امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تیسری عالمی جنگ سے متعلق حالیہ بیان نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر نے خبردار کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور یوکرین میں جاری کشیدگی کے باعث تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے‘ تاہم انہیں یعنی ڈونلڈ ٹرمپ کو یقین ہے کہ اُن کی صدارت ایسا ہونے سے روک سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کی صدارت تیسری عالمی جنگ روکنا چاہے گی؟
یوں تو تیسری عالمی جنگ کی باتیں اور قیاس آرائیاں دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے وقت سے ہی ہو رہی ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصہ میں ایسی قیاس آرائیوں اور بیان بازی میں تیزی آئی ہے جس کی وجہ میرے خیال میں سرد جنگ کے بعد کے زمانے میں تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات و واقعات ہیں۔ کیا واقعی ایسا وقت آئے گا یا آنے والا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک دو حصوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہو جائیں گے؟ اور اگر خدانخواستہ تیسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو روایتی ہتھیاروں کے استعمال تک محدود رہے گی یا غیر روایتی ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا جائے گا؟ ویسے تو روایتی ہتھیار بھی کم تباہ کن نہیں ہوتے لیکن اگر غیر روایتی ہتھیار استعمال ہوئے تو روئے ارض پر انسان اور انسانیت کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا حضرتِ انسان اس دنیا سے مکمل طور پر معدوم ہو جائے گا؟ ہم سب نے دیکھا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر روایتی ہتھیاروں کے استعمال نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ تعمیر نو کیلئے کئی دہائیاں درکار ہوں گی۔زیرِ نظر تحریر میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ واقعی ایسا وقت آنے والا ہے کہ عالمی معاملات کے فیصلے مذاکرات کی میز کے بجائے میدان جنگ میں ہوں گے؟
سب سے پہلے ایک نظر کچھ پیشگوئیوں پر ڈالتے ہیں جو اَب تک وقتاً فوقتاً کی جاتی رہی ہیں۔ بابا وانگا شمالی مقدونیہ (North Macedonia) کے شہر سترومیسا (Strumica) میں بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں پیدا ہونے والی ایک بچی کا نام ہے۔ یہ بچی جب بڑی ہوئی تو لوگوں نے جانا کہ اس میں بہت سی روحانی خصوصیات ہیں اور وہ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے بارے ٹھیک ٹھیک پیشگوئی کر سکتی ہے۔ اسے ایک روحانی شخصیت تسلیم کیا جانے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی بہت سی پیشگوئیاں درست ثابت ہو چکی ہیں۔ بابا وانگا 1996ء میں وفات پا گئیں لیکن مرنے سے پہلے انہوں نے 2025ء میں تیسری عالمی جنگ چھڑنے کی پیشگوئی کی تھی‘ جس کا آغاز اُن کے مطابق چین اور امریکہ جیسے بڑے ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے ہو سکتا ہے۔ اُن کے مطابق اسی عرصے میں یورپ بھی ایک بڑے تنازع کا شکار ہو جائے گا جس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلے گی۔ بابا وانگا نے خبردار کیا تھا کہ ان جنگوں کے سنگین نتائج عالمی آبادی میں نمایاں کمی کا سبب بن سکتے ہیں اور وہ جنگیں دنیا کے خاتمے یا دنیا سے انسانوں کے خاتمے کی طرف بڑھنے والے واقعات کی شروعات ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہ باتیں ٹرمپ کے منہ سے نکلی ہیں تو کیا واقعی وہ وقت آ چکا ہے؟
