23 فروری بروز منگل دنیا سے ایک ایسی شخصیت خاموشی سے رخصت ہو گئی جس نے ایک زمانے میں دنیا بھر مین دھوم مچا رکھی تھی۔ ان کے نام سے مغربی دنیا تھر تھر کانپنے لگتی تھی۔ وہ شخصیت جس نے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو یورپ و امریکہ کے دبائو کے خلاف تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کا گُر سکھایا۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب کے سابق وزیر تیل اور معدنی ذخائر احمد ذکی یمانی منگل کے روز علی الصبح لندن میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 91 برس تھی۔ احمد ذکی یمانی 1930 کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے مصر کی معروف درس گاہ قاہرہ یونیورسٹی سے قانون کا امتحان پاس کیا تھا۔ انہوں نے یونیورسٹی آف نیو یارک اور معروف درس گاہ ہارورڈ سے بھی قانون کے شعبے میں تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ انہیں عربی، انگریزی اور فرانسیسی تین زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ذکی یمانی کو 1962 میں وزیر تیل اور معدنی ذخائر مقرر کیا گیا۔ اس منصب پر انہوں نے 1986 تک خدمات سرانجام دیں۔ انہیں تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی نمائندہ تنظیم ''اوپیک‘‘ کا پہلا جنرل سیکرٹری ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
1973ء میں عرب اسرائیل جنگ کا جواب دیتے ہوئے، اوپیک کے عرب ممبروں نے تیل پر پابندی عائد کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک پر بھی اس پابندی کی توسیع کر دی تھی۔ عرب پیٹرو ریاستوں نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا، اور مارچ 1974ء میں اس بحران کے خاتمے تک تیل کی قیمت چار گنا بڑھ کر 12 ڈالر فی بیرل ہو گئی تھی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اس وقت دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی و معاشی حالات میں تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی کے پیچھے احمد ذکی یمانی کا دماغ کار فرما تھا۔
دنیا کی تاریخ کے چند یادگار دہشت گردانہ حملوں میں سے ایک کو 'اوپیک سییج‘ کہا جاتا ہے اور اس کے ایک مرکزی کردار ذکی یمانی بھی تھے، کیونکہ یہ ان چند اشخاص میں سے ایک تھے جنہیں دہشت گردوں نے مارنے کا حتمی اعلان کیا ہوا تھا۔ یاد رہے کہ 21 دسمبر 1975ء کو ویانا میں ہونے والی اوپیک منسٹرز کانفرنس میں 6 دہشت گردوں کا ٹولہ گھس گیا تھا اور اس نے 3 افراد کو ہلاک کرنے کے بعد تقریباً 62 لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ ان یرغمالیوں میں 11 ممالک کے تیل کے وزرا بھی شامل تھے اور اس وقت کے سعودی وزیر تیل احمد ذکی یمانی، ان میں سے اہم ترین یرغمالی سمجھے جاتے تھے‘ جنہیں اس آپریشن کے اختتام پر مارے جانے کا منصوبہ تھا۔ اس دہشت گردانہ حملے کا سرغنہ وینزویلین دہشت گرد کارلوس دی جیکال کے نام سے جانا جاتا تھا۔ آسٹرین حکومت کی تقریباً دو دن کی بات چیت کے بعد تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔ ان تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بعد ان کے کچھ ساتھیوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ان کی رہائی کے پیچھے احمد ذکی یمانی کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ انہوں نے نا صرف اس موقع پر ہمت اور جرات کا مظاہرہ کیا بلکہ ان دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات بھی کرتے رہے اور پھر اپنے دلائل کے بل بوتے پر ان کو اس مقام پر لے آئے کہ جس کے بعد ان کے ساتھ آسٹرین حکومت کے مذاکرات کامیاب ہوئے۔ ذکی یمانی کے اپنے الفاظ میں اس دورِ یرغمالی میں اگرچہ کارلوس نے ان سب کو بتا دیا تھا کہ وہ انہیں مار ڈالے گا اس کے باوجود ''ہم ایک دوسرے سے باتیں کرتے تھے اور ہنسی مذاق بھی‘‘ اس واقعہ سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یمانی کتنے مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔
1973ء میں تیل سپلائی بند کر کے مغرب کو گھٹنوں پر جھکانے والے احمد ذکی یمانی کون تھے؟ دنیا بھر میں تیل ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی عالمی تنظیم ''اوپیک‘‘کے قیام میں ان کا کیا کردار تھا؟ اور کس موقع پر انہوں نے خاص طور پر عرب ممالک کے لیے کیا کیا خدمات انجام دیں، اس کی بہت ساری تفصیلات تو پہلے بھی منظر عام پر آ چکی ہیں، لیکن بہت ساری باتیں اب ان کے انتقال کے بعد سامنے آئیں گی۔ احمد ذکی یمانی کے دور میں نا صرف تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک وجود میں آئی بلکہ ذکی یمانی نے سعودی عرب کا اس تنظیم میں شروع ہی سے ایک مضبوط کردار یقینی بنایا‘ دوسری طرف سعودی عرب کی جانب سے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی میں بھی ان کا کلیدی کردار رہا۔
سعودی عرب کے سابق وزیر تیل، اوپیک تنظیم کے پہلے سیکرٹری جنرل احمد ذکی یمانی، سعودی عرب اور بین الاقوامی تاریخ میں کئی اہم واقعات کے گواہ تھے۔ ذکی یمانی سعودی شاہی خاندان کے رکن نہیں تھے اس کے باوجود انہیں شاہ فیصل نے 1962ء میں وزیر تیل و معدنی ذخائر مقرر کیا۔ ذکی یمانی شاہ فیصل کے قتل کے بھی گواہ تھے۔
احمد ذکی یمانی کی عمر 91 برس تھی اور ان کا انتقال لندن میں ہوا۔ 24 سال سعودی عرب کے وزیر تیل رہنے والے ذکی یمانی ایک گلوبل سلیبرٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ ذکی یمانی نے سعودی تیل کو امریکی کمپنیوں کے چنگل سے چھڑایا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے 1960ء سے اقدامات شروع کئے اور 1976ء میں سعودی تیل کو امریکی کمپنیوں کے قبضے سے نکال لیا گیا۔ پھر سعودی آئل کمپنی آرامکو کی بنیاد پڑی جو آج بھی دنیا کی امیر ترین کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ ذکی یمانی نے دو بار اسرائیل عرب جنگ میں اسرائیل کے دوست یورپ اور امریکا پر تیل کی پابندیاں لگائیں یا لگوائیں۔ 1967ء کی تیل کی پابندیاں، اگرچہ انقلاب سے پہلے کے ایران اور وینزویلا نے ناکام بنا دیں لیکن 1973ء میں تیل کی پابندیوں نے یورپ کو معاشی بحران میں دھکیل دیا اور یورپ مہنگائی کی خوفناک ترین لپیٹ میں آ گیا تھا۔ 1973ء کی پابندیوں کو عالمی سطح پر ''تیل کا پہلا جھٹکا‘‘کہا جاتا ہے۔ 1979ء میں انقلابِ ایران کے بعد تیل کا دوسرا جھٹکا آیا، اوپیک کے اکثر ملکوں نے تیل کی قیمتیں بڑھا دیں لیکن اس وقت واشنگٹن کے دوست سعودی عرب نے دوستی نبھانے کی خاطر قیمتیں کم سے کم سطح پر رکھیں۔ 1980ء کے معاشی بحران میں اوپیک ملکوں نے تیل کی سپلائی بڑھا دی جس سے تیل کی قیمتیں گر گئیں۔ سعودی فرمانروا شاہ فہد نے ذکی یمانی کو حکم دیا کہ وہ تیل مارکیٹ میں سعودی شیئر کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ قیمتیں بڑھانے کے اقدامات بھی کریں۔ ذکی یمانی نے تیل کی پیداوار کم کرتے ہوئے 2 ملین بیرل یومیہ کی سطح پر لا کر قیمت کو سہارا دینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اس وقت تیل کی قیمت 10 ڈالر فی بیرل سے بھی کم پر آ گئی تھی اور تیل مارکیٹ پر دوسرے ملکوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ شاہ فہد کی حکم عدولی اور تیل مارکیٹ میں ناکامی پر ذکی یمانی کو برطرف کر دیا گیا جس کا علم انہیں ٹی وی پر ہونے والے اعلان سے ہوا۔ یہ اعلان ذکی یمانی کے لیے خفت کا باعث تھا؛ چنانچہ اس کے بعد ذکی یمانی سرکاری عہدوں سے کنارہ کش ہو کر تیل کمپنیوں کے ساتھ بطور کنسلٹنٹ وابستہ ہو گئے۔ تیل کی قیمتیں جب صرف 20 ڈالر فی بیرل پر تھیں، تب اس وقت احمد ذکی یمانی نے پیش گوئی کی تھی کہ تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل کی حد توڑ دے گی اور پھر بعد میں ان کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی تھی۔