جب سے اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے ظہیر کاشمیری کی یہ غزل بے طرح یاد آ رہی ہے۔
موسم بدلا رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
گل بوٹوں کے رنگ اور نقشے اب تو یونہی مٹ جائیں گے
ہم کہ فروغِ صبح ِچمن تھے پابندِ فتراک ہوئے
مہرِ تغیر اس دھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکا
صدیوں کے افتادہ ذرے ہم دوشِ افلاک ہوئے
دل کے غم نے دردِ جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا
پہلے پلکیں پُر نم تھیں اب عارض بھی نمناک ہوئے
کتنے الھڑ سپنے تھے جو دورِ سحر میں ٹوٹ گئے
کتنے ہنس مکھ چہرے فصلِ بہاراں میں غم ناک ہوئے
برقِ زمانہ دور تھی لیکن مشعل ِخانہ دور نہ تھی
ہم تو ظہیر اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے
یہ کیسا معاہدہ ہے جس کے ایک ایک لفظ سے لہو ٹپک رہا ہے اور ایک ایک حرف سے انسانی گوشت کی بو آ رہی ہے۔ جس کے ہر ہر نکتے سے جلے ہوئے بارود کے بھبھوکے اُٹھ رہے ہیں۔ جس کی ہر سطر سے میلوں تک پھیلی تباہ شدہ عمارتوں کی ہولناکی‘ ویران گلیوں اور سڑکوں کی اداسی ابھر رہی ہے۔ ایک ایسا معاہدہ جس کی خاموشی سے انسانی کرب کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں؟ اہلِ غزہ اس معاہدے پر خوشی منا رہے ہیں۔ انہیں خوشی منانی بھی چاہیے کہ اس ایک معاہدے کیلئے انہوں نے پندرہ ماہ آتش و آہن کی بارش میں گزارے ہیں۔ ساری دنیا بارود کی یہ بارش ہوتی دیکھتی رہی‘ احتجاج بھی کرتی رہی‘ لیکن غنیم کو اسلحہ فراہم کرنے والے اسلحہ فراہم کرتے رہے اور ساتھ ساتھ انسانی المیوں کی داستان پر ماتم بھی بپا کرتے رہے۔ کیا یہ بات حیران کر دینے والی نہیں کہ امریکہ کا ایک نومنتخب صدر‘ جو ابھی صدر بنا بھی نہیں تھا‘ اپنے ایک حکم سے اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کر دیتا ہے لیکن ایک حاضر سروس امریکی صدر اسرائیلی وزیر اعظم کو اپنا ہاتھ روکنے پر رضامند نہیں کر سکا‘ انسان اور انسانیت کو تباہ کرنے سے نہ روک سکا؟ کوئی منافقت سی منافقت ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ ایک ملک میں جرم کرنے والا اگر کسی دوسرے ملک میں جا کر پناہ لے لیتا ہے تو انٹرپول کے ذریعے اسے تلاش کر لیا جاتا ہے اور متعلقہ ملک کے حوالے بھی کر دیا جاتا ہے لیکن عالمی عدالت انصاف کی جانب سے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی‘ اقوام متحدہ کی قراردادیں اسرائیلی جبر کے خلاف واویلا کرتی نظر آتی ہیں لیکن جانب دارانہ پالیسیوں کے حامی اپنی پالیسیوں پر عمل کرتے رہتے ہیں۔
جب یہ سنا کہ معاہدہ طے پا گیا ہے اور جب یہ دیکھا کہ اہلِ فلسطین جشن منا رہے ہیں تو یکایک خیال اس جانب چلا گیا کہ یہ لوگ جو اسرائیلی بارود کی تباہ کاریوں سے بچ گئے ہیں اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو انہیں اپنے گھر ملیں گے یا کھنڈر اور وہ ان کھنڈروں میں اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع بھی کر سکیں گے یا نہیں؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے نام کا ادارہ اس عزم اور نظریے کے تحت قائم کیا گیا تھا کہ آئندہ کبھی دنیا کو ایسی تباہی سے دوچار نہیں ہونے دینا جیسی تباہی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں ہوئی‘ لیکن اس کے بعد گزرنے والی دہائیوں‘ سالوں اور مہینوں نے دیکھا کہ اس تباہی کو روکا نہیں جا سکا‘ وہ کبھی کمیونزم کے نام پر آن وارد ہوتی ہے اور کبھی سوشلزم کا علم بلند کیے نئی داستانیں رقم کرتی نظر آتی ہے۔ افغانستان پر دو دفعہ جنگ مسلط کی گئی۔ عراق کو تباہ کیا گیا۔ اس سے پہلے عراق اور ایران کا تصادم کرایا گیا۔ کویت کی جنگ ہوئی۔ یمن پر حملے ہوئے۔ لبنان کو تاخت و تاراج کیا گیا۔ فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی۔ پاکستان اور بھارت کی دو جنگیں ہوئیں اور یوکرین کی جنگ نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ امن کے پرچارک امن کا پرچار کرتے رہے اور جنگ کے دھنی جنگ کیلئے اسلحہ فراہم کرتے رہے۔ انسانیت مرتی رہی اور اسلحہ ساز فیکٹریاں اور کارخانے بھی پوری رفتار سے چلتے رہے۔
