"IYC" (space) message & send to 7575

ٹرمپ کی یلغار اور حقیقتِ حال

حلف اٹھانے کے بعد سے اب تک کے تین ہفتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جو پالیسیاں وضع کی گئیں اور جو فیصلے اور اقدامات کیے جا رہے ہیں ان سے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ عالمی برادری کے اگلے چار سال کس طرح گزرنے والے ہیں اور مستقبل کی دنیا کیا رنگ و روپ اختیار کرنے والی ہے۔ امریکی صدر نے آتے ہی جیسے یلغار کر دی ہو۔ وہ فیصلوں کے لیے اپنے اختیارات اور طاقت کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔ کینیڈا کو امریکہ کا حصہ بنانے کا بیان‘ گرین لینڈ پر قبضہ کرنے کا ارادہ‘ کینیڈا‘ میکسیکو اور چین سے درآمدات پر بھاری ٹیرف عائد کرنے کا اعلان‘ برکس ممالک کو الگ کرنسی رائج کرنے پر ان کی مصنوعات کی امریکہ درآمدات پر سو فیصد ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی‘ پہلے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کرانا اور پھر غزہ کو اس کے باسیوں سے خالی کرانے کی پالیسی‘ داخلی سطح پر امریکہ میں بسنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے اور امریکہ میں وفاقی ملازمین کے لیے گولڈن ہینڈ شیک کی پالیسی کا اعلان واضح کرتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس دور میں بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ غالباً وہ سب کچھ جو وہ اپنے پچھلے دورِ حکومت میں نہیں کر سکے تھے۔ یہی نہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار صدر منتخب ہونے کے بعد امریکہ کو نیٹو سے الگ کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ اب انہوں نے یہ کہا ہے کہ امریکہ یورپی یونین سے آنے والی مصنوعات پر بھی ٹیرف عائد کر سکتا ہے۔ پھر وائٹ ہاؤس نے حال ہی میں بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس میں امریکہ اور اسرائیل کو نشانہ بنانے والی تحقیقات کے لیے عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حوالے سے جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ دی ہیگ کی عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کر کے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ امریکی صدر نے آئی سی سی کے اہلکاروں‘ ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ ساتھ کسی ایسے شخص کے اثاثے منجمد کرنے اور اس پر سفری پابندیوں کا حکم بھی دیا جس نے عدالت کی تحقیقات میں مدد کی ہو۔
ٹرمپ کی یلغار یہیں ختم نہیں ہو جاتی‘ امریکی صدر نے ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ نے ایران کے تیل کے نیٹ ورک کو نشانہ بنایا ہے اور ایران میں پہلے سے پابندیوں کی شکار کمپنیوں سے منسلک افراد‘ جہازوں اور فرموں پر پابندیاں لگائی ہیں۔ امریکی وزیر خزانہ نے الزام عائد کیا کہ ایران تیل کی آمدنی کو جوہری پروگرام‘ بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کو فروغ دینے پر لگا رہا ہے اور یہ کہ ایران اپنی تیل کی آمدنی کو دہشت گرد گروپوں کی مدد کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے‘ لہٰذا غیر قانونی سرگرمیوں کی فنڈنگ روکنے کے لیے مزید سخت اقدامات کریں گے۔ اس سے دو روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی مہم دوبارہ شروع کرتے ہوئے دھمکی دی کہ ایران نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی تو اسے تباہ کر دیا جائے گا۔
