعداد کم وبیش چالیس تھی‘ حرم شریف میں جا کر نماز ادا کی۔ اس روز کے کیا کہنے جب دو قطاریں بنا کر مسلمان دارِ ارقم سے بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے۔ ایک قطار کے آگے حضرت حمزہؓ اور دوسری قطار کے آگے حضرت عمرؓ چل رہے تھے ۔ کسی بڑے سے بڑے کافر کو بھی اس عملِ خیر میں رکاوٹ بننے کی ہمت نہ ہوئی۔
جب آنحضورﷺ نے ہجرتِ مدینہ کا حکم دیا تو حضرت ارقمؓ بھی مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے گئے۔ مدینہ میں آنحضورﷺ نے حضرت ارقمؓ کی اخوت حضرت زیدؓ بن سہل (ابو طلحہ انصاریؓ) سے قائم کی۔ حضرت ارقمؓ مکہ میں قریش کے ایک مالدار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مدینہ منورہ میں انہوں نے تجارت کے ذریعے جو مال کمایا اس سے اپنی ضروریات بھی پوری کیں اور دیگر صاحبِ حاجت صحابہ کے ساتھ بھی تعاون کیا۔ یہاں قیام کے دوران ایک مرتبہ حضرت ارقمؓ نے ارادہ کیا کہ بیت المقدس جا کر قبلۂ اول کی زیارت کریں اور وہاں نماز پڑھنے کا اعزاز حاصل کریں۔ اس وقت تک بیت المقدس پر عیسائیوں کا قبضہ تھا۔ ابھی تک تحویل کعبہ کا حکم بھی نازل نہیں ہوا تھا۔ اس لیے بیت المقدس ہی اہلِ ایمان کا قبلہ تھا۔
آنحضورﷺ کو آپؓ کے ارادے کی اطلاع ملی تو پوچھا: ارقم کس مقصد کے لیے سفر کر رہے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ حصولِ ثواب کی خاطر بیت المقدس میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ اس پر آپﷺ نے انہیں بتایا کہ بیت اللہ (خانہ کعبہ‘ مسجد حرام) کو چھوڑ کر دنیا کی تمام مساجد سے زیادہ ثواب مسجد نبوی میں ملتا ہے۔ یہاں کی ایک نماز تمام مساجد سے ہزار درجے افضل ہے۔ یہ سن کر آپؓ نے اس سفر کا ارادہ ترک کر دیا۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو آپؓ نے اپنی اس خواہش کی بھی تکمیل کی اور آنحضورﷺ کا فرمان بھی دل میں تازہ ہو گیا۔
حضرت ارقمؓ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں باقاعدہ پانچوں نمازیں ادا کیا کرتے تھے۔ جب جہاد پر جانا ہوتا تو جانے سے پہلے مسجد میں دو رکعت نفل ادا کرتے۔ اور جب جہاد سے واپس آتے تو بھی آپؓ کا معمول تھا کہ مسجد نبوی میں دو نفل پڑھ کر اپنے گھر جائیں۔ آپؓ شب زندہ دار بھی تھے اور مجاہد نامدار بھی۔آپؓ کی زندگی خوبیوں سے مالا مال تھی۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں