بالآخر پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی کیلئے کرکٹ میچوں کا آغاز ہو گیا۔ پہلا ٹاکرا پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہے اور جب میں یہ کالم تحریر کر رہا ہوں تو صورتحال یہ ہے کہ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا اور نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 321 رنز کا ہدف دیا۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو میچ کا نتیجہ بھی جان چکے ہوں گے۔
ٹورنامنٹ کا آغاز بلا شبہ پاکستان میں کرکٹ کے حوالے سے ایک بڑا اور یادگار لمحہ ہے کہ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی کے مطابق 29 سال بعد ہمارے ملک میں آئی سی سی ٹورنامنٹ کا انعقاد باعثِ افتخار ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایونٹ کا شاندار انعقاد یقینی بنا کر پاکستان کی عزت بڑھائیں گے۔ بھارت کی تمام تر مخالفت اور ناجائز و غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کے باوجود پاکستان میں اس ٹورنامنٹ کا آغاز اور انعقاد ایک بڑی کامیابی ہے جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔
ڈیڑھ سال پہلے بھارت میں ورلڈ کرکٹ کپ ہوا تھا تو ایک بات بڑے تسلسل سے سننے کو ملی تھی کہ اس ٹورنامنٹ میں ہونے والے میچوں کی ورلڈ کپ 1992ء کے ساتھ مماثلت کیا ہے۔ یہ سوچا گیا کہ 92ء کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کئی میچ ہار کر سیمی فائنل میں پہنچا تھا۔ ابتدائی راؤنڈ کے میچوں کے دوران ہماری ٹیم کو بہت سے Ifs and Buts کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پھر آخر کار ہماری ٹیم سیمی فائنل جیتی اور فائنل جیتنے میں بھی کامیاب ہوئی۔ کرکٹ میں وہ واحد عالمی سطح کا کرکٹ ٹورنامنٹ ہے جو پاکستان کے کریڈٹ پر ہے اور قوم اب تک اسی سے محظوظ ہوئے چلی جا رہی ہے۔
اس پر ہم بعد میں بات کرتے ہیں کہ 30 سال سے زیادہ عرصہ بیت جانے کے باوجود ہم کوئی بڑا ٹورنامنٹ جیتنے میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکے؟ پہلے چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ کے لیے جادوئی تیاریوں پر تھوڑی سی بات کر لیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے صرف 117 روز یعنی کم و بیش چار ماہ میں قذافی سٹیڈیم لاہور کی 99 فیصد تکمیل کو دنیائے کرکٹ کا منفرد ریکارڈ قرار دیا گیا ہے۔ تزئین و آرائش کے بعد 25 ہزار نشستوں والے قذافی سٹیڈیم میں مزید 10 ہزار شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش بنی ہے اور اب 35 ہزار سے زائد شائقین بیک وقت گراؤنڈ میں میچ سے لطف اندوز ہوں گے۔ محسن نقوی کو پنجاب کی نگران وزارتِ علیہ کے دور میں تیز رفتاری سے ترقیاتی پروجیکٹس مکمل کرانے پر محسن سپیڈ کا نام دیا گیا تھا۔ محسن نقوی نے اپنی برق رفتاری کرکٹ سٹیڈیمز کی تیاری‘ تعمیر و مرمت اور تزئین و آرائش کے معاملے میں بھی برقرار رکھی جس پر وہ یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کے لیے ایک مبارکباد اس بات پر بھی بنتی ہے کہ دو تین ماہ پہلے جب بھارت نے چیمپئنز ٹرافی کی راہ میں دہشت گردی کو بنیاد بنا کر اپنی ٹیم پاکستان نہ بھیجنے کا اعلان کر کے روڑے اٹکانے کی کوشش کی تھی‘ اس پر بھارت کو ترکی بہ ترکی جواب دینے میں بھی محسن نقوی نے کوئی تساہل نہیں دکھایا تھا۔ بھارتی سازش ناکام ہوئی اور آج چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہی نہیں‘ محسن نقوی نے بھارت کی چال الٹا بھارت پر ہی ڈال دی کہ وہ اگر چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ کے میچز نیوٹرل مقام پر کھیلے گا تو پاکستان بھی بھارت کے ساتھ اپنے میچز کھیلے گا تو ضرور لیکن بھارت جا کر نہیں بلکہ بھارت ہی کی طرح نیوٹرل مقام پر‘ چنانچہ آج پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین میچ کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں کھیلا جا رہا ہے تو کل بروز جمعرات بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین میچ دبئی کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا‘ اور اتوار کے روز یعنی 23فروری کو پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھارت کے خلاف اپنا میچ کھیلنے کے لیے دبئی جائے گی۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ پاکستان نے نیوٹرل مقام پر میچوں کا بندوبست کر لیا‘ لیکن ٹورنامنٹ کو ادھر ادھر نہیں ہونے دیا۔