ٹرمپ کی یلغار ایران تک نہیں رکی‘ امریکی صدر نے چند روز قبل یہ اعلان کیا تھا کہ امریکہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کر سکتا اور اسے اپنی ملکیت میں لے سکتا ہے۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ کو اس مقصد کے لیے کسی فوجی کی ضرورت نہیں ہو گی‘ اس سے خطے میں استحکام آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل جنگ کے اختتام پر غزہ کی پٹی کو امریکہ کے حوالے کر دے گا۔ فلسطینیوں کو خطے میں نئے اور جدید گھروں کے ساتھ پہلے سے زیادہ محفوظ اور زیادہ خوبصورت کمیونٹیز میں دوبارہ آباد کیا جائے گا۔ قبل ازیں ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ سے وہاں کے باسیوں کو دوسرے ممالک میں ہجرت کرنے کی تجویز پیش کی تھی تاکہ ان کی غیر موجودگی میں غزہ میں تعمیر و ترقی کا کام کیا جا سکے۔ عرب ممالک نے اس تجویز کی سختی سے مخالفت کی تھی لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اس پالیسی پر اڑے ہوئے ہیں کہ اب انہوں نے عالمی برادری کی مخالفت کے باوجود غزہ سے فلسطینی مسلمانوں کے انخلا کی بات دہرائی ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے تو اپنی فوج کو حکم بھی دے دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کے رضاکارانہ انخلا کے لیے ایک منصوبہ تیار کرے۔ یہی نہیں امریکی صدر نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے علیحدگی اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی: United Nations Relief and Works Agency for Palestine Refugees (UNRWA) کی آئندہ فنڈنگ پر پابندی کا ایگزیکٹو آرڈر بھی جاری کر دیا ہے اور پیرس کلائمیٹ چینج معاہدے سے نکلنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اتنے سارے فیصلے اور اقدامات تو کر لیے ہیں لیکن ممکن نہیں کہ وہ ان سب کو عملی شکل بھی دے سکیں‘ کیونکہ جن کے خلاف یہ فیصلے کیے گئے ہیں وہ مٹی کے مادھو نہیں ہیں کہ ان سارے اقدامات پر خوش رہیں اور اپنی بربادی کا تماشا دیکھتے رہیں؛ چنانچہ ٹرمپ کی یلغار کا فوری اور برابر کا ردِ عمل بھی سامنے آ رہا ہے۔ امریکی صدر کے تجارتی اور سفری پابندیاں عائد کرنے پر عالمی فوجداری عدالت (ICC) کا یہ رد ِعمل سامنے آیا ہے کہ اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پابندیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ عالمی فوجداری عدالت نے اپنے رکن ممالک سے متحد ہونے کی اپیل کرتے ہوئے ہر حال میں انصاف کی فراہمی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ انصاف کی فراہمی کی پاداش میں مشکلات کا سامنا کرنے والے اپنے عملے کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ ایران نے امریکی پابندیوں کو بحری قزاقی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے اور ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ مذاکرات سمجھداری پر مبنی اور قابلِ احترام نہیں ہوں گے‘ ایران نے بہت سی رعایتیں دیں مگر امریکہ نے معاہدوں کو توڑا‘ امریکہ نے ہماری سلامتی کو خطرے میں ڈالا تو ہم ان کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈالیں گے۔
غزہ میں رہنے والے فلسطینی بھی خاموش نہیں رہے۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے ہوٹل اور ریسٹورنٹس خود ہی تعمیر کر لیں گے۔ کینیڈا‘ میکسیکو اور چین نے بھی ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی پر شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف بڑھائے گئے تو وہ بھی امریکی مصنوعات پر ٹیرف بڑھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا‘ میکسیکو اور چین پر وسیع پیمانے پر عائد کردہ محصولات پر یورپی یونین نے بھی شدید تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر یورپی یونین کو نشانہ بنایا گیا تو 27ملکی بلاک مضبوط ردِ عمل کا اظہار کرے گا۔یہی وہ دوٹوک ردِ عمل ہے جس کی بنیاد پر میں نے بھی دعوے سے یہ بات کہہ دی ہے کہ ٹرمپ نے کڑی پالیسیاں بنا تو لی ہیں اور اپنے تئیں وہ ٹھوس اقدامات بھی کر رہے ہیں لیکن اس میں انہیں کامیابی نہیں ملے گی۔ اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے ہر اپنے بیگانے کو اپنا دشمن بنا لینا دانش مندی نہیں ہوتی۔ میرا اندازہ ہے کہ نئے امریکی صدر کو یہ بات جلد سمجھ آ جائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں