پاکستان میں دو طبقات اکثریت کے طور پر جانے، پہچانے اور مانے جاتے ہیں۔ ایک وہ جنہیں غدار کہا جاتا ہے‘ دوسرے جوکافر کہلاتے ہیں۔
آپ میری یہ بات سن کر حیران نہ ہوں بلکہ اگر ذراغور کریں تو آپ کو اہل سیاست میں غدار اور اہل مذہب میں کافر ہونے کے فتوے وافر نظر آئیں گے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تنگ نظری کے باعث ہم لوگ ہمارے نظریات تسلیم نہ کرنے والے افراد کے خلاف کافر یا غدار کا فتویٰ جاری کرنے میں کسی قسم کا تامل نہیں کرتے۔ اسی لئے کسی کو غدار یا کافر کہتے ہوئے ہماری زبان لرزتی ہے اور نہ ہی ہمیں کسی قسم کی پریشانی یا پشیمانی کا احساس پیدا ہوتا ہے، بلکہ ایک سرخروئی اور تفاخر کا احساس ہمیں گھیر لیتا ہے۔ اس عمل میں ہمارے اہل علم، سیاسی لیڈروں اور دانشوروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے‘ اس لئے وطن عزیز میں غداری اور کفر کے ایسے ٹھپے لگانے والی فیکٹریاں بڑی کامیاب ہیں۔ کسی چھوٹے سے گائوں سے لے کر پارلیمان تک یہ عمل مفادات کے تحفظ کی علامت سمجھا جاتا ہے‘ لیکن میرا آج کا موضوع صرف غداری سے متعلق ہے؛ چنانچہ صرف وطن عزیز کے چند 'غداروں‘ اور ان کے چلن پر بات کر لیتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں کلبھوشن کے معاملے کو لے کر خواجہ آصف، شیریں مزاری اور بلاول بھٹو زرداری کی تقاریر سن کر مجھے ماضی کی کچھ تلخیاں بھی یاد آ گئیں۔ غداری اور غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے الزامات ہماری سیاست میں نئے نہیں حتیٰ کہ 1965 میں محترمہ فاطمہ جناح نے جب ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑا تو انہیں غدار قرار دیا گیا۔ الیکشن مہم کے دوران ایوب خان کی طرف سے تقسیم ہونے والے پمفلٹ کچھ ایسے تھے جن میں محترمہ فاطمہ جناح پر پاکستان توڑنے کی سازش کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پر بھی غداری اور غیر ملکی ایجنٹ ہونے کی تہمت لگی۔1990 کی الیکشن مہم میں ان کے مخالف سیاسی اتحاد آئی جے آئی (IJI) نے اخبارات میں اشتہار شائع کروائے‘ جس میں نصرت بھٹو اور پیپلز پارٹی پر ''کہوٹہ لے لو... کرسی دے دو‘‘ کا الزام لگایا گیا جبکہ بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی کی تصویر والے اشتہار میں ''کشمیر سے غداری، دشمنوں سے یاری‘‘ کا الزام لگایا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر داخلہ اعتزاز احسن پر خالصتان تحریک میں شامل سکھوں کی فہرستیں انڈیا کو دینے کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔
فاطمہ جناح سے لے کر عمران خان تک نظریہ ضرورت اور سیاسی انتقام کے جوش میں مخالفین کو غدارکہنا بڑا عام چلن رہا ہے۔
مجھے آج وہ تمام 'غدار‘ یاد آ رہے ہیں جنہیں ایک وقت میں غدار کہا گیا لیکن بعد میں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دے کر سلام پیش کیا گیا۔ ایسے میں سب سے پہلے مجھے حبیب جالب کی یاد آ گئی۔ جنہیں آج آزادی اور جمہوریت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے‘ جن کے اشعار کے بغیر بڑے بڑے لیڈروں کی جمہوری تقریریں مکمل نہیں ہوتیں‘ وہ غداری کے مقدمات میں کئی بار جیل گئے۔ ایسے ہی سابق مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہروردی، مولانا حمید بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمان کو غدار کہا گیا۔ ان میں سے دو لوگ وہ تھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا‘ لیکن نظریہ ضرورت کے تحت انہیں پہلے غدار اور پھر محب وطن بنا دیا گیا۔ مجیب الرحمان جو کہ غدار اعلیٰ اور پھانسی کے مجرم تھے‘ نا صرف ان کے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا گیا بلکہ دوسری سربراہی کانفرنس کے موقع پر انہیں اکیس توپوں کی سلامی بھی پیش کی گئی۔ ایک مخصوص سوچ کے تحت مقتدر طبقے کی سوچ سے ہم آہنگی نہ رکھنے والوں کو غدار اور اپنے حقوق کا مطالبہ اور اس کے لئے کی جانے والے جدوجہد کو غداری سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔ عبدالصمد خان اچکزئی، میاں افتخارالدین، فیض احمد فیض، مظہر علی خان، شیخ ایاز جیسے لوگوں کو بھی مختلف ادوار میں حکومتوں اور ان کے اثرورسوخ کے تحت غدار لکھا جاتا رہا۔ بلوچ رہنما عطا اللہ خان مینگل‘ ان کے بھائی نورالدین مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری، دودا خان زرکزئی اور بلوچ قومی شاعر گل خان نصیر کو بھی غدار قرار دیا گیا‘ جبکہ اکبر بگٹی کو سزائے موت سنائی گئی جو بعد میں معاف بھی کر دی گئی۔ خان عبدالغفار خان، جی ایم سید کو تا عمر غداری کے کھونٹے سے باندھ کر رکھا گیا۔ اسی نظریہ ضرورت کے تحت غدار قرار دیئے جانے والے جام صادق اور غلام مصطفیٰ کھر بھی بعد میں بڑے عہدوں پر فائز ہوئے۔
غداری کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ مودی کی یاری اور غداری ایسا عام لفظ ہے جو ہمیں پچھلے چند برسوں سے کثرت سے سننے کو مل رہا ہے۔ کشمیر کے پہاڑوں کے درمیان کھڑے ہو کر بلاول بھٹو نے جب 'مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘ کے نعرے لگوائے تھے تو کسی نے کہا تھا کہ اس نے نواز شریف سے اپنی ماں کا بدلہ لیا ہے۔ گو کہ بعد میں انہوں نے کہہ دیا کہ انھوں نے یہ الفاظ نواز شریف کے لئے استعمال نہیں کئے تھے۔
بھٹو دور میں پیپلز پارٹی پر ملک توڑنے کا الزام لگایا گیا۔ جب غلام اسحاق خان صدر تھے اس دور میں بینظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا۔ بینظیر بھٹو کے سب سے بڑے مخالف اور ملک کے 3 بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف بھی بینظیر کو سکیورٹی رسک قرار دیتے رہے۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور انہی نواز شریف پر بھی سکیورٹی رسک اور مودی کے یار کا لیبل لگا دیا گیا۔ کیا یہ مکافات عمل تھا؟ پھر دونوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط بھی کئے۔ آج ایک بار پھر کلبھوشن کے معاملے کو لے کر ایوانوں میں پھر سے وہی نعرہ سنائی دے رہا ہے۔ لیکن اس بار مودی کا یار کسی اور کو نہیں بلکہ اپنے کپتان کو کہا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں اپوزیشن، حکومت بلکہ تمام سیاستدانوں کو یہ طے کرنا ہو گا کہ کہیں یہ غداری کے فتوے دراصل جمہوریت کی جڑیں تو نہیں کاٹ رہے ہیں؟ آج تک ہم نے جس جس کو غدار کہا وہ بعد ازاں اپنی قوم کا ہیرو اور سب سے بڑا محب وطن ثابت ہوا۔ وقتی سیاسی فائدے کی خاطر جب ملک کے سربراہ کو سکیورٹی رسک یا غداری کا سرٹیفکیٹ دے دیا جائے تو پھر غیر جمہوری کلچر طاقتور ہو جاتا ہے۔ اسی لئے آئین میں غداری کی تعریف اور اس سے متعلق معاملات کو بہت احتیاط سے شامل کیا گیا ہے۔ 18ویں ترمیم کے مطابق آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 6 کہتا ہے کہ 'ہر وہ شخص غدار ہے جو طاقت کے استعمال یا کسی بھی غیر آئینی طریقے سے آئینِ پاکستان کو منسوخ، تحلیل، معطل یا عارضی طور پر بھی معطل کرتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتا یا ایسا کرنے کی سازش میں شریک ہوتا ہے۔ آئین میں غداری کا تصور 1973 میں شامل کیا گیا جسے بعد ازاں 18ویں ترمیم میں واضح کیا گیا۔ یہ اختیار وفاقی حکومت کو دیا گیا کہ وہ غداری کا تعین کرے‘ وفاقی کابینہ کی منظوری سے خصوصی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے اور مقدمہ چلایا جائے، یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ بار ثبوت اس شخص پر ہو گا جس نے یہ الزام دھرا ہو گا۔ اس آئینی اور قانونی بحث سے بالاتر قومی سوچ اور مزاج پر اس کے منفی اثرات اس قدر گہرے ہیں کہ یہ بات اب قومی کلچر کا حصہ بن گئی ہے کہ معمولی فائدوں کے لئے ایک دوسرے کو غدار قرار دینا بڑی معمولی بات سمجھا جاتا ہے۔ جس نے ہمارے معاشرے کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے دوچار کر رکھا ہے۔ اس لئے میری ان تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ خدارا، اب غداری اور سکیورٹی رسک قرار دینے کی روش سے گریز کریں اور پاکستان کو جمہوریت اور معاشرتی رواداری کا آئینہ دار ملک بنائیں۔