بظاہر معمولی نظر آنے والے واقعات بعض اوقات مس ہینڈلنگ کی وجہ سے ایسے بڑے واقعات میں تبدیل ہو جاتے ہیں‘ جن کے نتائج خفت اور پچھتاوے پر منتج ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ اتوار کے روز، کراچی میں ہوا جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے سے قبل، مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر دیگر رہنمائوں اور کارکنوں کے ہمراہ مزار قائد پر پہنچے۔ میڈیا پر یہ مناظر دکھائے گئے۔ پھر اچانک سب نے دیکھا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر، مریم نواز، مریم اورنگ زیب اور نہال ہاشمی مزار کے احاطے کے اندر آ گئے اور کیپٹن صفدر نے 'ووٹ کو عزت دو‘ اور 'فاطمہ جناح زندہ باد‘ کے نعرے لگائے۔ اگلے چند منٹ یہ ہوتا رہا‘ جس کے بعد پورے میڈیا میں مزار قائد کے تقدس کی پامالی کی بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو گئیں۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر کسی قسم کی بدنظمی پھیلانا، ہلڑبازی کرنا، نعرے لگانا یا کوئی ایساعمل کرنا جس سے مزارکی حرمت میں کمی واقع ہو، قابل گرفت جرم ہے جس کا تعین وہاں ڈیوٹی پر موجود مجسٹریٹ کرتا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور مسلم لیگ ن کا وفد پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کے لئے وہاں آیا تھا لہٰذا موقع پر کسی قسم کی فوری کارروائی سے گریز کیا گیا تاکہ جلسے سے قبل کسی قسم کی بدمزگی نہ ہو اور بطور اتحادی شاید صوبائی حکومت کا ایسا کوئی ارادہ بھی نہ تھا‘ لیکن تحریک انصاف کی صوبائی قیادت نے اس معاملے پر ایکشن لینے کا فیصلہ کیا اور وکلا کے ہمراہ متعلقہ تھانے پر دبائو ڈالا گیا کہ پرچہ درج کیا جائے۔ پھر وقاص نامی شخص کی مدعیت میں مزار قائد کی بے حرمتی اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی جانب سے قتل کی دھمکیوں کا پرچہ درج کرایا گیا، بقول وزیر اعلیٰ سندھ اس متعلقہ شخص کی فون لوکیشن مزار قائد کی نہیں تھی لہٰذا پولیس کو گمراہ کیا گیا کیونکہ اس وقت جلسہ زوروں پر تھا‘ لہٰذا کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریز کیا گیا‘ لیکن وبال اس وقت کھڑا ہوا جب مسلم لیگ ن کے مطابق صبح6 بجے ایک نجی ہوٹل سے کمرے کا دروازہ توڑ کر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو گرفتار کر لیا گیا جہاں ان کی اہلیہ مریم نواز بھی موجود تھیں۔ جس کے بعد مریم نواز اور نواز شریف کے ترجمان اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اس گرفتاری کو عمل میں لانے کے لئے رینجرز کا استعمال کیا گیا۔ آئی جی پولیس کو4 بجے ان کے گھر سے لے جا کر زبردستی اس گرفتاری کے احکامات جاری کرائے گئے‘ اور یہ بات ان کو وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کنفرم کی ہے۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کے رہنمائوں کی جانب سے پریس کانفرنس اور ایک سینئر صحافی کی جانب سے ٹویٹ میں انہی الزامات کو دہرایا گیا۔ اس معاملے پر پی ڈی ایم کے رہنمائوں کی پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو کی عدم موجودگی کو ناصرف نوٹ کیا گیا بلکہ اس کو، واقعے میں سندھ حکومت کی شمولیت سے بھی جوڑا گیا۔ سندھ کے اصل کمانڈر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی خاموشی سے متعلق بھی قیاس آرائیاں کی گئیں کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے‘ اور حسب توقع پیپلزپارٹی نے گھر آئے مہمانوں کی پیٹ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اگرچہ مریم نواز ابتدائی طور پر یہ کہہ چکی تھیں کہ بلاول بھٹو نے انہیں فون کرکے یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کا اور سندھ حکومت کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ لیکن سندھ حکومت کی جانب سے پراسرار خاموشی نے صورتحال کو گمبھیر بنا دیا۔ اس ساری صورتحال میں ڈرامائی سچویشن اس وقت پیدا ہوئی جب واقعے کے 48 گھنٹے بعد وزیراعلیٰ سندھ پریس کانفرنس کیلئے منظر عام پر آئے۔ انہوں نے جو باتیں کیں اس نے صورتحال کو مزید گمبھیر بنا دیا۔ انہوں نے کہا‘ جو بھی کارروائی ہوئی قانون کے مطابق ہوئی، کیونکہ جو پرچہ درج ہوا اس کے مطابق سندھ پولیس کی کارروائی درست تھی‘ لیکن ان کی حکومت کا اس کارروائی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ الزام ایک وفاقی وزیر‘ تحریک انصاف کے دو ایم پی ایز اور پارٹی کے صوبائی صدر حلیم عادل شیخ پر ڈال دیا۔ وزیراعلی نے سندھ پولیس کو ڈیفینڈ کیا اور نہ ہی مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر کے آئی جی سے متعلق بیان کی تردید یا تصدیق کی۔ انہوں نے اس معاملے پر وزارتی تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا اعلان تو کیا لیکن کمیٹی میں شامل وزرا کے ناموں کا اعلان نہیں کیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ دبائو میں تھے‘ جب صحافیوں نے آئی جی سندھ کے واقعے سے متعلق سوال کیا تو وہ پریس کانفرنس ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پرمزید قیاس آرائیوں کا طوفان برپا ہوگیا۔ پیپلزپارٹی، سندھ حکومت اور پی ڈی ایم کے اتحاد پر سوال اٹھنا شروع ہوگئے۔ اسی گمبھیر صورتحال کے دوران آئی جی سندھ، 3 ایڈیشنل آئی جیز، 25 ڈی آئی جیز اور 30 ایس ایس پیز نے چھٹی کی درخواستیں دے دیں جن میں لکھا گیا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے واقعے میں پولیس افسروں کو بے عزت اور ہراساں کیا گیا، افسروں سے ہوئے ناروا سلوک پر تمام پولیس افسروں کو دھچکا لگا ہے۔ تمام افسروں کی درخواست کا متن ایک تھا صرف درخواست گزاروں کے نام مختلف تھے۔ اس کے بعد دو بڑی انٹریاں ہوئیں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ایک سخت پریس کانفرنس کی جس میں اس واقعے کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی، آئی ایس آئی جنرل فیض حمید سے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا‘ جس کے فوراً بعد آرمی چیف نے ناصرف بلاول بھٹو کو فون کیا بلکہ کور کمانڈر کراچی کو تحقیقات کا حکم بھی دیا۔ بلاول بھٹو بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے سندھ پولیس سے یکجہتی کیلئے آئی جی سندھ مشتاق مہر کی رہائش گاہ پر گئے جس کے بعد پولیس افسروں نے چھٹی پر جانے کا فیصلہ تحقیقاتی رپورٹ آنے تک 10روز کیلئے مشروط طور پر ملتوی کردیا۔ یہ ساری کہانی واقعاتی تسلسل سے سنانے کا مقصد یہ تھاکہ جب واقعات کو طاقت اور اقتدار کے نشے میں معمولی سمجھ کر مس ہینڈل کیا جاتا ہے تو کبھی کبھی اس کے بھاری نتائج بھی چکانا پڑتے ہیں۔ یہ بات میں اپنے ایک کالم میں پہلے بھی کرچکا ہوں کہ حکومت پی ڈی ایم کے حوالے سے سٹک اینڈ کیرٹ پالیسی پر گامزن ہے۔ حکومتی سٹک کا ہدف مسلم لیگ ن کی قیادت ہے جبکہ دیگر جماعتوں کے ساتھ فی الحال کیرٹ پالیسی اپنائی جا رہی ہے‘ جس کا ثبوت گوجرانوالہ جلسے کے بعد لیگی قیادت پر مقدموں کی بھرمار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا مزار قائد پر نعرے لگانا غلط تھا‘ اس کی کوئی تُک بھی نہ تھی لیکن جس انداز میں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو اٹھایا گیا، سندھ پولیس پر غیر روایتی دبائو ڈالا گیا اور تیزی دکھائی گئی وہ اس سے بھی زیادہ غلط تھا۔
سندھ پولیس کے اعلیٰ افسروں کی جانب سے چھٹی پر جانے کے اقدام سے حکومت اور اداروں کی بڑی سبکی ہوئی، انہیں دو قدم پیچھے جانا پڑا‘ لیکن آرمی چیف کی مداخلت کے بعد معاملہ عارضی طور پر ٹل گیا۔ یہ سوال بہرحال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا اتنا بڑا اقدام ہائی لیول پر بتائے اور پوچھے بِنا کیا جا سکتا ہے؟
اس واقعے نے ایک بار پھر حکومت کی ناپختگی ظاہرکردی، جسے معاملات کی نزاکت اور حساسیت کا بالکل ادراک نہیں، وزیر اعظم عمران خان ابھی تک اپنی کنٹینر سیاست سے باہر نہیں آسکے لیکن اداروں کو تو ایسے معاملات کی ہینڈلنگ کا طویل تجربہ ہے‘ انہیں اس صورتحال پر نظر رکھنی چاہئے تھی۔ حکومت کو ایسے معاملات ہینڈل کرتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے تاکہ ندامت سے بچا جا سکے۔ سیاسی کھیل جاری رہنا چاہئے لیکن اس وقت پورا ملک، حکومت، اپوزیشن، ادارے اور عوام دبائو میں ہیں اور کسی بھی مس ہینڈلنگ کے متحمل نہیں!!