"IYC" (space) message & send to 7575

پارلیمانی سیاست یا لانگ مارچ؟

29 دسمبر کو پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں کئے جانے والے فیصلوں نے سیاسی صورتِ حال اور پی ڈی ایم کے مستقبل کی سیاست پر کافی سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں، اجلاسوں اور پریس کانفرنسوں میں بار بار یہ مطالبہ دہرایا گیا کہ وزیراعظم عمران خان مستعفی ہوں اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔ اب اس مطالبے کا عملی طور پر کیا ہو گا؟ اس مطالبے کی سب سے زیادہ حامی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی شروع میں شدومد سے استعفے اور نئے انتخابات کے مطالبے پر زور دیتی رہی لیکن کراچی جلسے کے بعد ان کی طرف سے نئے انتخابات کے مطالبے کی شدت میں کمی آ گئی۔ بلاول بھٹو زرداری کے گلگت بلتستان کی مہم پر جانے سے یہ اشارے ملنا شروع ہو گئے کہ پیپلز پارٹی فی الحال سسٹم کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتی اور سسٹم کے اندر رہ کر ہی معاملات سلجھانے کی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے۔ بظاہر یہ موقف پی ڈی ایم میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن کے اس جارحانہ موقف سے ہٹ کر تھا جو موجودہ حکومت کو ہر صورت چلتا کر کے نئے انتخابات کروانا چاہتے ہیں۔
منگل کو پیپلز پارٹی کی سی ای سی میں جو فیصلے کئے گئے‘ اس نے بلاول کی پارٹی پوزیشن کو واضح کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی استعفے دینے کے حق میں نہیں ہے۔ پارٹی کے ماہرینِ آئین اس بات پر متفق ہیں کہ استعفوں سے سینیٹ انتخابات کو نہیں روکا جا سکتا بلکہ الٹا اس کا نقصان یہ ہو گا کہ حکومت اٹھارہویں ترمیم اور دیگر ایسے قوانین کو بھی تبدیل کر سکتی ہے جن کے بارے میں پیپلز پارٹی سخت موقف رکھتی ہے۔ اس لئے حکومت کے لئے کھلا میدان نہ چھوڑا جائے۔ اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو یہ امید نہیں کہ وزیراعظم عمران خان جلسوں میں کئے جانے والے مطالبات کی بنیاد پر مستعفی ہو جائیں گے۔ شاید اسی لئے بلاول بھٹو نے اپنی پریس کانفرنس میں استعفوں کو ایٹم بم سے تشبیہ دیتے ہوئے آخری آپشن قرار دیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم عمران خان کو ایک آخری موقع ضرور دیا ہے کہ وہ 31 جنوری تک ''رضاکارانہ‘‘ طور پر از خود مستعفی ہو جائیں۔ دوسری طرف اپوزیشن اتحاد کی جانب سے استعفوں، لانگ مارچ اور دھرنے دھمکی کے باوجود رعب میں نہ آنے والے عمران خان سے رضاکارانہ استعفے کی توقع رکھنا تصوراتی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ بلاول بھٹو نے سی ای سی اجلاس کے فیصلوں پر مبنی پریس کانفرنس میں نواز شریف کی واپسی سے مشروط لانگ مارچ کا ذکر تو نہیں کیا لیکن صحافیوں کے ان سوالات‘ کہ اجلاس میں ایسی کوئی تجویز زیرِ غور آئی تھی‘ کا انکار بھی نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجلاس میں موجود کچھ رہنمائوں کی جانب سے یہ تجویز آئی ہو گی جسے فی الحال فیصلوں میں شامل نہیں کیا گیا لیکن یہ ایک اشارہ ضرور ہے کہ مستقبل میں امکانی طور پر اس تجویز کو بھی سامنے لایا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹ الیکشن میں جانے کے فیصلے سے ایک بات تو طے ہے کہ اب مارچ سے قبل استعفوں کا امکان بہت کم ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے استعفے نہ دینے سے مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ مریم نواز نے گڑھی خدا بخش میں جس طرح کی تقریر کی اور بے نظیر بھٹو شہید کی جس قدر توصیف کی‘ اس سے یہی لگتا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کو اخلاقی دباؤ میں لانا چاہتی ہیں اور مذکورہ بالا فیصلوں سے روکنے کے لئے بالواسطہ پیغام دے رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کی نظر میں مریم نواز اپنی موجودہ سیاست کو گڑھی خدابخش میں ایک نیا رنگ دیا ہے ۔ اس سے قبل گلگت بلتستان الیکشن کے موقع پر بلاول بھٹو کی جانب سے برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں نواز شریف کے مؤقف سے دوری اختیار کی گئی۔ جس کے بعد مریم نواز کو بھی ایسے ہی انٹرویو کے ذریعے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنا پڑی۔ ایک جانب انھوں نے مقتدرہ سے بات چیت کا عندیہ دیا تو دوسری جانب اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی جانب موڑا۔ اگرچہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ وہ سی ای سی کے فیصلوں کو پی ڈی ایم کے سامنے رکھیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لانگ مارچ سے پہلے وکلا، ڈاکٹرز، حکومتی اتحادیوں اور دیگر عوامی طبقات کو اس تحریک کا حصہ بنایا جائے اور اس کے لئے وہ مہم چلانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس سے یہ تو واضح ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسے عوام کو موبلائز کرنے جیسے نتائج نہیں پیدا کر سکے۔ اب اگر پی ڈی ایم بلاول بھٹو کی فیصلہ نما تجویز سے اتفاق نہیں کرتی تو اس اتحاد میں دراڑ کے تجزیے درست ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں دیگر جماعتیں بھی پی ڈی ایم سے جدا اپنی سیاسی حکمت عملی وضع کرنے میں حق بجانب ہوں گی۔ یہ مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن کے مزاحمتی بیانیے کا بڑا امتحان ہوگا۔ جیل میں شہباز شریف سے بلاول بھٹو اور پیر پگاڑا کے دست راست محمد علی درانی کی ملاقات نے مقتدر حلقوں کی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا شدید تاثر چھوڑا ہے۔ ادھر مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے نکالے گئے رہنمائوں نے مولانا شیرانی کی قیادت میں الگ جماعت‘ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کھڑی کر دی ہے۔ جس کا واضح مقصد مولانا فضل الرحمن کی سیاسی طاقت اور اس کے اخلاقی جواز کو کم کرنا ہے۔
مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے اندرونی چیلنجز، بیرونی چیلنجز سے دُگنے ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی دوسرے درجے کی لیڈر شپ کنفیوز ہے کہ اب انہوں نے کس بیانیے کے ساتھ چلنا ہے۔ اس موقع پر خواجہ آصف کی آمدن سے زائد اثاثوں پر گرفتاری سے نیب کا خوف بڑھے گا۔ مسلم لیگ ن اس طرح کی گرفتاریوں کو مسلسل سیاسی انتقام قراردے رہی ہے ۔ میاں نواز شریف نے خواجہ آصف کی گرفتاری پر سوال اٹھایا ہے کہ یہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس کیا ہوتا ہے؟ حالانکہ دیکھا جائے تو کسی پبلک آفس ہولڈر کا آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بہت بڑا کیس ہے لیکن ایک تو نیب اس ضمن میں کچھ ثابت نہیں کر پا رہا، دوسرا یہ احتساب 'اکروس دی بورڈ‘ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اس صورت میں اپوزیشن عوام میں جو مقدمہ لے کر جا رہی ہے وہ سیاسی انتقام کا ہے۔ جس سے بہرحال حکومت کی احتسابی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ حکومت کا اس ضمن میں موقف یہ ہے کہ احتساب کے لئے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے۔ وہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ جب تحریک انصاف حکومت کو سینیٹ میں بھی سادہ اکثریت حاصل ہو جائے۔
اب پیپلز پارٹی کے سینیٹ اور ضمنی الیکشن میں جانے کے اعلان سے لگ رہا ہے کہ جمہوریت ڈی ریل ہونے سے بچ جائے گی۔ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کو بھی پارلیمانی سیاست کے لئے قائل کرنے کی کوشش کرے گی۔ قرائن سے یہی لگ رہا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں کچھ خاص شرائط پر مان جائیں گی۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کام کر گئی اور معاملات طے پا گئے تو اپوزیشن فی الحال لانگ مارچ اور دھرنا ترک کر کے 'کچھ لو اور کچھ دو‘ کی پالیسی اختیار کرے گی۔ بصورت دیگر دما دم مست قلندر کا آپشن تو کھلا ہے۔ حکومت کسی بھی طرح اپوزیشن کی سننے کو تیار نہیں جبکہ اپوزیشن وزیراعظم کے استعفے سے کم پر ماننے کو راضی نہیں۔ ایسے میں دونوں کو دو دو قدم پیچھے ہٹنا ہو گا۔ اس وقت جمہوری عمل کے چلتے رہنے کی زیادہ ذمہ داری حکومت پر ہے کہ وہ اپوزیشن کو پارلیمانی سیاست کا راستہ دیتی ہے یا لانگ مارچ کا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں