برصغیر میں ہر سیاسی جماعت خواب بیچتی ہے۔ انتخابی منشور غریبوں کے لیے ایک خواب نگری ہوتے ہیں جہاں انہیں اپنا ہر دکھ، غم اور محرومی مٹتی دکھائی دیتی ہے۔ آخر سیاسی جماعتیں خوابوں کی سوداگری کیوں کرتی ہیں؟ کیا انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ جو وعدے وہ کر رہی ہیں ان کی تعبیر ممکن نہیں یا پھر خوابوں کی تکمیل کی جو ڈیڈ لائن وہ رہی ہیں وہ ناقابل عمل ہے؟
اس سوال کا جواب بھارت کے موجودہ مرکزی وزیر اور دو ہزار دس سے تیرہ کے دوران بی جے پی کے صدر رہنے والے نیتن گڈکری نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دیا تھا‘ جب بی جے پی طویل عرصے بعد مرکز میں اقتدار میں آئی اور مودی وزیر اعظم بنے۔ نیتن گڈکری نے بلا تکلف کہا تھا کہ اقتدار میں آ جانا ان لوگوں کے خواب و خیال میں نہیں تھا‘ اس لیے کسی نے مشورہ دیا‘ لمبے چوڑے وعدے کرنا شروع کر دو کیونکہ آپ کون سے اقتدار میں آنے والے ہیں۔ اب عوام نے حقیقت میں ہمیں ووٹ دے کر اقتدار سونپ دیا۔ اس جواب کے بعد گڈکری کا قہقہہ بلند ہوا۔ اس مکالمے میں جب نیتن گڈکری سے پوچھا گیا کہ جس وقت لوگ وعدے یاد دلاتے ہیں تو آپ کیا کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہم مسکرا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
تحریک انصاف تبدیلی کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی‘ جس نے ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ گھروں کا خواب غریب کو دکھایا۔ اس جماعت کے رہنما دنوں میں معاشی حالات بدلنے کا خواب دکھاتے رہے لیکن جب وعدے پورے کرنے کا وقت آیا تو ملازمتیں دینے کی بجائے لنگر خانوں کا افتتاح شروع ہو گیا۔ غریب کو چھت دینے کی بجائے شیلٹر ہوم بنانے شروع کر دیئے گئے۔
شیلٹر ہومز اور لنگر خانے کی مخالفت برائے مخالفت ہمارا مقصود نہیں‘ لیکن یہ سب وقتی ریلیف ہیں۔ غربت کے خاتمے اور غریبوں کو چھت مہیا کرنے کے لیے تحریک انصاف کی حکومت میں کوئی ٹھوس قدم اٹھایا گیا ہے؟ کیا وعدوں کی تکمیل کے لیے ان کے پاس جامع منصوبہ بندی موجود ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب دینے کی بجائے تحریک انصاف کے کارکن سوال پوچھنے والوں پر طعنوں اور گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ ان کا بھی قصور نہیں، یہ سب ابھی تک اس خواب میں مگن ہیں اور خواب پورا ہونے کی امید میں نیند ٹوٹنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان پہلے لنگر خانے کے افتتاح کے بعد چین کے دورے پر ہیں۔ ان کے دورے کے مقاصد کثیر جہتی ہوں گے۔ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے جس طرح وہ چین کے ماڈل پر فدا ہیں اور چین کے صدر شی جن پنگ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گرفتاریوں کی آرزو رکھتے ہیں، اسی طرح انہیں غریب عوام کو خطِ غربت سے اوپر اٹھانے کی بھی فکر ہو گی اور بیجنگ سے واپسی پر وہ چین سے غربت کے خاتمے کا نسخہ بھی ساتھ لائیں گے۔
چین کی ایک کہاوت مشہور ہے کہ غریب کو کھانے کے لیے مچھلی دینے کی بجائے مچھلی پکڑنا سکھاؤ۔ چین نے اس کہاوت پر چالیس سال عمل کیا اور دو ہزار بیس میں غربت کے مکمل خاتمے کا اعلان کرنے کے قریب ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے کوششوں کا آغاز چین کے سابق صدر وین جیا باؤ نے کیا تھا۔ موجودہ صدر شی جن پنگ نے دو ہزار سترہ سے دو ہزار بیس کی مدت کے لیے تین اہداف کا تعین کیا جن میں پہلا ہدف غربت کا خاتمہ تھا۔ باقی دو اہداف خطرات کی روک تھام اور آبادی پر کنٹرول‘ تھے۔
چین نے جاری سال میں تمام محکموں کے لیے ایجنڈا طے کر رکھا ہے کہ انہوں نے مل کر دس ملین چینی شہریوں کو غربت سے باہر نکالنا ہے اور دو ہزار بیس میں چین کا معاشرہ مجموعی طور پر خوشحال بنانا ہے۔ غربت کے خاتمے کے حوالے سے چین کی پیش رفت دنیا بھر کے لیے مثال ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے چین کی مہم مقامی صنعتوں کی ترقی، تعلیم، ہیلتھ کیئر، کرپشن کے خاتمے کے گرد گھومتی ہے۔ چین نے پچھلے پانچ برسوں میں دیہی آبادی کے اڑسٹھ ملین افراد کو خط غربت سے اوپر اٹھایا ہے، دوسرے لفظوں میں چین میں یومیہ سینتیس ہزار افراد کو غربت کے چنگل سے نکالا گیا۔ چین میں غربت کی شرح دس اعشاریہ دو سے گھٹ کر تین اعشاریہ ایک تک آ گئی ہے۔
