نوازشریف لندن کیسے گئے‘ یہ کافی لوگ جانتے ہوں گے پھر بھی میں تمام واقعات مختصراً اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ میاں نوازشریف جو دو کیسز چودھری شوگر ملز اور العزیزیہ ریفرنس میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔ اچانک ان کی طبیعت 21اکتوبر 2019 کو خراب ہوتی ہے اوران کے پلیٹ لیٹس میں غیرمعمولی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ ہسپتال منتقلی سے قبل سابق وزیراعظم کے خون کے نمونوں میں پلیٹ لیٹس 16 ہزار تک گر جاتے ہیں۔ ہسپتال منتقلی تک پلیٹ لیٹس12 ہزار اور پھر خطرناک حد تک گر کر2 ہزار پرآجاتے ہیں۔ ایسے میں جہاں ایک طرف شریف فیملی پریشان ہو جاتی ہے وہیں حکومت بھی اس صورتحال سے پریشان نوازشریف سے جان چھڑاتی نظرآئی۔ وہ کسی طرح بھی یہ مدعا اپنے گلے میں ڈالنے کو تیار نہیں تھی۔ نوازشریف کی صحت کے معاملے پر ایک سرکاری بورڈ بنایا گیا جس کے سربراہ سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (سمز) کے پرنسپل پروفیسر محمود ایاز تھے‘ جبکہ اس بورڈ میں نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹرعدنان بھی شامل تھے۔ نوازشریف 16روز تک لاہور کے سروسز ہسپتال میں زیر علاج رہے جس کے بعد انہیں 6 نومبرکو ڈسچارج کرکے شریف میڈیکل سٹی منتقل کیا گیا‘ لیکن شریف میڈیکل سٹی جانے کے بجائے ان کی رہائش گاہ جاتی امرا میں ایک آئی سی یو تیار کیا گیا اور وہ وہاں منتقل ہو گئے۔ اس دوران بتایا گیا کہ سابق وزیر اعظم کی بیماری کی تشخیص ہو گئی اور ان کو لاحق بیماری کا نام ''اکیوٹ آئی ٹی پی‘‘ ہے، دوران علاج انہیں دل کا معمولی دورہ بھی پڑا جبکہ نواز شریف کو ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور گردوں کے امراض بھی لاحق ہیں۔ شریف فیملی نے اپنے قانونی گھوڑے دوڑائے اور نواز شریف کو ایک ایک کروڑ کے 2 مچلکوں کے عوض لاہور ہائیکورٹ سے چودھری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت مل گئی۔ اس سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے 26 اکتوبر کو ہنگامی بنیادوں پر العزیزیہ ریفرنس کی سزا معطلی اور ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کرکے انہیں طبی و انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر 29 اکتوبر تک عبوری ضمانت دی۔ بعد میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کی سزا 8 ہفتے تک معطل کر دی۔
یاد رہے کہ اس مقدمے میں سابق وزیر اعظم کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ 8 نومبر کو شہباز شریف نے وزارت داخلہ کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی اور 12 نومبر کو وفاقی کابینہ نے نوازشریف کو باہر جانے کی مشروط اجازت دی۔ نون لیگ نے انڈیمنٹی بانڈ کی شرط لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دی اور 16 نومبر کو لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کو علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ اس موقع پر عدالت نے شہباز شریف سے بطور ضمانتی ان بانڈز پر دستخط کروائے۔ میاں شہباز شریف نے اس بات کی ضمانت دی کہ میاں محمد نواز شریف علاج کروانے کے بعد پاکستان واپس آ جائیں گے‘ جس کے بعد 19 نومبر کو نواز شریف علاج کیلئے لندن روانہ ہو گئے اور حکومت نے سکھ کا سانس لیا کہ بلا ان کے سر سے ٹلی کیونکہ اگر خدانخواستہ نواز شریف کو جیل میں کچھ ہو جاتا تو حکومت جو پہلے ہی اپنے بوجھ تلے دبی تھی‘ یہ وزن اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی جبکہ وزرا ان کے جانے کے بعد انہیں بھگوڑا، جھوٹا، بہانے خور اور نہ جانے کیا کیا کہتے رہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس سرکاری ڈاکٹروں کے بورڈ کی نگرانی میں بنائی گئیں جن کی تصدیق وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کر چکی ہیں لیکن ہمارے دوست وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری‘ جو اس رپورٹ سے مطمئن نہیں اور یاسمین راشد سے بھی تحقیقات کا مطالبہ کر چکے ہیں بلکہ وہ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کیلئے سب سے پہلے شیخ رشید نے ہاتھ کھڑا کیا تھا۔ دوسری طرف صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری کوئی ماہر طب یا ڈاکٹر نہیں ہیں کہ ان کی اس حوالے سے رائے کو صائب مانا جائے۔