اس وقت فلسطین خصوصاً غزہ میں حالات بہت خراب ہیں۔ غزہ میں انسانی تاریخ کا سنگین ترین غذائی بحران ہے‘ جہاں 90 فیصد بچے کئی ماہ سے فاقوں پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ غذائی بحران اور قلت کی رپورٹ کے مطابق غزہ اور سوڈان سمیت دیگر ممالک کے ایسے 20 لاکھ افراد کو فیز 5 کی کیٹیگری میں رکھا گیا ہے جو ادارے کی شدید خوراک کی قلت کی کیٹیگری ہے اور اس میں شامل افراد خوراک نہ ملنے سے موت کے منہ میں بھی جا سکتے ہیں۔ ادارے کے مطابق خوراک کا سب سے زیادہ بحران غزہ میں ہے‘ جہاں کے 90 فیصد بچے کئی ماہ سے صرف دو وقت کی غیر معیاری خوراک پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ غزہ کے 50 ہزار بچوں کو ہنگامی بنیادوں پر نہ صرف اچھی خوراک بلکہ غذائی قلت کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگیوں کی طبی امداد کی بھی ضررورت ہے۔ اقوام متحدہ نے غزہ میں خوراک کی قلت کو انسانی تاریخ کا سنگین ترین بحران قرار دیتے ہوئے بتایا کہ غزہ میں غذا کی فراہمی کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور وہاں کے لوگ شدید بھوک کا شکار ہیں۔ یہی نہیں‘ حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت کے مطابق جنگ کے دوران 46ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور منہدم ملبے میں سے بھی روزانہ لاشیں برآمد ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ تباہ ہونے والی عمارتوں میں غزہ میں 90 فیصد سے زیادہ رہائشی یونٹ شامل ہیں‘ جن میں سے ایک لاکھ60ہزار تباہ ہوئے اور مزید دو لاکھ 76ہزار کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ CUNY Graduate Center اور Oregon State University کے ماہرین کے مطابق 15ماہ سے جاری تنازع نے ممکنہ طور پر غزہ کی پٹی میں تقریباً 60 فیصد عمارتوں کو نقصان پہنچایا ہے جس میں غزہ شہر کو سب سے زیادہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جنگ سے پہلے غزہ کی 22 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر اس کے چار اہم شہروں جنوب میں رفح اور خان یونس‘ مرکز میں دیرالبلاح اور غزہ شہر میں رہتے تھے جوسات لاکھ 75ہزار افراد کا گھر تھا لیکن اب تقریباً پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر فعال عالمی اداروں کے مطابق غزہ کی 22 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور انہیں خوراک اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا بھی ہے۔
اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ تو ہو گیا ہے لیکن اس امر کو کون یقینی بنائے گا کہ اس معاہدے پر عمل درآمد بھی کیا جائے گا؟ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ کیا امریکہ اور باقی ممالک آئندہ اسرائیل کو ان عزائم سے باز رکھنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ ان سوالوں کا کوئی جواب کہیں سے نظر نہیں آتا۔ ہر طرف ایک سوال ہے ‘ سوالیہ نشان ہے اور خاموشی ہے۔
آج اہلِ غزہ کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ انہیں کھانا چاہیے‘ تن ڈھانپنے کو کپڑے اور شدید سردی سے بچنے کیلئے کمبل اور رضائیاں درکار ہیں‘ اور اپنے تباہ حال مکانوں کی مرمت اور دوبارہ تعمیر کیلئے دوسرے لوازمات کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے پہلے اسرائیل فلسطینی مسلمانوں تک خوراک اور امدادی سامان نہیں پہنچنے دے رہا تھا‘ لیکن معاہدہ طے پانے کے بعد یہ سامان غزہ کے بے آسرا مسلمانوں تک پہنچنا شروع ہو چکا ہے۔ میری اہلِ پاکستان سے گزارش ہے کہ اپنے فلسطینی مسلمان بھائیوں کی بڑھ چڑھ کر مدد کریں تاکہ ان کے حالات کچھ بہتر ہو سکیں۔ ہمارے فلسطینی بھائی دہرے کرب میں مبتلا ہیں‘ ان میں سے کئی لوگوں کے والدین‘ کئی کے بچے اور کئی کے قریبی رشتہ دار شہید ہو چکے ہیں اور ان کے گھر تباہ ہیں۔ ایسے میں انہیں ہماری مالی اور اخلاقی دونوں طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