میں پیپلز پارٹی کی میزبانی میں کامیاب اے پی سی کا کریڈٹ اپوزیشن سے زیادہ حکومت کو دوں گا۔ اپوزیشن کی پارلیمانی جماعتوں کو ایک میز پر لانے کیلئے حکومت نے دو برسوں میں جس عدم کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘ اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ وزیر اعظم عمران خان جس قدر مقبول سیاستدان کے طور پر ابھرے تھے اور 22 برس کی جدوجہد کے بعد 2018ء کے انتخابات میں جن نعروں اور وعدوں کی بنیاد پر ملک کی دو بڑی جماعتوں کو شکست دے کر انہوں نے وزارت عظمیٰ کی کرسی حاصل کی، یہ بھی ان کے کارناموں میں سے ایک ہے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد دو برسوں میں اگر وہ اپنے نعروں اور وعدوں کا 50 فیصد بھی ڈلیور کر دیتے تو اپوزیشن کسی طرح سے بھی اس قابل نہ ہوتی کہ ایک چھت تلے جمع ہو سکتی۔ حال ہی میں کئے جانے والے مختلف سرویز کے مطابق دو سال کی مسلسل بیڈ گورننس سے وزیر اعظم کی عوامی حیثیت اور پذیرائی میں واضح کمی آئی ہے۔ میرے کئی جاننے والے تحریک انصاف کے سپورٹرز اور ووٹر مہنگائی، بیروزگاری اور عدم تحفظ کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں اور اپنے سابق فیصلے پر نظرثانی کا بھی سوچ رہے ہیں کیونکہ ان کو بھی اب یہی شکوہ ہے کہ ان کے ووٹ کو عزت نہیں دی گئی۔
دوسری طرف 'ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگا کر دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ لینے والی مسلم لیگ (ن) بھی اپنے اس نعرے پر خود کنفیوژن اور بے عملی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف جب جب بھی اقتدار سے باہر آئے‘ انہوں نے سول سپریمیسی اور جمہوریت کا نعرہ بلند کیا‘ لیکن انہیں یہ نعرہ لگا کر کسی اور جمہوری حکومت کو چلتا کرنا پڑا، اور اس کے لئے انہوں نے ہمیشہ بلا چون و چرا اپنا کندھا فراہم کیا یا کسی کے کندھے پر سوار ہوکر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے رہے۔ اس کھیل میں تین بار وہ خود بھی اسی طرح کے حالات سے دوچار ہوئے۔ نواز شریف کے مخالفین ان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اب تک 4 وزرائے اعظم کی رخصتی کے کھیل میں ملوث رہے ہیں‘ یعنی جمہوریت کشی کے اس کھیل میں نواز شریف کو 3 کے مقابلے میں 4 سے برتری حاصل ہے۔ ایک اور تبصرہ جو نواز شریف کی سیاست کے بارے میں زبان زد عام ہے یہ ہے کہ میاں صاحب جب بھی اقتدارمیں آتے ہیں تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں مارتے بلکہ کلہاڑے پر خود اپنا پاؤں مار کر ریٹائرڈ ہرٹ ہو جاتے ہیں۔ لیکن میاں صاحب کی شخصیت کا ایک بڑا کمال یہ ہے کہ ان تمام تر حقائق اور الزامات کے باوجود وہ ہر بار عوام میں اپنا اعتبار پھر سے قائم کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ وہ اس وقت پاکستان کی سیاست کے ماہر ترین اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور جب تک وہ خود نہ چاہیں‘ ان کو مائنس نہیں کیا جا سکتا۔ شاید ان کے مخالفین کو یہ بات سب سے زیادہ کھٹکتی ہے۔ تیسری بار وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اتارے جانے کے بعد انہوں نے 'ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بلند کیا، جس کو عوام میں زبردست پذیرائی بھی ملی۔ مشکل ترین حالات کے باوجود پارٹی کو ٹوٹنے سے بچانا۔ 2018 میں ان کی جماعت ملک کی سب سے زیادہ ووٹ لینے والی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ شاید اسی امید پر وطن واپس آکر گرفتاری کا جوا بھی کھیلاکہ اگر جیت گئے تو یہ کمزور سلاخیں حائل نہیں رہیں گی‘ لیکن حالات کا پانسہ پھر ان کے خلاف پلٹ گیا۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق زیادہ دیر تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا نواز شریف کی طبیعت اور مزاج کا حصہ نہیں۔ 1999ء میں حکومت ٹوٹنے کے بعد بھی میاں صاحب ایک معاہدے کے تحت ملک سے باہر چلے گئے تھے اور اب کی بار بھی ایک بھرپور قانونی کوشش کے بعد میاں صاحب اس وقت علاج کی غرض سے لندن کی تازہ فضاؤں اور کافی کی چسکیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ اس بار میاں نواز شریف کو لندن جانے کیلئے بس اتنا کرنا پڑاکہ کچھ دیر کیلئے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ صندوق میں بند کیا، آرمی ترمیمی ایکٹ کیلئے حکومت کے کہے بغیر تعاون پیش کیا گیا‘ اور پھر دو بجٹ پاس کرانے میں شہباز شریف صاحب نے خاموش حمایت کی۔ حال ہی میں منی لانڈرنگ بل کی منظوری میں متحدہ اپوزیشن کی پسپائی اور حکومت کی کامیابی کو بھی کسی اشارے کا شاخسانہ کہا جا رہے‘ لیکن اے پی سی میں ایک بار پھر میاں نواز شریف ''ووٹ کو عزت دو‘‘کا نعرہ بلند کر چکے ہیں بلکہ اس بار انہوں نے مخالفین کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیا‘ اس کی ماضی میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ تو کیا وہ یہ سب کرکے اپنی سیاست بندگلی میں دھکیل دیں گے؟ ہرگز ایسا نہیں بلکہ معاملہ یہ ہے کہ اب یہ باہر سے زیادہ اندر کی لڑائی ہے کیونکہ یہ شیر اب بوڑھا ہو چکا ہے، اسے اپنا جانشین مقرر کرنا ہے۔ اب سے کچھ عرصہ قبل تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ نواز شریف کے بیٹوں کی سیاست میں عدم دلچسپی کے باعث یہ سیاسی وراثت شہباز فیملی میں منتقل ہو جائے گی۔ خود میاں نوازشریف، حمزہ شہباز کو اپنا سیاسی جانشین قرار دے چکے تھے۔ شہباز شریف نے میاں شریف کے بعد باؤجی کو اپنے والد کی طرح ہی سمجھا ہے۔ بظاہر دونوں بھائیوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ یہ شہباز شریف کی سیاسی حکمت ہی ہے جس کی وجہ سے نواز شریف لندن سے تقریر کرنے کے قابل ہوئے‘ لیکن ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ انہوں نے یہ تقریر کیوں کی؟ دراصل جس وقت یہ سمجھا جا رہا تھاکہ نواز شریف کے سیاسی وارث حمزہ شہباز ہوں گے، اس وقت بیگم کلثوم نواز مرحومہ، مریم نواز کو اس منصب کیلئے لندن میں تیار کرتی رہیں، اور پھر مریم نواز نے حلقہ این اے 125 (موجودہ این اے 120) کے ضمنی الیکشن میں اپنی والدہ کی کامیاب کمپین چلا کر اس اہلیت کو ثابت کیا اور اپنے والد کی وزارت عظمیٰ کے دوران اور بے دخلی کے بعد جس طرح انہوں نے پارٹی کے اندر اور ووٹرز میں اپنی جگہ بنائی ہے‘ اس نے میاں نواز شریف کے فیصلے کو مشکل بنا دیا۔ واقفان حال کے مطابق میاں شہباز شریف اور مرحومہ کلثوم نواز کے مابین تعلقات میں کبھی دیور بھابھی والی گرمجوشی نہیں رہی اور مریم نواز اسی خاندانی اور سیاسی وراثت کی امین ہیں جبکہ شہباز شریف جہاندیدہ اور طاقتوں سے مفاہمت کے کھیل کو سمجھنے والے کھلاڑی ہیں۔ پنجاب ہمیشہ سے مسلم لیگ (ن) کا بیس کیمپ رہا ہے، اور حمزہ شہباز اس کے سب سے سمجھدار اور کامیاب کھلاڑی ہیں۔ 2008ء اور 2013ء کے عام انتخابات کے ساتھ ساتھ مختلف حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں حمزہ شہباز نے جس طرح سے اپنی سیاسی صلاحیتوں کو ثابت کیا‘ اس نے میاں نوازشریف کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے روکے رکھا ہے۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ بوڑھے شیر نے اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالنا ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ نواز شریف اور شہباز شریف میں کوئی اختلاف نہیں‘ لیکن آثار یہی ہیں کہ ن لیگ کی مستقبل کی لیڈر کے طور پر نواز شریف اپنا ویٹو ووٹ شاید مریم نواز کے حق میں دینے کی طرف مائل ہو چکے ہیں اور اس حالیہ تقریر کے ذریعے بھی اصل میں نواز شریف نے طاقتور حلقوں کو یہ تاثر دیا ہے کہ ان کی پارٹی کو بذریعہ شہباز شریف ہائی جیک کرنے کی کو شش کی گئی تو وہ چی گویرا بھی بن سکتے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا مریم نواز اپنے چچا اور چچازاد بھائی کے بغیر کامیابی سمیٹ پائیں گی؟ آنے والے دنوں میں میاں شہباز شریف کی سیاست طے کرے گی کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا گو کہ اس میں تھوڑا وقت بھی لگ سکتا ہے۔