بات ہو رہی تھی تیسری عالمگیر جنگ کے بارے میں جاری بیانات کی اور اس عالمی جنگ کے بارے میں ماضی میں کی گئی پیش گوئیوں کی۔ برطانوی چیف آف جنرل سٹاف اور آرمی چیف جنرل سر پیٹرک سینڈرز نے گزشتہ برس 27 جنوری کو اپنے ایک خطاب میں برطانیہ کی موجودہ آبادی کو 'جنگ سے پہلے کی نسل‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب 'ہمارے معاشروں کو جنگی بنیادوں پر کھڑا کرنے کے قابل بنانے کے لیے تیاری کے اقدامات‘ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ان کے خطاب میں جنگ کی تیاریوں کے حوالے سے بات چیت کو تیسری عالمی جنگ کی پیش گوئی یا اشارہ قرار دیا جا سکتا ہے؟
آج سے کم و بیش 850سال پہلے ایک معروف‘ با کمال صوفی حضرت نعمت اللہ شاہ ولی گزرے ہیں۔ شاہ نعمت اللہ فارسی کے صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ ان کا لکھا گیا ایک قصیدہ بہت مشہور ہے۔ اس قصیدے میں اس برگزیدہ ولی اللہ نے آنے والے زمانے میں حوادث کی پیش گوئیاں فارسی اشعار کی صورت میں کی ہیں۔ یہ پیش گوئیاں آج تک حرف بہ حرف درست ثابت ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ انہی نعمت اللہ شاہ ولی کی پیش گوئی ہے کہ ہندوستان کی طرح مغرب یعنی یورپ کی تقدیر بھی خراب ہو جائے گی اور تیسری عالمی جنگ شروع ہو جائے گی۔ پیش گوئی کے طور پر لکھے گئے شعر میں دو الف کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ الف ممکنہ طور پر امریکہ اور انگلستان کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ پیش گوئی میں کہا گیا کہ ان میں ایک الف (غالباً انگلستان) روس کے حملے سے ایسا تباہ ہو جائے گا کہ اس کا ایک نقطہ بھی باقی نہ رہے گا اور اس کا نام اور تذکرہ صرف تاریخ کی کتابوں میں نظر آیا کرے گا۔ یہ پیش گوئی بھی ہے کہ دوسری عالمگیر جنگ میں شکست خوردہ جرمنی یا جاپان روس کے ساتھ برابری کرے گا یا ساتھ مل جائے گا۔ اس جنگ میں جہنمی قسم کے (غالباً ایٹمی ہتھیاروں کی طرف اشارہ ہے) انتہائی مہلک آتشیں ہتھیار استعمال کیے جائیں گے۔ روس بھی چین کے قہر و غضب سے تباہ ہو جائے گا اور چین سے روس مکر و فریب اور حیلہ و بہانہ سے امان حاصل کر کے جان بچائے گا۔
زمرد نقوی معروف نجومی اور اختر شناس ہیں۔ تین ماہ پہلے لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں وہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ فال آف سیریا (شام) دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران کو مزید سزا دینے کی کوشش کی جائے گی اور یہیں سے حالات خراب ہونا شروع ہو جائیں گے۔ دوسری جانب روس یوکرین جنگ کو ختم کرانے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں اور اس سلسلے میں دونوں ملکوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے‘ لیکن کچھ شرائط بھی عائد کی جا رہی ہیں۔ زمرد نقوی لکھتے ہیں کہ پوتن نے ایٹمی جنگ کی صورت میں انسانی جانوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے علاوہ ایک اور انتہائی اہم بات یہ کی کہ ایران‘ یمن‘ لبنان‘ شمالی کوریا‘ بیلا روس اور چین پر کسی بھی حملے کو روس پر حملہ سمجھا جائے گا اور اس پر فوری ردِ عمل دیا جائے گا۔ صدر پوتن کا دعویٰ تھا کہ روس کے پاس انتہائی جدید اور تیز رفتار نیوکلیئر میزائل ہیں جو کسی بھی دشمن کے شہر کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ کیا زمرد نقوی نے تیسری عالمی جنگ کی پیش گوئی ہے؟
