امریکا میں صدر ٹرمپ کے دوسری مدت کیلئے الیکشن میں شکست کے بعد نومنتخب صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ تشکیل پا رہی ہے۔ نئے امریکی صدر کے آنے پر دنیا کا ہر ملک نئی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بنانا اور پہلے سے موجود تعلقات میں کسی قسم کی کمی یا خامی کو دور کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ بائیڈن کی جیت پر وزیر اعظم نے ٹویٹر پر مبارکباد دی اور کہا کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ مل کر بیرون ملک دولت چھپانے کے ٹھکانوں اور کرپٹ لیڈروں کی طرف سے قوم کے چوری کئے گئے پیسے کی واپسی کیلئے کام کرنے کے خواہاں ہیں، اس کے ساتھ افغانستان اور خطے میں امن کیلئے امریکا کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے تہنیتی پیغام میں اپنا ایجنڈا بتا دیا‘ جو عام طور تہنیتی پیغامات میں نہیں بیان کیا جاتا۔
وزیر اعظم کے پیغام سے واضح ہوتا ہے کہ پاک امریکا تعلقات ہماری خارجہ پالیسی میں کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ وزیر اعظم کا جو ورکنگ ریلیشن تھا، ان کی صدارت کے خاتمے پر اسلام آباد کچھ بے چینی محسوس کر رہا ہے اور تعلقات میں ویسی ہی گرمجوشی کا خواہاں ہے۔
وزیر اعظم کے پیغام میں منی لانڈرنگ کے خلاف مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار دراصل پاکستان کے معاشی مسائل اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کی وجہ سے درپیش مشکلات کا اظہار ہے۔ اوباما دور میں پاکستان کو گرے لسٹ کی طرف دھکیلا گیا۔ جو بائیڈن اس وقت نائب صدر تھے۔ انہیں معلوم ہے کہ کن حالات میں یہ فیصلے ہوئے تھے۔ پاکستان کو گرے لسٹ میں دھکیلنے کی دیگر وجوہ کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ بھی ایک وجہ تھی۔ امریکا کا خیال تھاکہ پاکستان القاعدہ اور طالبان کی فنڈنگ روکنے کے لیے مضبوط اور مؤثر قانون سازی اور اقدامات نہیں کر رہا۔ اب پاکستان کے تعاون سے امریکا اور طالبان میں امن معاہدہ طے پا چکا ہے اور بین الافغان مذاکرات میں بھی پاکستان اپنی بساط کے مطابق مدد کر رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ اب حالات بدل چکے ہیں اور پاکستان خطے میں امریکا کو درکار تعاون مہیا کر رہا ہے‘ لیکن پاکستان کے معاشی مسائل اس کیلئے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
اوباما کے دورِ حکومت میں افغانستان اور پاکستان کو ایک ہی طرح کے رویے اور سلوک کا سامنا تھا، جس کی مثال امریکا کی طرف سے 'افپاک‘ کی اصطلاح کا استعمال اور دونوں ملکوں کیلئے خصوصی نمائندے کا تقرر تھا۔ اس اصطلاح اور دونوں ملکوں کو بالکل مختلف حالات اور مسائل کے باوجود ایک جیسے سلوک کا مستحق سمجھا جانا پاکستان کیلئے تکلیف دہ تھا‘ لیکن اسے تبدیل کرنا پاکستان کے بس میں نہیں تھا۔ ایک بار پھر یہ خدشہ موجود ہے کہ اوباما کے نائب صدر رہنے والے جو بائیڈن پرانی پالیسی واپس نہ لے آئیں۔ اس خدشہ کی وجہ بائیڈن کی طرف سے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کو بین الافغان مذاکرات کے دوران ہی تبدیل کرکے افغانستان میں طویل عرصہ سی آئی اے کیلئے خدمات انجام دینے والے گریگ ووگل کو لائے جانے کی اطلاعات ہیں۔ گریگ ووگل طویل عرصہ افغانستان میں سی آئی اے کے پرائم ایجنٹ رہے اور انہیں انڈر کور کئی اہم مشنز سونپے گئے۔ گریگ ووگل طالبان کے خلاف کرزئی کے لشکر کی مدد کے علاوہ ڈرون آپریشنز کے بھی انچارج رہے۔ اوباما دور میں افغانستان میں کم اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے زیادہ ہوئے اور یہی وہ عرصہ تھا جب گریگ ووگل ان آپریشنز کے انچارج تھے۔ اس کے علاوہ وہ کرزئی سمیت کئی افغان سیاستدانوں کے ذاتی دوست ہیں۔ کرزئی سمیت افغانستان کے اکثر سیاستدان پاکستان کی مدد کے باوجود اسلام آباد مخالف بیانیہ آگے بڑھانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ گریگ ووگل کے آنے سے بین الافغان مذاکرات پر بھی اثر پڑے گا اور بین الافغان مذاکرات معطل یا بے نتیجہ ہونے کی صورت میں بائیڈن پاکستان پر دباؤ کی پالیسی اپنا سکتے ہیں۔
