ریڈ کریسنٹ اور ریڈ کراس سوسائٹیز کی بین الاقوامی فیڈریشن کا کہنا ہے کہ ایک تہائی انسانیت کے گھر‘ جنوبی ایشیا میں کورونا وائرس خطرناک شرح سے پھیل رہا ہے۔ دنیا کی نظریں کورونا کے حوالے سے ابھی تک امریکا اور جنوبی امریکا میں پیدا ہونے والے المیے کی طرف ہیں‘ لیکن جنوبی ایشیا انسانی المیے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ صرف بھارت میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 10 لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں کورونا کیسز کی مجموعی تعداد 13 لاکھ 50 ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ ان تینوں ملکوں میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 31 ہزار سے زیادہ ہے اور یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ریڈ کراس نے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی ریسرچ کا حوالہ دیا جس میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ بالخصوص بھارت اور اس کے ساتھ بنگلہ دیش اور پاکستان میں کورونا سے بچاؤ کے ناکافی اقدامات کی وجہ سے اس سال کے اختتام تک لاکھوں مریض سامنے آ سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج سے 6 ماہ بعد بھارت بد ترین متاثرہ ملک ہو سکتا ہے‘ جہاں کورونا کے کیسز کی یومیہ تعداد 2 لاکھ 87 ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ جان ہاپکنز سنٹر نے بھی خطے کے لیے بد ترین پیش گوئی کی ہے اور اس پیش گوئی کے مطابق بھارت میں اگلے 10 دن میں کورونا کیسز 36 فیصد بڑھ سکتے ہیں جبکہ اگلے 20 دنوں میں دو گنا ہونے کا خدشہ ہے۔ ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ اب ضرورت اس امر ہے کہ ہم اس خطے پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ دیں‘ اس وائرس کے پھیلائو کی روک تھام کے اقدامات کریں اور ہزاروں زندگیوں کو بچانے کے لیے اپنے وسائل کو بڑھائیں۔
ریڈ کراس کی وارننگ ایسے موقع پر آئی ہے جب پاکستان میں عید قربان کے لیے مویشی منڈیوں کی رونق بڑھ رہی ہے اور مویشی منڈیوں سے میڈیا میں آنے والی تصاویر اور ویڈیوز زیادہ خوش گوار نہیں ہیں۔ حکومت نے جو ایس او پیز جاری کیے ہیں ان پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہو رہا، حکومتی ایس او پیز کے مطابق بغیر ماسک اور دستانوں کے کسی بھی شخص کو منڈی میں داخلے کی اجازت نہیں لیکن اس کی پابندی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر کسی سٹال پر بیوپاری نے ماسک نہیں پہن رکھا تو اس کا سٹال منسوخ کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ 10 برس سے کم عمر بچوں اور 50 برس سے زائد عمر کے افراد کو منڈی میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بیوپاریوں کی طرف سے ماسک کی پابندی بھی پوری طرح نہیں ہو رہی۔ حکومتوں نے مویشی منڈیوں کے سٹال کے لیے فیس بڑھائی تھی کیونکہ صفائی ستھرائی، جانوروں کو سینیٹائز اور فیومیگیشن کا وعدہ کیا گیا تھا۔ بیوپاریوں نے فیس ادا کر دی لیکن سینیٹائز اور فیومیگیشن کا عمل کہیں دکھائی نہیں دیا۔ بیوپاری زیادہ فیس دے کر ریٹ بڑھا لیں گے اس لیے انہیں بھی اس پر اعتراض نہیں لیکن اس کے نتیجے میں صحت کا جو بحران پیدا ہو گا اس کا ابھی شاید کسی کو اندازہ نہیں ہو پا رہا ہے۔
پچھلے دو ہفتوں کے دوران ملک میں کورونا کیسز کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے۔ حکومت اسے سمارٹ لاک ڈاؤن کی کامیابی قرار دے رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عیدالفطر کے بعد ہسپتال مریضوں سے بھر گئے تھے۔ وزیر اعظم نے اپیل کی کہ عیدالاضحی سادگی سے منائی جائے۔ وزیر اعظم کی یہ اپیل بر وقت ہے لیکن مویشی منڈیوں میں کیا ہو رہا ہے یہ انتظامیہ کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہئے۔ اس طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی جانی چاہئے۔