ٹرمپ نے کینیڈا اور گرین لینڈ کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اور جو ارادے ظاہر کیے ہیں‘ انہوں نے یورپ اور نیٹو کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اور حال ہی میں انہوں نے یوکرین کے بارے میں جو پالیسی اختیار کی ہے‘ کیا یہ عوامل تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتے ہیں؟ علاوہ ازیں مشرقِ وسطیٰ میں جو حالات چل رہے ہیں اور جس طرح غزہ کے علاقے کو ہتھیانے کیلئے کبھی غزہ سے فلسطینی آبادی کے انخلا کی بات کی جاتی ہے اور کبھی غزہ کو امریکہ کی کسٹڈی میں دینے کے بیانات دیے جا رہے ہیں‘ کیا یہ حالات تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں؟ ان ایشوز پر تفصیل سے بات کریں گے پہلے ایک اور پیشگوئی۔
تیسری عالمی جنگ کے حوالے سے ایک خط کا ذکر بھی ملتا ہے جو 15اگست 1871ء کو امریکی فوج کے ایک کیپٹن البرٹ پائیک (Albert Pike) نے امریکہ کی سول جنگ کے دوران اٹلی کے ایک سیاستدان گوسیپ مزینی (Giuseppe Mazzini) کو لکھا تھا۔ اس خط میں ایک عالمی حکومت قائم کرنے کیلئے تین عالمی جنگوں کی منصوبہ بندی کا ذکر ملتا ہے۔ خط میں پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی منصوبہ بندی کی تفصیل موجود ہے کہ یہ کب‘ کیسے اور کیوں لڑی جائیں گی۔ ایک تیسری اور حتمی عالمی جنگ کی پیشگوئی بھی اس خط کا حصہ ہے۔ برطانوی اخبار ''ڈیلی سٹار‘‘ کی رپورٹ کے مطابق خط میں پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ پہلی عالمی جنگ لڑ کر روس کی طاقت ختم کی جائے گی اور اسے ایک کمیونسٹ ملک بنایا جائے گا۔ دوسری عالمی جنگ نازیوں کو تباہ کرنے اور فلسطین کو ختم کر کے وہاں اسرائیل کی ایک خودمختار
ریاست قائم کرنے کے لیے لڑی جائے گی۔ خط کی تفصیلات کے مطابق تیسری عالمی جنگ مغرب اور اسلامی دنیا کے درمیان لڑی جائے گی۔ کیا شام اور عراق کی موجودہ صورت حال سے خط میں کی گئی تیسری عالمی جنگ کی منصوبہ بندی بھی درست ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تین عالمی جنگوں کی منصوبہ بندی کئی سو سال پہلے کی جا چکی ہے یا یہ کسی روحانی طاقت کا اعجاز ہے کہ پیش آمدہ واقعات کی تفصیلات تک جان لی گئیں اور پھر بیان بھی کر دی گئیں؟
پیشگوئیوں کی بات ہو رہی ہے تو یہ اتھوس سالومے (Athos Salomé) کا ذکر کیے بنا ادھوری رہے گی۔ برازیل سے تعلق رکھنے والے اس نجومی‘ جو زندہ نوسٹراڈیمس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے‘ کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ ہماری توقع سے جلد آ سکتی ہے لیکن شاید وہ ویسے نہ ہو جیسے ہم سوچ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش سے شائع ہونے والے انگریزی زبان کے اخبار 'ڈیلی سٹار‘ کے مطابق اتھوس سالومے نے دنیا بھر میں جاری کشیدگی کے حوالے سے کچھ پیشگوئیاں کی ہیں۔ یہ پچھلے سال کی بات ہے کہ انہوں نے یہ اشارہ دیا تھا کہ اگلے سال (یعنی 2025ء میں) جنگ ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ سطورِ بالا میں عرض کیا کہ موجودہ علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں دنیا مشرقِ وسطیٰ اور روس میں جنگوں کے معاملات میں مغربی ممالک کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے ساتھ جنگ کے قریب تر آتی محسوس ہوتی ہے‘ تاہم سالومے کا کہنا ہے کہ یہ جنگ روایتی ہتھیاروں کے بجائے ٹیکنالوجی کی جنگ (Technological warfare) ہو گی۔ سولہویں صدی عیسوی میں فرانس میں پیدا ہونے والے نجومی اور عطار نوسٹراڈیمس (Nostradamus)نے صدیوں پہلے پیشگوئی کی تھی کہ 2019ء میں دنیا میں تیسری عالمی جنگ شروع ہو جائے گی جو 30 سال تک جاری رہے گی اور دنیا کو تباہ و برباد کر دے گی۔ اب صدیوں پہلے کوئی کیلکولیٹڈ حساب کتاب تو ہو نہیں سکتا تھا‘ جمع تفریق میں دو چار سال آگے پیچھے ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ 2019ء کے بجائے 2025ء میں تیسری عالمی جنگ شروع ہو جائے۔ کالم کو آگے بڑھائیں گے‘ یہاں اللہ تعالیٰ سے ایک دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار عالم تیسری عالمی جنگ کی نوبت نہ آئے اور روئے ارض پر انسانیت یونہی ہنستی کھلتی اور پنپتی رہے۔ آمین!