"IYC" (space) message & send to 7575

کراچی میں چھانگا مانگا!

جب کالم لکھنے بیٹھا تو سینیٹ الیکشن کے لیے پولنگ ہو رہی تھی اور کالم کی ڈیڈ لائن تک نتائج متوقع نہیں تھے لیکن سینیٹ میں پولنگ کا نتیجہ جو بھی ہو‘ اس سے پہلے کی صورت حال بھی کم دلچسپ نہیں۔ پچھلے چند ہفتوں کی سیاسی سرگرمی ذہن میں تازہ کی تو ایک ہی فقرے میں ساری کہانی بند ہوگئی ''سیاست کی بدنامی کا موسم‘‘۔ پھر حافظے پر خود بخود 90ء کی دہائی کی سیاست اور اس کے بعد مردِ آہن کے دور میں حکومتوں کی تشکیل اور جوڑ توڑ کی کہانیاں ابھرتی چلی گئیں۔
انسانی ہاتھوں سے بننے والے طویل جنگلات میں سے ایک چھانگا مانگا کا جنگل بھی ہے مگر پاکستان کی سیاست میں چھانگا مانگا ایک استعارہ بن چکا ہے جس کی وجہ نہ تو اس کا مصنوعی جنگل ہونا ہے نہ ہی اس کی خوبصورتی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ 1990ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت سے ان کی حلیف عوامی نیشنل پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ نے قطع تعلقی اختیار کی تو ایوانِ میں قرارداد عدم اعتماد لائی گئی، اس عدم اعتماد سے بچنے کے لیے بینظیر بھٹو نے اپنی جماعت کے ایک سو ارکان اسمبلی کو فضائیہ کے طیاروں میں مینگورہ (سوات) بھیج دیا۔ نواز شریف نے تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے اپنی پارٹی اور ہم خیال ارکانِ اسمبلی کو چند دن تک کڑے پہرے میں چھانگا مانگا کے اسی جنگل میں رکھا۔ شاید دفاعی حکمت عملی کے باعث بینظیر بھٹو کا مینگورہ تو مشہور نہ ہوا البتہ میاں صاحب کے دامن سے چھانگا مانگا ہمیشہ کے لیے چپک کر رہ گیا۔
1993ء میں صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں چھانگا مانگا کی یاد تازہ کی گئی اور آزاد امیدواروں کو مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت گرانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے کارندے پیسوں سے بھرے بریف کیس لئے آزاد ارکانِ اسمبلی کو ورغلاتے رہے۔ گورنر سرحد کی جانب سے وفاق کو رپورٹ بھیجی گئی کہ صوبائی حکومت اپنی خدمات ادا کرنے سے قاصر ہے اور پھر صدر صاحب کے حکم پر صوبے میں گورنر راج نافذ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کو برخاست کر دیا گیا۔ اس دوران پیپلز پارٹی کو صوبے میں حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا گیا۔ صابر شاہ نے وفاق کے اس اقدام کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا؛ تاہم عدالت نے وفاق کے حق میں فیصلہ سنایا۔ ستمبر 1995ء میں بینظیر بھٹو کی وفاقی حکومت کی جانب سے گورنر پنجاب کو صوبائی حکومت کے اختیارات سنبھالنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا۔ اس سے قبل وٹو کابینہ کے پندرہ ارکان نے وزیراعلیٰ پر غیر قانونی اقدامات میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا اور اپنے استعفے پیش کر دیے تھے۔ گورنر نے میاں منظور وٹو کو صوبائی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا پیغام دیا لیکن وٹو صاحب اس کوشش میں ناکام ٹھہرے، سو انہی کی جماعت کے عارف نکئی کو وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر منتخب کر لیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے ایک رکن اسمبلی کو سینئر وزیر کا عہدہ اور وزیراعلیٰ جیسے اختیارات سونپ دیے گئے۔
موجودہ حکومت کی تشکیل کے موقع پر ووٹوں کی گنتی پوری کرنے کے لیے ''دی ٹرانسپورٹر‘‘ کا لقب پانے والے ترین صاحب اور ان کا طیارہ کسی کو یاد نہیں تو کیا کہا جا سکتا ہے؟ جہاز میں بھر کر حکومت بنانے کے لیے درکار ووٹ لینے والے ووٹوں کی خرید و فروخت کے خلاف قانون بنانے اور عدالتوں سے حکم نامے لینے کی کوشش کرتے نظر آئے۔