درج بالا سطور میں مَیں نے سابق ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں رونما ہونے والی صورت حال کی 1992ء کے ورلڈ کپ سے مماثلت کا ذکر کیا۔ ان سابق ورلڈ کپس کی 1992ء کے ورلڈ کپ کے ساتھ کوئی مماثلت تھی یا نہیں‘ اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ البتہ تھوڑا سا عمیق جائزہ یہ ضرور بتا دیتا ہے کہ جاری چیمپئنز ٹرافی اور 1992ء کے ورلڈ کپ میں کئی مماثلتیں موجود ہیں۔ 1992ء کا ورلڈ کپ فروری میں شروع ہوا تھا اور اس کا فائنل مارچ کے چوتھے ہفتے میں کھیلا گیا تھا۔ چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ بھی فروری میں شروع ہوا ہے اور اس کا فائنل میچ مارچ کے دوسرے ہفتے میں ہو گا۔ 1992ء کے ورلڈ کپ کی طرح چیمپئنز ٹرافی کے دوران بھی بہت سے Ifs and Butsسامنے آ سکتے ہیں۔ پھر آپ نے جاری چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی وردی ملاحظہ فرمائی ہے؟ یہ ویسے ہی رنگ و روپ کی ہے جیسی 1992ء کے ورلڈ کپ میں تھی۔ تو کیا خیال ہے‘ پاکستان کے ایک بار پھر چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے کتنے امکانات نظر آتے ہیں؟ مجھے تو بہت نظر آتے ہیں اور اس سامنے کی حقیقت کے باوجود نظر آتے ہیں کہ ہماری ٹیم Unpredictable ہے۔ کبھی یہ 353رنز کا ہدف بھی حاصل کر لیتی ہے اور کبھی اسی ٹورنامنٹ میں فائنل میچ کے لیے صرف 243رنز کا ہدف دیتی ہے اور پھر اس کا دفاع بھی نہیں کر پاتی۔ خیر جیت اور ہار ہر میچ کا حصہ ہوتی ہے۔ دو ٹیمیں اگر کھیلنے کے لیے میدان میں اترتی ہیں تو ظاہر ان میں سے جیتنا کسی ایک نے ہی ہوتا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ وہی ٹیم جیتتی ہے جس کی کارکردگی اچھی ہوتی ہے۔ اللہ کرے کہ پاکستان کی ٹیم یہ ٹورنامنٹ جیت جائے‘ چاہے Ifs and Buts کے ساتھ جیتے اور چاہے Unpredictable کارکردگی کے ساتھ جیتے‘ بس جیت جائے کہ اس ملک کے عوام کو کوئی بڑی خوشخبری سنے عرصہ بیت چکا ہے۔
اب آ جائیں اس سوال کی طرف کہ پاکستان ایک عرصے سے کوئی بڑا ٹورنامنٹ کیوں نہیں جیت سکا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری تیاری اس سطح کی نہیں ہوتی جس نوعیت اور جس درجے کی تیاری کے ساتھ دوسرے ممالک کی ٹیمیں میدان میں اترتی ہیں۔ درجنوں بار ایسا ہوا کہ کسی ٹیم کے ابتدائی کھلاڑی لڑکھڑائے تو بعد میں آنے والوں نے میچ کو سست کیا اور میچ کو سنبھالا اور صرف سنبھالا ہی نہیں میچ جیت کر بھی دکھایا۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کوئی بھی میچ‘ کوئی بھی جنگ جیتنے اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں درجۂ کمال تک پہنچنے کے لیے ایک تسلسل (Steadiness) کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے کھلاڑیوں میں وہ استقلال‘ پامردی‘ ثابت قدمی‘ مداومت‘ استمرار اور استحکام نظر نہیں آتا جو ان میں ہونا چاہیے۔ یہ استقلال پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ضروری نہیں کہ دو کھلاڑی اگر جلدی آؤٹ ہو جائیں تو باقی کھلاڑیوں کے ٹانگیں کانپنے لگیں‘ اور ان کی وکٹیں بکھرے ہوئے پتوں کی مانند اڑتی چلی جائیں۔ ان سارے مسائل کے باوجود بارِ دگر میری دعا ہے کہ کچھ ایسے Ifs and Butsہو جائیں کہ پاکستان ایک بار پھر چیمپئنز ٹرافی کا ونر بن جائے۔ آمین۔