آج سے 100 سال بعد جب مؤرخ پاکستان کی تاریخ لکھے گا تو اس میں درج کرے گاکہ 2021ء میں ایک ایسی حکومت تھی جو اپنے تمام کام سوشل میڈیا پر ہی کرتی تھی۔ اسے عملی اقدامات سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اور تو اور وہ اپوزیشن کی تحریکوں سے نمٹنے کیلئے بھی سوشل میڈیا کا سہارا لیتی تھی۔ اس بات کا اعتراف تو عمران خان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کارکنوں سے گفتگو میں کر چکے ہیں کہ ان کو وزیر اعظم بنانے میں سوشل میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا آج کے دور کا سب سے جدید اور خطرناک ہتھیار ہے۔ غالباً اسی لئے خان صاحب حکومت چلانے کیلئے سوشل میڈیا کی طاقت کا استعمال درست سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں برسرِ اقتدار پارٹی کا سوشل میڈیا ونگ تمام طرح کے ٹولز استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور حکومت کے تمام فیصلوں کو پذیرائی دلانے کیلئے صبح شام ان کی حمایت میں نئے ٹرینڈز بنانے یا پھر مخالفین اور ناقدین کو جواب دینے میں مصروف رہتا ہے۔ عمران خان صاحب انہیں پیار سے ٹائیگرز بلاتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ نوجوان یوٹیوبر صحافی بھی وزیر اعظم کی خاصی توجہ حاصل کر چکے ہیں۔ جو یوٹیوبر حکومتی اقدامات کی کھل کر حمایت کرتے ہیں انہیں وزیر اعظم کی جانب سے ملاقات اور تجاویز دینے کا شرف بخشا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کے سوشل میڈیا کے معاون ڈاکٹر ارسلان خالد اس پورے عمل کو بطریق احسن چینلائز کررہے ہیں۔ اس طرح سوشل میڈیا پر ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جن میں سے آدھے تحریک انصاف کے ورکر ہونے کے دعویدار ہیں اور آدھے حکومتی موقف کے حامی یوٹیوب جرنلسٹ ہیں۔ اس پوری صورتحال کے بینفشری تحریک انصاف حکومت اور عمران خان ہیں۔ اس لئے جب مین سٹریم میڈیا میں حکومت کو مشکل فیصلوں اور وعدے ایفا نہ کر سکنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو سوشل میڈیا کی یوتھ فورس حکومت کے سہارے کے طور پر ابھری۔ عمران خان حکومت میں آئے تو انہوں نے عوام سے ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر اور انصاف دہلیز پر دینے کا وعدہ کیا تھا‘ 100 دنوں میں تبدیلی کا وعدہ کیا تھا۔ اپوزیشن اور میڈیا نے دن گننا شروع کر دیئے۔ ظاہر ہے یہ کسی طرح بھی ممکن نہ تھا کہ 73 برس کے مسائل چٹکیوں میں حل ہو جاتے؛ البتہ 100 دن اتنی تیزی سے گزر گئے کہ خان صاحب اور ان کی ٹیم کو پتہ بھی نہ چل سکا۔ اپوزیشن کی سخت تنقید، اناڑی پن کے طعنے اور نااہلیت کے الزامات کی صورت میں تحریک انصاف حکومت پر سوالات کھڑے ہونا شروع ہوئے تو مین سٹریم میڈیا بھی پیچھے نہ رہا۔ ایسے میں حکومتی دفاع سوشل میڈیا کے ذریعے کیا گیا۔ 100 دن، 6 ماہ اور سالوں میں بدلنے لگے۔ حکومت کابینہ سے لے کر ہر شعبے میں تجربات کرتی رہی۔ کفایت شعاری پالیسی سے لے کر وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس تک کو یونیورسٹی میں بدلنے، گاڑیوں کی نیلامی، مرغی اور کٹا سکیم تک کے آپٹکس سے کھیلا گیا۔ ہر پالیسی سے یُو ٹرن لیتے رہے۔ مین سٹریم میڈیا میں جب تنقید حد سے بڑھی تو حکومتی عدم کارکردگی اور یوٹرنز کا دفاع بھی سوشل میڈیا کے مورچے سے ہوا۔ حد تب ہوئی جب وزیر اعظم نے یوٹرن کو قومی مفاد قرار دیتے ہوئے اسے بڑے لیڈر کی پہچان بتایا۔ ان کے مطابق عظیم اہداف کے حصول کیلئے لیڈر کو یوٹرن لیتے رہنا چاہئے۔ حکومت کو خارجی محاذ پر ''پہلی کامیابی‘‘ اس وقت ملی جب 27 فروری 2019ء کو پاک فوج نے بھارتی طیارہ مار گرایا اور پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کر لیا۔ پاک فوج کے مرہون منت اس کامیابی سے حکومت کو حوصلہ ہوا اور وزیر اعظم نے پہلی بار سینہ تان کر اسمبلی میں تقریر کی اور کافی داد وصول کی۔ لیکن داخلی محاذ کی گتھیاں مزید الجھتی رہیں۔ حکومت کا سب سے بڑا یُوٹرن آئی ایم ایف کے پاس جانا تھا‘ جس کے متعلق وزیر اعظم ماضی میں سخت ترین بیانات دیتے رہے کہ وہ مر جانا پسند کریں گے‘ لیکن آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ پھر دنیا نے دیکھاکہ انہوں نے خود عالمی مالیاتی ادارے کی سربراہ سے ملاقات کی۔ پہلے وزیر خزانہ اسد عمرکی جگہ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو لایا گیا‘ آئی ایم ایف کے سابق ملازم رضا باقر کو سٹیٹ بینک کا گورنر تعینات کیا گیا کیونکہ یہ وسیع تر قومی مفاد میں کیا گیا تھا۔ اس لئے اس اقدام کا دفاع بھی خوب کیا گیا۔ معاشی خرابی کا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈال دیا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ڈھائی برس بیت چکے لیکن دوسروں پر ناکامیوں کا ملبہ ڈالنے کی روش تاحال برقرار ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ تیسری دنیا کے ممالک میں معاشی ریفارمز کے نام پر معاشی پالیسیوں پر کنٹرول حاصل کرنے اور دنیا کی بڑی کمپنیوں کے مفادات کو محفوظ بنانے کا کام کرتا ہے۔ حکومتوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ناپسندیدہ اور جابرانہ مالی معاہدات کی پاسداری کرتی رہیں۔ اس کیلئے سب سے پہلے معاشی نظام کو ڈالر کے ذریعے کمزور کیا جاتا ہے۔ معیشت کو دباؤ میں لانے کیلئے مقامی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں گرا کر قرضوں کا بوجھ بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ریفارمز کے نام پر تیسری دنیا کے کمزور عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ حکومت بھی آئی ایم ایف کی شرائط کی زد میں ہے۔ بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور ہر قسم کی سبسڈی مرحلہ وار ختم کرنے کا فیصلہ دراصل آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجے میں کیا جا رہا ہے۔ بجلی کی قیمت میں حالیہ اضافہ حکومت نے چھٹی مرتبہ کیا ہے۔ اس بار سب سے زیادہ اضافہ ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ کیا گیا ہے‘ جس سے صارفین کی جیب پر 200 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ اضافے کا یہ سلسلہ یکم جنوری 2019ء کو شروع ہوا اور بجلی 1 روپیہ 27 پیسے فی یونٹ مہنگی کی گئی۔ پھر یکم جولائی 2019ء کو دوسری بار بجلی 1 روپیہ 49 پیسے فی یونٹ‘ تیسری بار بجلی 53 پیسے فی یونٹ‘ چوتھی بار 30 پیسے فی یونٹ‘ اور پانچویں بار 26 پیسے فی یونٹ مہنگی کی گئی تھی۔ یہ سب یاد دلانے کا مقصد یہ ہے کہ ان مرحلہ وار اضافوں سے حکومت اب تک بجلی صارفین پر 450 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈال چکی ہے۔ کل ملا کر یہ اضافہ 650 ارب سالانہ بنتا ہے‘ لیکن وفاقی وزیر عمر ایوب نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ یہ سب پچھلی حکومت کا کیا دھرا ہے جو آنے والی حکومت کیلئے معاشی بارودی سرنگ بچھا کر گئی۔ میرا وزیرِ موصوف سے سوال ہے کہ وہ ایسے افراد کو‘ جنہوں نے یہ قومی معاشی جرائم کئے ہیں‘ عدالت کیوں نہیں لے کر جاتے؟ ایک اور تکنیک جو موجودہ حکومت قیمتیں بڑھانے کے حوالے سے استعمال کر رہی ہے‘ یہ ہے کہ پہلے ایک خبر لیک کی جاتی ہے جس میں ایک بڑا اضافہ بتایا جاتا ہے لیکن بعد میں وزیر اعظم اپنا صوبدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے پہلے ناراضی کا اظہار کرتے ہیں اور عوام پر زیادہ بوجھ نہ ڈالنے کا کہہ کر بظاہر ایک کم اضافہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس پر سوشل میڈیا میں وزیر اعظم کے اس عوام دوست رویے کا خوب چرچا ہوتا ہے۔ جیسا کہ اسد عمر فرما رہے ہیں کہ اضافہ تو 2 روپے 60 پیسے ہونا تھا‘ لیکن حکومت نے 'ہتھ ہولا‘ رکھا۔ یہی اسد عمر تھے جو سابق حکومت پر پٹرول کی مد میں لئے والے ٹیکسز کو ظالمانہ قرار دیتے تھے‘ لیکن اب ان کی اپنی حکومت میں سب سے زیادہ لیوی 30 روپے فی لیٹر عائد ہے جو آخری حد ہے لیکن پھر بھی داد وصول کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کی عوام دوستی پر تالیاں پیٹنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ بڑے اضافے سے سہمے ہوئے عوام اس ریلیف پرکوئی ردعمل دینے کے قابل ہی نہیں کیونکہ مہنگائی کا طوفان انگڑائیاں لے چکا ہے۔