ایک ایسے وقت پر جب تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن پی ڈی ایم کے عنوان سے حکومت گرائو تحریک آگے بڑھا رہی ہے اور حکومت کے خلاف عوامی تحریک کے خطرات منڈلا رہے ہیں‘ حکومتی صفوں میں شامل اٹک سے تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی میجر ریٹائرڈ طاہر صادق کا اچانک اٹھ کر یہ کہنا کہ وزیر اعظم عمران خان کی ٹیم نا اہل اور نان الیکٹ ایبل لوگوں پر مشتمل ہے جو نظام کو تباہ کر رہے ہیں، خود کش حملے سے کم نہیں۔ ان کی باتیں بالکل درست ہیں لیکن ٹائمنگ بہت حساس ہے۔ میجر (ر) طاہر صادق کا ایک ایک جملہ اس وقت حکومت پر بم بن کر گرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بننے سے لے کر اب تک اتنی کرپشن نہیں ہوئی جتنی اب ہو رہی ہے۔ اوپر سے لے کر نچلی سطح تک کرپشن کا ایسا بازار گرم ہے کہ عام آدمی کے لیے کسی بھی سرکاری دفتر میں کام کرانا نہایت مشکل ہو چکا ہے۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ سرکاری اہلکار سرکاری اہلکاروں سے رشوت لے رہے ہیں تو عام آدمی کہاں جائے؟ ان کے مطابق بیوروکریسی مادر پدر آزاد ہو چکی ہے جس پر کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے اور یہ سب کچھ ایک ایماندار وزیر اعظم کی موجودگی میں ہو رہا ہے۔ انہوں نے نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی بشمول ان کی ٹیم کے نا اہل قرار دیا ہے۔ طاہر صادق نے باقاعدہ الزام عائد کیا کہ جو کرپشن پہلے 5 سو روپے کی ہوتی تھی وہ اب 5 ہزار روپے کی ہو گئی ہے، یعنی ان کے مطابق اس وقت ملک میں پہلے سے 100 گنا زیادہ کرپشن ہو رہی ہے۔ میجر طاہر صادق نے حکومت کے بلند بانگ معاشی دعووں کو بھی یہ کہہ کر زمین بوس کر دیا ہے کہ مستقبل کے عالی شان اقدامات سے پہلے بنیادی ضروریات کو کنٹرول کیا جائے۔
میجر ریٹائرڈ طاہر صادق ایک اچھی شہرت رکھنے والے، اور خود ایک الیکٹ ایبل ہیں۔ وہ ضلع اٹک سے تحریک انصاف کے ایم این اے منتخب ہونے کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے بہنوئی بھی ہیں۔ 1997ء میں وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کا حصہ بنے اور اس کے بعد مشرف کے لوکل باڈی نظام میں ضلعی ناظم رہے۔ مشرف دور میں اپنی بیٹی سے استعفیٰ دلوا کر میجر طاہر صادق نے ہی شوکت عزیز کو ممبر قومی اسمبلی منتخب کروایا تھا‘ جس کے نتیجے میں وہ وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچے تھے۔ اپنی ہی حکومت پر الزامات لگاتے ہوئے میجر صاحب نے یہ بات بڑی واضح طور پر کہی ہے کہ یہ ان کی انفرادی رائے نہیں بلکہ وہ تحریک انصاف کے ایم این ایز کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کی اس بات سے دو باتیں بڑی واضح ہیں کہ اس وقت تحریک انصاف میں شامل ہونے والے الیکٹ ایبلز کیا سوچ رہے ہیں، دوسرا تبدیلی کے مخالف ہوا چلنے کی صورت میں نیا آشیانہ بنانے کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کچھ ایسی ہی تشویش کا اظہار حکومت کے یک نشستی اتحادی اور وزیر ریلوے شیخ رشید نے کابینہ اجلاس میں کیا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے ان کا اپنے حلقے میں جانا مشکل ہو گیا ہے، لوگ ان پر آوازے کستے ہیں۔ بطور ایک سیاسی مبصر کے، میں یہ بات بڑے تواتر سے اپنے کالموں میں کرتا رہا ہوں کہ تحریک انصاف کا سب سے بڑا مسئلہ خود تحریک انصاف کی اپنی گورننس اور فیصلے ہیں جو اسے دھیرے دھیرے غیر مقبول بنا رہے ہیں۔ نیب کیسز میں پھنسی اپوزیشن بڑے عرصے سے ان حالات کا انتظار کر رہی تھی۔ تحریک انصاف کو عوام نے کرپشن‘ مہنگائی اور غیر محفوظ مستقبل سے تنگ آ کر ووٹ دیا تھا۔ اس امید اور اعتبار پر تحریک انصاف کو مینڈیٹ ملا تھا کہ جب عمران خان کی حکومت بنے گی اور ایک ایمان دار وزیر اعظم ہو گا تو ملک میں روزانہ ہونے والی 5 ارب روپے کی کرپشن رک جائے گی، پاکستان سے لوٹے گئے بیرون ملک بینکوں میں پڑے 200 ارب ڈالر وطن واپس لائے جائیں گے۔ کرپشن کے کرداروں کو تا قیامت نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ پاکستان اپنے تمام قرض اتار کر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، امریکہ اور دنیا بھر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا۔ پوری دنیا سے لوگ نوکریاں ڈھونڈنے پاکستان آئیں گے، پاکستانیوں اور گرین پاسپورٹ کو دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ پاکستان عالم اسلام کا سب سے بڑا نمائندہ بن کر ابھرے گا اور کشمیر کی آزادی یقینی ہو گی‘ لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کے ان نوجوانوں اور مڈل کلاس لوگوں، جنہوں نے تحریک انصاف کو یہ مینڈیٹ دیا تھا، کے خواب بکھر رہے ہیں ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر تو درکنار پہلے سے موجود روزگار چھینا جا چکا یا ہاتھوں سے جا رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی سے خوف کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ شدید غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے باعث عوام کی حالت 'تنگ آمد بجنگ آمد‘ والی ہو چکی ہے۔
یہ حالات اپوزیشن کی تحریک کے لئے آکسیجن سے کم نہیں‘ لیکن اس کا انحصار اپوزیشن کے بیانیے پر ہے کہ وہ اس مومنٹم کو کیسے اپنے حق میں موڑ سکتی ہے اور کیسے اپنے حق میں استعمال کر سکتی ہے۔ اپوزیشن اتحاد کی بڑی جماعت مسلم لیگ ن 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں پاور شو کرنے جا رہی ہے اور پی ڈی ایم کا متحدہ محاذ 18 اکتوبر کو کراچی سے باقاعدہ تحریک کا آغاز کرے گا۔
مسلم لیگ کے قائد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ جنوری سے پہلے کام ختم ہو جائے گا۔ یہ ایک بہت بڑی اسیسمنٹ ہے کہ وہ اور ان کے ساتھ جڑی دیگر اپوزیشن جماعتیں جنوری سے پہلے پہلے موجودہ حکومت کو گھر بھیج چکی ہوں گی۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ سب کسی انڈرسٹینڈنگ سے ہو گا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ عوام سے رجوع کریں گی۔ اس کے لئے نہ تو کسی اور سے رجوع کیا جائے گا اور نہ ہی مطالبہ‘ اور جن سے مطالبہ کیا جاتا ہے ان سے صرف عدم مداخلت کی یقین دہانی پر بات ہو گی۔ مریم نواز نے دھیرے سے اپنی پوزیشن تبدیل کی ہے اورکہا کہ ان کا بیانیہ محض حد سے تجاوز کرنے والوں کے خلاف ہے۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ پی ڈی ایم میں دیگر اپوزیشن جماعتیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویہ اختیار کر چکی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ انہیں انتخابی سیاست اور پارلیمان سے اس لئے آئوٹ کیا گیا کہ نئی حکومت کو کھل کھیلنے کا موقع دیا جائے، یہ سارا ارینجمنٹ ہی عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے لئے کیا گیا تھا‘ لہٰذا اب یہ لوگ انہیں آگے لانے والوں کو ہدف بنا کر طعنے دے رہے ہیں کہ ملک پر نااہل حکومت مسلط کر دی گئی اور جس بیانیے کے تحت نئے لوگ اقتدار میں لائے گئے اس میں سے کسی ایک ایجنڈے کی تکمیل نہیں ہو سکی۔ اس حکومت کو جن لوگوں نے اپنے کندھے پر اٹھا رکھا ہے حکومتی نا اہلی کے بوجھ سے آدھے راستے میں ان کی ہمت جواب دے چکی ہے۔ لیکن ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن اس سارے بیانیے کو عوام کے دلوں اور ذہنوں میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اور کیا اپوزیشن خود جنوری سے پہلے ساری بساط کو پلٹ دے گی؟