دو وفاقی وزرا نے دو بڑی اہم باتیں کی ہیں جن کا تعلق بالواسطہ اور بلاواسطہ‘ دونوں حوالوں سے عوام کے ساتھ ہے‘ اس لیے اس پر بات کر لیتے ہیں۔ پاکستان بزنس کونسل کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ملک میں تنخواہ دار طبقے کو غیرمتناسب ٹیکسوں کے بوجھ کا سامنا ہے جسے کم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ جاری پروگرام کی وجہ سے آئندہ بجٹ میں ٹیکس سلیب میں ممکنہ تبدیلیوں کے بارے میں غیریقینی کا اظہار کیا‘ تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ تنخواہ دار افراد کے لیے ٹیکس فائلنگ کے نظام کو آسان بنایا جائے گا جس سے ٹیکس کنسلٹنٹس اور مشیروں کی ضرورت کم ہو جائے گی۔
وزیر خزانہ نے بڑی اہم بات کی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں سے ٹیکس براہِ راست کاٹ لیا جاتا ہے یعنی ٹیکس منہا کرکے انہیں باقی تنخواہ ملتی ہے۔ یہ ریونیو اکٹھا کرنے کا سب سے آسان طریقہ ہے۔ نہ کوئی زیادہ حساب کتاب کرنا پڑتا ہے اور نہ کوئی بڑی تگ و دو‘ یہی وجہ ہے کہ ریونیو کے اہداف پورے کرنے کے لیے ہر حکومت کی نظر سب سے پہلے اس تنخواہ دار طبقے پر ہی پڑتی ہے‘ چنانچہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھتے بڑھتے ناقابلِ برداشت حد تک زیادہ ہو چکا ہے۔ قبل ازیں اس کا اعتراف فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے بھی کیا تھا۔ اکتوبر 2024ء میں سامنے آنے والی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت نے گزشتہ برس جون میں اخراجات میں کمی اور ٹیکس نیٹ کو مؤثر انداز میں بڑھانے کے بجائے تنخواہ دار افراد پر ٹیکس بوجھ میں غیرمعمولی اضافہ کیا۔ 28 ارب روپے کا انکم ٹیکس تمام وفاقی اور صوبائی سرکاری ملازمین نے ادا کیا ہے جن کی تنخواہوں میں 20 سے 25 فیصد اضافہ ہوا۔ باقی 83 ارب روپے کا انکم ٹیکس نجی شعبے کے ملازمین نے ادا کیا جن کی اکثریت کو سالانہ انکریمنٹ بھی نہیں ملتی۔ اس کے مقابلے میں ایف بی آر نے تاجروں سے صرف 6.7 ارب روپے جمع کیے۔ ایف بی آر کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ تنخواہ داروں کا ٹیکس میں حصہ امپورٹرز اور پرچون فروشوں سے بڑھ گیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے نے چھ ماہ (جولائی تا دسمبر) میں برآمد کنندگان کے مقابلے میں 300 فیصد سے زائد ٹیکس ادا کیا۔ اس طبقے نے کل 243 ارب روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ جون 2025ء تک تنخواہ دار طبقے سے 500 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا تخمینہ ہے۔
یہ اعداد و شمار دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ ملک تنخواہ دار طبقہ ہی اپنے ٹیکسوں سے چلا رہا ہے۔ اور معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ بھاری ٹیکس ادا کرنے کے بعد جو سیلری تنخواہ دار طبقے کو ملتی ہے اس سے جب وہ مہینے بھر کا سامان خریدنے جاتا ہے تو اس پر بھی سیلز ٹیکس اور پتا نہیں مزید کون کون سے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس ملک میں تنخواہ دار طبقہ ہی سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ نظر آتا ہے جس کے آمدنی کے وسائل بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کی وجہ سے کم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ان کے لیے جسم و جان کا ناتا قائم رکھنا مشکل اور محال بنا دیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کی آمدن میں ہر سال بجٹ کے وقت جو پانچ‘ دس یا پندرہ فیصد اضافہ کیا جاتا ہے وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا عفریت کھا جاتا ہے یا پھر وہ ٹیکسوں میں بے سوچے سمجھے کیے جانے والے اضافوں کی نذر ہو جاتا ہے اور تنخواہ دار طبقہ اسی کسمپرسی کا شکار رہ جاتا ہے جس کا شکار وہ بجٹ کے اعلان سے پہلے ہوتا ہے۔ یہ طبقہ مجبور ہے کہ اسے اپنی مہینے بھر دی گئی سروسز کا معاوضہ ملنا ہوتا ہے اور وہ دوسرے طبقوں کی طرح اپنی آمدنیوں کا حساب کتاب چھپا نہیں سکتا‘ اسی لیے ٹیکسوں کا سب سے زیادہ قہر اسی پر نازل ہوتا ہے۔ یہی معاملہ بجلی اور گیس کے بلوں کے ساتھ ہے کہ ان بلوں میں اتنے ٹیکس لاد دیے گئے ہیں کہ استعمال کردہ بجلی یا گیس کی قیمت اس کے سامنے بہت چھوٹی نظر آتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ بجلی کے بلوں میں کون کون سے ٹیکسز وصول کیے جاتے ہیں۔ جنرل سیلز ٹیکس‘ انکم ٹیکس‘ ایڈوانس انکم ٹیکس‘ ایکسٹرا سیلز ٹیکس‘ الیکٹرسٹی ڈیوٹی‘ ٹی وی فیس‘ علاوہ ازیں بجلی چوری اور لائن لاسزکا بوجھ بھی عام صارفین کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
میں نے کالم کے آغاز میں دو وفاقی وزرا کی بات کی تھی۔ دوسرے وفاقی وزیر ہیں وزیر توانائی اویس احمد خان لغاری۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت گردشی قرضوں سے نمٹنے اور بجلی کے نرخوں میں پائیدار کمی لانے کی کوشش میں نیوکلیئر پاور پلانٹس‘ واپڈا کے ہائیڈرو پاور پلانٹس اور دیگر پبلک سیکٹر منصوبوں کے ساتھ ساتھ چینی پاور پروڈیوسرز کے ٹیرف سٹرکچر کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔ ایک عرصے سے سننے میں آ رہا ہے کہ بجلی سستی ہو گی‘ گردشی قرضے کم ہوں گے۔ کب کم ہوں گے؟ اس بارے میں کوئی واضح طور پر نہیں بتاتا۔ کوئی نہیں بتاتا کہ آئی پی پیز کے ساتھ مہنگے معاہدے کس نے کیے؟ کوئی نہیں بتاتا کہ بجلی مہنگی ہو تو مہنگائی کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟ حالانکہ بجلی مہنگی ہو تو ہر اس چیز کی قیمت میں خود بخود اضافہ ہو جاتا ہے جس کی تیاری یا ترسیل کے کسی بھی مرحلے میں بجلی کا استعمال ہوتا ہے۔ میں کوئی معیشت دان تو نہیں لیکن یہ بات پھر بھی خاصے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ صرف بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات سستی کر دیجیے‘ سستی بھی نہ کیجیے‘ ان پر لیے جانے والے بے جا ٹیکس ختم کر دیجیے مہنگائی کا گراف یکدم نیچے نہ گرا تو کہیے گا۔ ایک طرف توانائی کے ذرائع کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں‘ دوسری جانب مہنگائی کم ہونے کے دلاسے دیے جاتے ہیں‘ حالانکہ ایک وقت میں ان دونوں میں سے ایک کام ہی ہو سکتا ہے۔
اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ حکومت کو تنخواہ دار طبقے کو مارجن دینا ہو گا‘ تبھی یہ طبقہ سانس لے سکے گا ورنہ دم گھٹ کر مر جائے گا اور یہ مارجن اس طبقے پر عائد کیے گئے بے پناہ ٹیکسوں میں کمی کر کے ہی دیا جا سکتا ہے۔ ٹیکس فائلنگ کے نظام کو آسان بنانا ایک اچھا اقدام ہو سکتا ہے لیکن تنخواہ دار طبقے کو حقیقی ریلیف ٹیکس کم کرنے سے ہی ملے گا۔ دوسرا یہ کہ توانائی کے ذرائع بشمول بجلی پر ٹیکسوں کی شرح کم کرنا ہو گی اور یہ مارجن لائن لاسز اور بجلی چوری کی شرح کم کر کے نکالا جا سکتا ہے۔ بے جا ٹیکس کم ہو جائیں اور عام بجلی صارفین پر لائن لاسز کا بوجھ کم کر دیا جائے تو مارجن خود بخود نکل آئے گا۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے وزیر توانائی کی منظوری سے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو نچلے سلیب میں موجود بجلی صارفین کے لیے سکیورٹی ڈیپازٹس میں 400 فیصد تک اضافے کے لیے باضابطہ درخواستیں جمع کرا دی ہیں۔ عام آدمی بجلی کا بل ایک مہینہ ادا نہ کرے تو اسے Disconnection کا نوٹس آ جاتا ہے اور دوسرے مہینے جمع نہ کرا سکے تو Disconnection والے آ جاتے ہیں اور اپنا کام مکمل کر کے ہی جاتے ہیں۔ ایسے میں سکیورٹی ڈیپازٹس کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ بجلی صارف کے لیے مارجن اور سکیورٹی ہے کہاں؟