لندن میں رہنے والے 38سالہ عملِ توجہ کے عامل یعنی ہپنوتھراپسٹ (Hypnotherapist) نیکولس آجولا (Nicholas Aujula) کا کہنا ہے کہ 2025ء میں تیسری عالمی جنگ یقینی طور پر ہو گی۔ یہ ایسا وقت ہو گا جب اپنے ہی اپنوں کا گلا کاٹ رہے ہوں گے اور سیاسی قتل رواج کی شکل دھار لیں گے۔ سڈنی میں رہنے والے بشپ مار ماری امانویل (Mar Mari Emmanuel ) کا کہنا ہے کہ تیسری عالمی جنگ کا وقت انسانیت کے لیے بہت خوفناک ہو گا۔ جنگ کے دوران لاکھوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور جو بچ جائیں گے ان کے لیے جان وتن کا رشتہ قائم رکھنا ناممکن نہیں تو مشکل اور محال ضرور ہو جائے گا۔ بھارتی ناسڑا ڈیمس کے طور پر مشہور کوشل کمار کا بھی یہ ماننا ہے کہ تیسری عالمگیر جنگ بہت جلد شروع ہو جائے گی۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہیروشیما اور ناگا ساکی پر امریکی ایٹم بموں کے حملے کے نتیجے میں ہوا تھا جبکہ میرا ذاتی خیال یا قیاس یا اندازہ یہ ہے کہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے ہو گا‘ اور اگر ایک بار یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو سلسلہ وار ری ایکشن کے طور پر ایک کے بعد ایک ایٹمی ہتھیار چلنا شروع ہو جائیں گے اور کسی شہر کو محفوظ رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں یا دوسرے ایشوز پر بھی دو یا دو سے زیادہ ممالک کے درمیان کوئی غلط فہمی تیسری عالمی جنگ کے آغاز کا باعث بن سکتی ہے۔ آج کے جدید اور تیز رفتار مواصلاتی نظام والی دنیا میں ایسی غلط فہمیاں پیدا کرنا اب زیادہ مشکل نہیں رہا‘ اس لیے زیادہ سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایٹمی حملوں کا آغاز کہاں سے ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب گزشتہ برس ڈیلی سٹار میں شائع ہونے والی اس رپورٹ سے ملے گا جو امریکی حکومت کی مرتب کردہ اور گزشتہ سال منظر عام پر آنے والی ایک خفیہ دستاویزات کی بنیاد پر مرتب کی گئی۔ ان دستاویزات کے مطابق اگر تیسری عالمی جنگ چھڑی تو سب سے پہلے امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی صفحۂ ہستی سے مٹے گا اور یہ حملہ اچانک اور غیر متوقع ہو گا اور پورے شہر کو ملیامیٹ کر کے رکھ دے گا۔ اس کے بعد امریکی انتظامیہ (جو بھی اس وقت موجود ہو گی) پر لازم بلکہ ناگزیر ہو جائے گا کہ وہ اس حملے کا جواب دے۔ اس طرح ایٹمی حملے روئے ارض اور انسانیت کو تباہ کرنا شروع کر دیں گے اور جب ہوش آئے گا کہ یہ کیا ہو رہا ہے تو اس وقت تک سب کچھ ہاتھوں سے نکل چکا ہو گا۔
اقوام متحدہ میں کچھ ممالک کو حاصل ویٹو پاورز اور ان ممالک کی جانب سے اپنے پسندیدہ ملکوں اور قوموں کی نگہبانی کا عمل پہلے عالمی برادری کو بے چین کیے دے رہا ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے اوّل تو اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد منظور ہونے ہی نہیں دی‘ اور اگر ہو بھی گئی تو اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کا اقتدار سنبھالنے کے بعد جو اولین احکامات جاری کیے ان میں سے ایک عالمی عدالت انصاف کے خلاف بھی تھا کہ وہاں سے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کی گرفتاری کے احکامات کیوں جاری ہوئے۔ دنیا پہلے ہی دو دھڑوں بلکہ کئی دھڑوں میں تقسیم ہے۔ اگر جانب دارانہ فیصلوں اور اقدامات کا سلسلہ بلاروک اسی طرح جاری رہا تو پھر تیسری عالمگیر جنگ کے بپا ہونے کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ اسرائیل حماس تنازع میں امریکہ نے واضح طور پر اسرائیل کا ساتھ دیا اور اس کی مالی کے ساتھ ساتھ حربی مدد بھی کی۔ دوسری جانب مسلم دنیا کی جانب سے حماس کی حمایت تو کی جاتی رہی‘ اس حوالے سے بیانات بھی جاری کیے جاتے رہے لیکن سوائے امدادی سامان پہنچانے کے جنگ زدہ فلسطینی عوام کی کوئی بڑی اور واضح حمایت و تائید نہ کی جا سکی۔ یہ معاملات ظاہر کرتے ہیں کہ تیسری سرد جنگ تو عرصے سے جاری ہے‘ اور اس کا نتیجہ تیسری عملی عالمی جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