ایسے میں نواز شریف کو پاکستان واپس لانے کیلئے وفاقی کابینہ اچانک ہی ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھ چکی ہے اور غور کیا جا رہا ہے کس طرح بلی کے گلے میں گھنٹی باندھی جائے کیونکہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ نہیں جو کسی شخص کو برطانیہ سے پاکستان لا سکے تاوقتیکہ حکومت برطانیہ اسے خود ڈی پورٹ نہ کر دے‘ لیکن گورنر پنجاب نے گیند عدالت کے کورٹ میں ڈالنے کی کوشش کی اور کہا کہ اگر عدالت کہے تو شاید حکومت برطانیہ نواز شریف کو پاکستان کے حوالے کر دے‘ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے عدالت تو خود حکومت سے نواز شریف کا سٹیٹس پوچھ رہی ہے کہ اب تک حکومت پنجاب نے نواز شریف کے علاج پر پیشرفت کی رپورٹس کیوں جمع نہیں کرائیں‘ جس پر فی الحال خاموشی ہے‘ لیکن وفاقی حکومت نے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی صلاح کے برعکس نواز شریف کے گارنٹر ان کے بھائی شہباز شریف کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی ٹھانی ہے۔ اس کے لئے دو با تدبیروتدبر شخصیات مشیر احتساب شہزاد اکبر اور وزیر قانون فروغ نسیم کو تمام قانونی پہلوئوں کا جائزہ لے کر رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ نواز شریف کی واپسی اس وقت تحریک انصاف حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ جس طرح کی تیزی دکھائی جا رہی ہے ایسی تیزی اگر چینی، آٹا اور پٹرول بحران کو حل کرنے کے لئے دکھائی جاتی تو شاید چینی 55 روپے کلو اور آٹا 30 روپے کلو مل رہا ہوتا۔ اسی طرح پٹرول کے بحران کے ذمہ داران کو سزا مل چکی ہوتی‘ لیکن شاید حکومت کا مطمح نظر صرف اپوزیشن کے کس بل نکالنا ہیں، اگر اپوزیشن ذرا سا سر اٹھانے کی کوشش کرے تو فوراً وہ تمام رعایتیں‘ جو خاموشی سے دی جا رہی ہیں‘ واپس لے لی جائیں اور زندانوں کے منہ کھول دئیے جائیں۔
دوسری جانب اپوزیشن پر بھی مک مکا کے الزامات ہیں۔ مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف پر مفاہمتی بیانیہ کا لیبل چسپاں ہے۔ حکومتی حلقے یہ کہہ کر کرنٹ افیئرز شوز میں ن لیگی رہنمائوں کو چڑاتے رہے کہ جناب 'ووٹ کو عزت دو‘ کی تحریک 'ترمیم کو عزت دو‘ پر آکردم توڑ گئی۔ گزشتہ دونوں بجٹ خوش اسلوبی سے پاس کرانے کا الزام بھی شہباز شریف کے سر تھونپا گیا جبکہ مولانا نواز شریف کی تھپکی کا اعتماد لے کر لانگ مارچ کے سفر پر نکلے تو لاہور میں نون لیگ فیس سیونگ کے لئے بھی ان کے ساتھ کھڑی نہ ہو سکی‘ جتنی کراچی سے روانگی کے وقت پیپلز پارٹی نے دی تھی؛ اگرچہ کراچی سے اسلام آباد مولانا تنہا حکومت گرانے پہنچے۔ تنہا منزل کی جانب چلے ، قافلہ بنا نہ کارواں، صرف مولانا اور ان کے مخلص کارکن۔ کہنے والوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بیک ڈور چینلز سے اپنے معاملات طے کرتی رہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے اس ناکام لانگ مارچ نے جہاں حکومت کو حوصلہ دیا وہیں مولانا کو سبق بھی دیا کہ اپنی کمٹڈ طاقت کو بڑی جماعتوں کے محدود مفادات کے لئے نہیں جھونکنا بلکہ بڑے ایجنڈے اور بڑی یقین دہانی کے بعد میدان میں اترنا ہے۔ لگ ایسے رہا ہے کہ کورونا کے بعد ایک بار پھر سیاست کا میدان گرم ہونے جا رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اپنی اپنی بساط بچھانے کی تیاریوں میں ہیں۔ دونوں جانب سے بڑے کھلاڑی بڑی چالوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں... کیا لانگ مارچ ٹو ہونے جا رہا ہے؟ اس پر بات ان شااللہ اگلے کالم میں ہو گی۔ (جاری)