چین نے چالیس برسوں میں مجموعی طور پر سات سو تیس ملین شہریوں کو غربت کے چنگل سے نکالا۔ دو ہزار بیس میں غربت کے مکمل خاتمے کے لیے چین نے مزید دس ملین افراد کو غربت سے نکالنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کو ہر ماہ دس لاکھ افراد کو غربت سے نجات دلانی ہے یعنی ہر منٹ میں بیس افراد کو غربت کی دلدل سے نکالنا ہے۔
صدر شی جن پنگ نے غربت کے خاتمے کیلئے تمام چینی صدور سے زیادہ کام کیا‘ اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ چین کے ثقافتی انقلاب کے دوران خود بھی غربت کا شکار ہوئے تھے‘ یوں صدر شی جن پنگ کے ضمیر پر اس کا اثر بھی زیادہ ہوا۔
دو ہزار اٹھارہ میں چین نے پسماندہ علاقوں میں کسانوں کی مویشی پالنے کے لیے بھاری مدد کی، اس کے ساتھ ای کامرس کو غربت کے خاتمے کے لیے استعمال کیا۔ چین نے غربت کے خاتمے کے لیے لازمی تعلیم پروگرام شروع کیا جس سے طلبہ کے سکول چھوڑنے کی شرح صفر ہو گئی۔ سنگین امراض کے مفت علاج کا پروگرام شروع کیا گیا۔ دیہی علاقوں میں چین کا غربت مٹاؤ پروگرام اس قدر کامیاب رہا کہ پسماندہ علاقوں میں پچھلے چھ برسوں میں آمدنی بارہ اعشاریہ ایک فیصد کی رفتارسے بڑھی۔
چین کے دیہات میں ترانوے اعشاریہ دو فیصد افراد کو اب کمیونٹی ہیلتھ سروسز دستیاب ہیں۔ دیہات کی نواسی اعشاریہ آٹھ فیصد آبادی کو گھروں کے قریب ایلیمنٹری سکول دستیاب ہیں۔ چین کے غربت مٹاؤ پروگرام کے بعد اب چین کے شہری نہ صرف غربت کے چنگل سے چھٹکارا پا رہے ہیں بلکہ ان میں غربت سے ہمیشہ سے دور رہنے کی ایک امنگ جاگ اٹھی ہے جو غربت کے خاتمے کے لیے کوششوں کو تقویت بخش رہی ہے۔
چین نہ صرف اندرون ملک غربت کے خاتمے پر کام کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کے ملینیم ڈویلپمنٹ اہداف کے حصول میں مدد دے رہا ہے۔ چین نے ستر برسوں کے دوران ایک سو ستر ملکوں کو چار سو ارب یوآن مالی مدد فراہم کی۔ پانچ ہزار منصوبے ان ملکوں میں شروع کئے، چھ لاکھ سے زائد چینی شہریوں کو دوسرے ملکوں میں بھجوا کر بارہ ملین افراد کو فنی تربیت فراہم کی۔ چین کا غربت مٹاؤ پروگرام انسانی تاریخ میں غربت کے خاتمے کا سب سے بڑا اور کامیاب ترین پروگرام ہے۔
انیس سو نوے میں ایشیا میں غریبوں کی تعداد ایک ارب باون کروڑ تھی جو دو ہزار پندرہ میں دو سو تریسٹھ ملین رہ گئی ہے اور غربت سے چھٹکارا پانے والوں میں نصف سے زیادہ تعداد چین کے شہریوں کی ہے۔ غربت مٹاؤ پروگرام کی کامیابی میں کئی عناصر کام آئے جن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ غربت مٹانے کو اعلیٰ ترین سطح سے گراس روٹ لیول تک ترجیح بنایا گیا۔
چین کو اگر ماڈل ماننا ہے تو غربت مٹانے کے لیے مثال بنا کر اس کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ چین کا غربت مٹاؤ پروگرام دراصل کسی بھی ملک کی مجموعی ترقی کا پروگرام ہے جس میں صنعتوں کو ترقی دی گئی، زراعت کو بنیاد مانا گیا اور تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا، صحت پر توجہ دی گئی اور چین کا معاشرہ غربت سے نکل کر خوشحالی کی جانب گامزن ہو گیا۔
دنوں میں ملکی مسائل ختم کرنے کے دعویدار بھارت کے نیتن گڈکری کی راہ پر چل کر اقتدار میں تو آ گئے لیکن اب انہیں وعدوں کی تکمیل میں دشواری کا سامنا ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی تھی نہ وژن۔ بس خوابوں کی سوداگری کا سہارا تھا۔ اب اقتدار مل گیا ہے تو وعدوں کی تکمیل کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کریں۔ وعدے یاد دلانے پر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ جانا مناسب عمل نہیں۔
خواب بیچنے والوں کو اب عمل بھی کر کے دکھانا چاہئے، ورنہ لنگر خانے سے کھانا کھانے والے بھی اگلے الیکشن میں ووٹ نہیں دیں گے اور تاریخ بھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرے گی۔