اوباما دور میں افغانستان میں مسائل کے حل میں پاکستان کے کردار کی اہمیت تسلیم کی جاتی رہی، اس لیے یہ امکان بہت مضبوط ہے کہ بائیڈن پاکستان کی اہمیت سے انکار نہیں کریں گے اور اپنے افغان ایجنڈے میں بھرپور تعاون کی صورت میں پاکستان کو کئی مسائل کے حل میں مدد بھی دے سکتے ہیں۔ افغان پالیسی میں کچھ ردوبدل کا امکان ہے کیونکہ بائیڈن یہ کہتے آئے ہیں کہ افغانستان سے فوجی انخلا ذمہ دارانہ انداز میں ہونا چاہئے۔ بائیڈن مکمل انخلا کے بجائے افغانستان میں سپیشل آپریشنز کے لیے دستے رکھنے کے حامی ہیں۔ افغان طالبان مکمل انخلا کے امریکی وعدے کی خلاف ورزی پر مذاکرات سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور پاکستان کے لیے انہیں میز پر لانے یا بٹھائے رکھنے کے لیے دباؤ آ سکتا ہے اور حالات پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ افغان طالبان کو نئے سمجھوتے پر لانا ایک مشکل ٹاسک ہوگا۔
بھارت کے معاملے پر اسلام آباد کو بائیڈن سے بہتر تعاون کی امیدیں ہیں کیونکہ بائیڈن مودی کی کشمیر پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں؛ تاہم بائیڈن کی مجبوری ہوگی کہ وہ بھارت پر ایک خاص حد سے زیادہ دباؤ نہیں ڈالیں گے۔ بائیڈن کشمیر میں انسانی حقوق پر بھارت سے بات ضرور کریں گے لیکن نئی دہلی اور واشنگٹن کے تعلقات کو خطرے میں ڈالنے سے گریز کریں گے۔ بائیڈن کی طرف سے کشمیر کے حوالے سے دہلی پر ہلکا پھلکا دباؤ بھی اسلام آباد کے لیے مددگار ہو سکتا ہے۔
پاکستان کیلئے ایک اور اہم بات بائیڈن کی چین پالیسی ہے۔ بائیڈن چین کے حوالے سے ٹرمپ کی پالیسی کو جاری نہیں رکھیں گے۔ یوں پاکستان پر سی پیک کے حوالے سے واشنگٹن کا دباؤ ختم ہو جائے گا۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں چین پالیسی اب حائل نہیں ہوگی اور سی پیک منصوبے کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے سی پیک پر شدید تنقید کی تھی اور پاکستان کو دباؤ میں رکھا تھا جس کی وجہ سے سی پیک منصوبوں کی رفتار سست ہو گئی تھی جسے تعطل سے تعبیر کیا جاتا رہا۔ تب امریکا کی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے سی پیک اور چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے ان منصوبوں کو 'قرض کے شکنجے‘ سے تعبیر کیا تھا۔ امریکا آئی ایم ایف پروگرام سے ملنے والی رقم کو چین کے قرضوں کی واپسی کیلئے استعمال ہونے کے خدشے کا اظہار بھی کرتا رہا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ سابق صدر ٹرمپ کی سخت گیر پالیسی کو جاری رکھنے کے بجائے چین سے مفاہمت کی پالیسی اپنائے گی، جس سے پاکستان ایک دباؤ سے نکل جائے گا۔ بائیڈن انتظامیہ چین کو دشمن سمجھنے کے بجائے ایک حریف تصور کرتے ہوئے پالیسی بنائے گی اور تجارتی جنگ کو ختم کرکے تعلقات میں پڑنے والی دراڑ کو بھرنے کی کوشش کرے گی۔ کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کیلئے بھی امریکا چین تعاون کے امکانات ہیں اور بائیڈن اپنے پیشرو کی طرح چین کو وبا کا ذمہ دار قرار دینے کے بجائے مل کر کام کرنے کو ترجیح دیں گے، یہ پالیسی پاکستان میں کورونا وبا پر قابو پانے میں بھی مددگار ہوگی۔
پاکستان کی اندرونی سیاست پر بھی بائیڈن انتظامیہ کے اثرات مرتب ہونے کا قوی امکان ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی جمہوریت اور انسانی حقوق پر بہت زور دیتی ہے، موجودہ اپوزیشن تحریک کو حد سے زیادہ دبانے کی کوشش بائیڈن انتظامیہ کے چارج سنبھالنے پر موجودہ حکومت کے لیے درد سر بن سکتی ہے۔ بائیڈن سابق نائب صدر کی حیثیت سے پاکستان کی دونوں پرانی بڑی جماعتوں کی قیادت کو جانتے اور ان کے ساتھ ذاتی روابط بھی رکھتے ہیں۔ سیاست پر مقتدرہ کے درپردہ اثر پر بائیڈن انتظامیہ کوئی اعتراض نہیں اٹھائے گی لیکن کسی بھی موقع پر نظام کو خطرہ ہوا تو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے فوری ردعمل ضرور آئے گا۔