مسئلہ یہ ہے کہ بجلی بہت مہنگی ہے۔ اتنی مہنگی کہ ڈومیسٹک صارفین کے ساتھ ساتھ صنعتوں کے مالکان بھی پریشان ہیں‘ کیونکہ صنعتوں کو مہنگی بجلی ملتی ہے تو صنعتی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ عالمی منڈیوں میں دوسرے ممالک کی سبسڈائزڈ بجلی اور دوسرے رعایتی لوازمات کے تحت تیار ہونے والی پروڈکٹس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتیں۔ مہنگی بجلی کی وجہ سے ہی متعدد چھوٹی بڑی فیکٹریاں اور کارخانے بند ہو چکے ہیں۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ جب ایک کارخانہ یا ایک فیکٹری بند ہوتی ہے تو دراصل ایک صنعتی یونٹ بند نہیں ہوتا بلکہ اس صنعت سے وابستہ سینکڑوں مزدوروں‘ کاریگروں اور ٹیکنیشنز کا روزگار اور ان کے گھروں کے چولہے بھی بند ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے اور بہت سے پیٹ‘ جو پہلے ہر صبح اور شام بھرتے تھے‘ خالی رہ جاتے ہیں۔ صرف پیٹ ہی خالی نہیں رہتے ان کے لیے تن ڈھانپنا مشکل ہو جاتا ہے‘ ان کے سروں سے چھت چھن جاتی ہے اور ان کے بچے سکول جانے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ گھر میں سے کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کا علاج ناممکن ہو جاتا ہے۔ ملک میں بیروزگاری کا عالم یہ ہے کہ ڈگری ہولڈر نوجوان ڈرائیور کی نوکری کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں بیروزگاروں کی نئی فوج تیار کرنے کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے‘ آخر حکومت کیوں صورتحال کی نزاکت کو نہیں بھانپ پا رہی؟
بجلی کی قیمت کے حوالے سے تازہ خبر یہ ہے کہ وفاقی کابینہ نے 14آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی شدہ معاہدوں کی منظوری دے دی ہے۔ ان معاہدوں کے تحت حکومت کو 1400 ارب روپے کا فائدہ ہو گا۔ نظرثانی شدہ معاہدوں کی رو سے 14آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کے بعد مذکورہ آئی پی پیز کے منافع اور لاگت میں 802ارب روپے کی کمی کی تجویز منظور کی گئی ہے۔ خبر کے مطابق ان آئی پی پیز میں 10وہ ہیں جو 2002ء کی پالیسی کے تحت بجلی بنا رہے ہیں‘ جبکہ چار 1994ء کی پاور پالیسی کے تحت قائم کیے گئے۔ آئی پی پیز کے ساتھ ٹیرف کے سلسلے میں بات چیت خوش آئند ہے۔ اس کے اچھے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں کہ بچت ہو رہی ہے اور صارفین کے لیے بجلی کے نرخ کچھ کم کرنا ممکن ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بجلی کے نرخ اتنے کم ہو جائیں گے کہ ہماری صنعتی مصنوعات بین الاقوامی منڈیوں میں ترقی یافتہ ممالک کی مصنوعات کے مقابلے میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ اس لیے حکومت کو بجلی کو مزید سستا کرنے کا مارجن نکالنا پڑے گا۔ میرے خیال میں یہ مارجن لائن لاسز کم کر کے نکالا جا سکتا ہے‘ لیکن حکومت کی توجہ آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت پر تو مبذول ہے‘ لائن لاسز کم کرنے کی طرف نہیں ہے۔ ملک بھر میں ہونے والے توانائی کے لائن لاسز کی بات تو بہت کی جاتی ہے لیکن ان لاسز کو کم کرنے کے سلسلے میں اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن لاسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اتنی زیادہ کہ 131ممالک کی رینکنگ میں پاکستان کا 14واں نمبر ہے۔ دنیا بھر میں لائن لاسز کی جو معمول کی شرح ہے وہ چھ سے آٹھ فیصد کے درمیان ہے‘ لیکن پاکستان میں یہ شرح 9.5سے 35.1فیصد کے درمیان‘ یعنی کئی گنا زیادہ ہے۔ پاکستان میں لائن لاسز کی شرح خطے کے ممالک میں بھی سب سے زیادہ ہے۔ کتنی زیادہ؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں یہ شرح پانچ فیصد ہے‘ بنگلہ دیش میں نو فیصد اور جنوبی کوریا میں تین فیصد ہے۔ جس یونٹ کی پیداوار کا 35 فیصد تک ضائع ہو جاتا ہو‘ اس کا کیا حال ہو سکتا ہے‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ پاکستان میں توانائی کی پیداوار کا 35 فیصد تک ضائع ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا ملک اس نہج کو پہنچ چکا ہے۔ جناب وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی شدہ معاہدے بڑی کامیابی ہیں‘ جن سے نہ صرف قومی خزانے کی بچت ہو گی بلکہ گردشی قرضہ ختم ہو گا اور بجلی کی قیمت بھی کم ہو گی‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔ بجلی بہت مہنگی ہے اور گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے مارجن نکالنا پڑے گا۔ تبھی درپیش مسائل کے حل کی طرف بڑھا جا سکے گا۔ بارِ دگر کہوں گا کہ اس کا آغاز آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے پہلے معاہدوں سے ہونا چاہیے تاکہ ملک و قوم کو یہ پتا چل سکے کہ کس نے انہیں آئی پی پیز کے پاس گروی رکھوا دیا تھا۔
بات کاروبار کی ہوئی ہے تو ہمارے ملک کا ایک اور بڑا کاروبار رئیل اسٹیٹ ہے جو ملک میں عرصے سے جاری غیریقینی صورتحال اور ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے بیٹھتا جا رہا ہے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ لوگوں کے اربوں بلکہ کھربوں روپے اس کاروبار میں پھنسے ہوئے ہیں جبکہ پراپرٹی کی قیمتیں اتنی ڈاؤن ہو چکی ہیں کہ لوگوں کو اصل زر واپس ملنا بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے چہ جائیکہ انہیں منافع ملتا۔ نئی ہاؤسنگ سکیمیں تو شروع ہو رہی ہیں لیکن ان میں لوگوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومتی ٹیکسوں کی وجہ سے ہی بلڈنگ میٹریل اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ عام آدمی کے لیے اب اپنی چھت تعمیر کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ بعض جگہوں پر تو نہ لوگوں کو پلاٹ مل رہے ہیں اور نہ ہی ادا کی گئی رقوم۔ یہ رقوم پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالک کے پاس ڈمپ ہو چکی ہیں۔ وہ تو ان رقوم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن جن کی یہ زندگی بھر کی جمع پونجی ہے‘ وہ لاچار ہیں۔ ان کی کہیں شنوائی نہیں ہے۔ لوگوں کی یہ پھنسی ہوئی رقوم نکلنی چاہئیں۔ اس کے لیے حکومت کو رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو کچھ مارجن دینا پڑے گا‘ تبھی معیشت کا پہیہ آگے کی طرف رواں دواں ہو سکے گا۔ یہ کام جتنا جلدی کر لیا جائے اتنا ہی زیادہ فائدہ مند رہے گا اور اتنا ہی بہتر ہے۔
حکومت کو کچھ مارجن گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کے حوالے سے بھی دینا پڑے گا کیونکہ گیس اور پٹرولیم مصنوعات (اس میں بجلی کو بھی شامل کر لیں) کی قیمتوں میں ہر اضافہ مہنگائی کی ایک نئی لہر پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے کیونکہ توانائی کے ان بنیادی ذرائع کے نرخوں میں اضافہ ان تمام اشیا کی پیداواری لاگت بڑھا دیتا ہے جن کی تیاری یا ترسیل کے کسی بھی مرحلے میں توانائی کے ان ذرائع کا استعمال ہوتا ہے۔ حکومت کی جانب سے درج بالا سیکٹرز میں مارجن پیدا کرنا کئی طرح کے کاروباروں کا جامد پہیہ گھمانے کا سبب بنے گا۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری کم ہو گی اور غربت کی شرح میں اضافے کا سلسلہ رک جائے گا جس کی طرف ورلڈ بینک نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں توجہ دلائی ہے۔