شیخ رشید کے وزیر داخلہ بننے کے بعد اپوزیشن کے جلسوں، ریلیوں اور احتجاج سے متعلق جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ لاہور میں نون لیگ کے زیر اہتمام جلسے سے لے کر الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم کی ریلی تک، اپوزیشن کو کسی رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ ٹکراؤ کی صورتحال سے گریز کیا جائے؛ البتہ وزرا نے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر پوری طرح سے لفظی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ وزیر اعظم غالباً روزانہ کی بنیاد پر اپنے ترجمانوں اور وزرا کو ہدایات جاری کررہے ہیں۔ ایک سٹریٹیجی کے تحت ان کی ٹیم نے اپوزیشن کے خلاف مختلف محاذ کھول رکھے ہیں۔ دونوں جانب سے اکسانے کا عمل برابر جاری ہے۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی اور اختر مینگل کی تقریروں کے ذریعے ایک اہم ادارے کو اکسانے کی کوشش کی گئی۔ جو لب و لہجہ اور زبان استعمال کی گئی اس سے یہ بالکل واضح تھا کہ پی ڈی ایم اداروں کو دباؤ میں لانا اور حکومت کے ساتھ محاذ آرائی چاہتی ہے۔ اداروں کی جانب سے صورتحال کو بہت احتیاط سے مانیٹر کیا گیا۔
جس وقت اداروں پر تنقید کی جا رہی تھی اسی دوران بیک ڈور رابطوں کی بھی کوشش کی گئی‘ جس پر پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے وضاحت بھی سامنے آئی۔ حکومت نے اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ عوام کو پوری طرح یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پی ڈی ایم کے قول وفعل میں تضاد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت اپنی خراب کارکردگی کو اپوزیشن کی ناکامیوں میں چھپانے کی بھی کوشش کرتی رہی۔ اس دوران اپوزیشن کی صفوں میں منقسم رائے نے حکومت کو مزید حوصلہ دیا‘ اور پھر بات تین استعفوں سے شروع ہو کر فارن فنڈنگ کیس تک آگئی ہے۔ بادی النظر میں یہ نظر آرہا ہے کہ پی ڈی ایم مرحلہ وار پیچھے ہٹنے کے بعد اب صرف میڈیا کے ذریعے عوام کی نظروں میں اپنا احتجاجی تاثر قائم رکھنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن کے جلسوں اور ریلیوں سے اب تک بظاہر تو حکومت کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری، مہنگائی کے طوفان اور غربت کی پاتال میں دھنسے عوام، حکومت سے مایوس ہو چکے تھے۔ ایسے میں اپوزیشن اگر کوئی کلین ٹریک تحریک سامنے لاتی تو اسے عوام میں ناصرف یقینی پذیرائی ملتی بلکہ حکومت کا جانا بھی قطعی ٹھہرتا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پی ڈی ایم کا سب سے بڑا مسئلہ باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔ بظاہر مسکرا مسکرا کر، ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر عوام کو یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہم سب ایک پیج پر ہیں‘ لیکن واقفانِ حال اچھی طرح جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں بات اختلاف رائے سے آگے بڑھ چکی ہے۔ مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام (ف)، اے این پی، پی کے میپ، بی این پی مینگل سمیت باقی چھوٹی جماعتیں تو اقتدار سے باہر ہیں۔ اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس کی صوبہ سندھ میں حکومت ہے۔ سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے۔ اس لئے پیپلزپارٹی کی کیلکولیشن باقی جماعتوں سے مختلف ہے۔ سابق صدر آصف زرداری ہر موو سے پہلے اس بات کا حساب لگاتے ہیں کہ اس کا ریٹرن کیا ہوگا۔ یقینی طور پر سوچتے ہوں گے کہ اگر آج وہ سندھ حکومت داؤ پر لگائیں تو کیا انہیں پنجاب میں راستہ فراہم کیا جائے گا؟ کیا اگلی بار مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن سکے گی؟ کیا ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف کرپشن کیسز داخل دفتر ہو جائیں گے؟ اگر ان سب باتوں کی گارنٹی مل جائے پھر تو وہ یہ سب کچھ لٹانے کو تیار ہو جائیں گے، بصورت دیگر وہ اپنے لئے سب آپشنز کھلے رکھنا چاہیں گے۔ دوسری جانب مذکورہ بالا دیگر اپوزیشن جماعتیں ہر حال میں بڑا داؤ کھیلنا چاہتی ہیں لیکن پیپلزپارٹی کے بغیر یہ سب کچھ ممکن نہیں ہوگا۔ پیپلزپارٹی بحیثیت جماعت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ ضمنی انتخابات، سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لے گی اور کسی صورت تحریک انصاف کیلئے میدان خالی نہیں چھوڑے گی۔ 29 دسمبر کو پیپلزپارٹی کی سی ای سی میں کئے جانے والے فیصلوں نے آندھی اور طوفان کی طرح اٹھنے والی پی ڈی ایم تحریک کی قیادت کو اپنی سٹریٹیجی بدلنے پر مجبور کر دیا۔ بلاول بھٹو زرداری اپنی تمام تر توجہ سندھ میں ہونے والے ضمنی انتخابات پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل وہ گلگت بلتستان الیکشن کیلئے بھی پی ڈی ایم تحریک سے وقتی رخصت پر جاچکے ہیں۔ ایک جانب پی ڈی ایم، تحریک انصاف کی حکومت گرانے اور وزیر اعظم کے استعفے کی متقاضی ہے‘ دوسری جانب خود ضمنی الیکشن اور سینیٹ الیکشن کی تیاریاں کر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کی اسی سوچ نے مسلم لیگ ن کو بھی ضمنی الیکشنز اور سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کر لیا۔ جس وقت پی ڈی ایم کی ریلی الیکشن کمیشن کے سامنے پہنچ کر احتجاج کر رہی تھی، عین اس وقت بلاول بھٹو عمر کوٹ میں ضمنی الیکشن کی جیت کا جشن منا رہے تھے۔
دوسری جانب پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن 27 فرروری تک اسی طرح جلسوں، ریلیوں اور احتجاج کی مشق جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد لانگ مارچ کا فیصلہ کریں گے۔ یعنی اب یہ طے ہے کہ مارچ میں سینیٹ انتخاب کے بعد ہی لانگ مارچ کے خدوخال واضح کئے جائیں گے۔ 19 جنوری کو اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی ریلی کیلئے قیادت کی طرف سے ایک خاص طرح ماحول بنایا گیا، لیکن کھلے راستوں کے باوجود صرف چند ہزار افراد ہی الیکشن کمیشن کے سامنے پہنچ سکے۔ بقول وزیر داخلہ شیخ رشید ''اس عمل نے اپوزیشن کی طاقت کو ایکسپوز کیا ہے‘ اور اگر اپوزیشن اسی طرح کا لانگ مارچ کرے تو وہ ویلکم کریں گے‘‘۔
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
پی ڈی ایم اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا پتھر پر لکیر کی مانند فیصلہ کئے ہوئے ہے۔ اس کیلئے مناسب موسم اور وقت کا انتظار کیا جارہا ہے۔ مارچ کے پُربہار موسم میں یا اپریل کے شروع میں رمضان سے پہلے پہلے۔
وزیراعظم عمران خان کے حمایتی یہ پوچھتے ہیں کہ کیا لانگ مارچ ایسے کئے جاتے ہیں؟ تحریکیں ذاتی اغراض ومقاصد اور مفادات کے تابع چلائی جاتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ایک لانگ مارچ چین میں ماؤزے تُنگ کی قیادت میں کیا گیا تھا‘ جو اکتوبر 1934ء سے اکتوبر 1935ء تک جاری رہا۔ گویا اس دوران ہر موسم کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مارچ نے 9 ہزارکلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ یہ بڑی مشکل اور جاں گسل مہم تھی۔ شرکائے مارچ بھاگتے جاتے اوپر سے طیارے شیلنگ کرتے تھے۔ مارچ میں لاکھوں لوگ شریک تھے۔ مارچ اپنی منزل پر پہنچا تو لاکھوں کا قافلہ 8 ہزار کا رہ گیا تھا۔ لاکھوں لا پتہ ہو گئے۔ لاپتہ ہونیوالوں میں مائوزے تنگ کے دو بیٹے اور ایک بھائی بھی تھا۔ چین کا لانگ مارچ تاریخ انسانی کا ناقابل یقین اور ناقابل فراموش واقعہ تھا۔
اگر ہم فرض کریں کہ پی ڈی ایم کا مارچ مائوزے تُنگ کے مارچ کو مات دے دیتا ہے۔ فرض کرنے میں حرج بھی کیا ہے؟ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں 50 لاکھ لوگ اسلام آباد کو مفلوج کرکے قابض بھی ہوجاتے ہیں‘ تو کیا اس کے بعد ان کی حکومت قائم ہوجائے گی؟ اس سوال کا جواب اگر ان لیڈران کرام کے پاس ہو تو ضرور مارچ کریں۔