میرا مقصد ہم وطنوں کو عید قربان کی خوشیوں سے روکنا یا انہیں پابندیوں کا نشانہ بنانا نہیں، عید قربان اپنے معبود سے قرب حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے، حج کرنے والوں پر قربانی واجب ہے جبکہ دیگر مسلمانوں کے لیے مستحب عمل ہے، ایک مستحب عمل جو قرب الٰہی کا سبب بنتا ہے جب اس میں دکھاوا آ جائے تو وہ ضائع ہو جاتا ہے۔ سورۃ الحج میں ارشاد فرمایا گیا ''اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون مگر اسے تمھاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔ سعودی عرب میں قربانی کے لیے مذبحہ خانوں میں جانور جمع ہوتے ہیں‘ گلی محلوں میں جانور ذبح کرنے کی اجازت نہیں۔ حجاج قربانی کی رقم جمع کرا دیتے ہیں اور سعودی حکومت ان کی طرف سے جانور قربان کر دیتی ہے۔ ہمارے لیے بھی ضروری نہیں کہ ہم گھر کے سامنے جانور باندھ کر ان کی نمائش کریں، بچے گلی محلے میں ٹولیوں کی صورت میں جانوروں کو ٹہلاتے پھریں۔ اس بار اگر ہم مدارس اور مساجد میں ہونے والی اجتماعی قربانی میں حصہ ڈالیں اور گلی محلوں میں جانوروں کی نمائش سے گریز کریں تو قربانی بھی ہو جائے گی اور ہم دکھاوے سے بھی بچ جائیں گے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ وبا کو پھیلنے سے روکنے میں بھی مدد ملے گی۔ مویشی منڈیوں میں پورے صوبے اور ملک سے بیوپاری آتے ہیں۔ ابھی تک جانوروں میں کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا‘ لیکن خریدار قربانی کے جانور کو ہاتھ لگاتے ہیں، اس کے دانت وغیرہ اور دوسرے اعضا چیک کرتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ وہ جو جانور خرید رہے وہ قربانی کی شرائط پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی متاثرہ شخص جانور کو چھوئے تو وائرس جانور کی کھال پر رہ سکتا ہے اور اس کے بعد آنے والا اور اس جانور کو ہاتھ لگانے والا اس وائرس سے متاثر ہو سکتا ہے۔
کورونا کیسز میں گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران کمی دیکھنے میں آئی ہے اور یہ سمجھا جا رہا ہے کہ شاید وبا ختم ہونے کو ہے، ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ابھی وبا کے خلاف کامیابی کے اعلان سے گریز کیا جائے۔ یہ درست ہے کہ مریضوں کی شرح کم ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ وائرس کا پھیلائو کم ہوا ہے۔ پہلے ہر سو ٹیسٹوں میں 22 سے 23 فیصد مثبت آ رہے تھے۔ اب یہ شرح 12 سے 13 فیصد پر آ چکی ہے۔ اس شرح کو دیکھا جائے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں‘ لیکن ابھی بچاؤ کی تدابیر میں سستی بھی درست نہیں ہو گی۔ اگر عیدالفطر کی طرح لوگ اس بار بھی احتیاط نہیں کریں گے، مویشی منڈیوں میں میلے جیسی حالت ہو گی اور احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کیا جائے گا تو ملک میں کورونا وائرس کی نئی لہر اٹھ جائے گی اور خدانخواستہ یہ دوسری لہر زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، اس لیے فوجی پریڈ والی اصطلاح کے مطابق ابھی ہوشیار باش رہنا ہو گا‘ آسان باش کا وقت نہیں آیا۔
مویشی منڈیوں سے وائرس کیسے پھیل سکتا ہے؟ اس کی مثال ہمارے پاس چین کے شہر بیجنگ کی ہے۔ چین نے کورونا وائرس سے مکمل پاک ہونے کا اعلان کیا۔ سفری پابندیاں ہٹائیں اور مارکیٹیں کھول دیں۔ بیجنگ کی ایک ہول سیل مارکیٹ سے ہزاروں شہری روزانہ خریداری کرتے تھے۔ مارکیٹ کھلنے پر معمول کے مطابق خرید و فروخت شروع ہوئی تو اچانک ایک دن میں کورونا کے 37 کیسز آئے اور پھر بڑھتے ہوئے سینکڑوں ہو گئے۔ حکومت نے بیجنگ کو دوبارہ مکمل لاک ڈاؤن کیا‘ بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کی گئی اور ایک طویل جدوجہد کے بعد اس پر قابو پایا جا سکا۔ ہمارے ہاں بھی اس وقت مویشی منڈیاں بیجنگ کی ہول سیل مارکیٹ جیسا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ چین کا تجربہ اور وسائل اسے اس وبا پر قابو پانے میں مدد گار ثابت ہوئے لیکن ہم چین کے مقابلے میں بہت زیادہ وسائل نہیں رکھتے، بہتر ہو گا چند ہفتے مزید احتیاط کر لی جائے۔