چیئرمین سینیٹ بننے سے پہلے کتنے پاکستانی صادق سنجرانی کو جانتے تھے، لیکن وہ چیئرمین سینیٹ بنے اور پیپلز پارٹی نے اس کے لیے تعاون کیا، بعد میں اسی چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو اپوزیشن کے ساتھ 64 ارکان تحریک کے حق میں کھڑے ہوئے لیکن جب ووٹ پڑے تو 50۔ 14 ووٹ، کیسے اور کدھر غائب ہو گئے‘ آج تک کسی نے بتانے کی زحمت نہیں کی۔ اب سینیٹ الیکشن میں سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے تین رکن مبینہ طور پر منحرف ہوئے تو تحریک انصاف نے ارکانِ اسمبلی کو دو ہوٹلوں میں نظر بند کر دیا۔ یوں لگتا ہے جیسے 'صاف چلی، شفاف چلی‘ کے نعرے لگانے والے بھی تھک گئے ہیں یا یوں کہیے کہ اقتدار سے چمٹے رہنے کا شوق اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب جائز اور ناجائز کی کوئی حد نہیں رہی۔ اس حوالے سے تھوڑا سا سوچنے بیٹھا تو ایسا محسوس ہوا کہ ہمارے ہر دلعزیز کپتان وزیراعظم بھی شاید 90ء کی دہائی والی سیاست میں پھنس چکے ہیں، بلکہ یوں کہیں کہ بالآخر ان کو بھی اپنے ممبرانِ قومی اسمبلی سے ملنے کا خیال آگیا اور پچھلے دو تین روز میں انہوں نے جس تیزی، تندہی اور لگن کے ساتھ اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کی ہیں‘ گزشتہ ڈھائی برسوں میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ واقفانِ حال کے مطابق‘ حکومتی صفوں میں بے چینی اور اضطرابی صورتحال اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اسلام آباد کی سیٹ پر عبدالحفیظ شیخ کی کامیابی کیلئے تمام حربے استعمال کئے جا چکے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی یہ الیکشن ہاریں یا جیتیں‘ ایک بات مسلمہ ہے کہ اس سارے عمل نے ہماری جمہوریت کو، جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتوں کو اور ان سیاسی جماعتوں کے نام نہاد جمہوریت پسند ٹھیکیداروں کے کپڑے ایک بار پھر بیچ چوراہے اتار دیے ہیں۔
ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن، اوپن ووٹنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے موقف اور پھر صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی تجزیہ کار مختلف طرح کے قلابے ملا رہے ہیں۔ ایک طرف اس مفروضے پر بات ہو رہی ہے کہ الیکشن کمیشن کے رویے میں اچانک اتنی واضح تبدیلی ایسے ہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے بھی ''کوئی‘‘ ہے، اس فیصلے اور رویے سے کسی ایک سٹیک ہولڈر کو یہ واضح پیغام دیا جا رہا ہے کہ میدان سب کیلئے کھلا ہے اور کوئی بھی کسی کا بھی لاڈلا نہیں۔ دوسری طرف یہ باتیں بھی ڈسکشن میں ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نہ صرف یہ فیصلہ کر چکے ہیں بلکہ متعلقہ لوگوں کو اپنے اس فیصلے سے آگاہ بھی کر چکے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح کے دباؤ میں نہیں آئیں گے اور اگر بالفرض نہ چاہتے ہوئے بھی ان پر دباؤ بڑھایاگیا تو وہ یا تو اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیں گے اور یا پھر اسمبلیاں توڑ کرنئے انتخابات کا اعلان کر دیں گے۔ تیسری تھیوری پیش کرنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق سابق وزیراعظم اور پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار برائے سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے کامیاب ہونے کی صورت میں ان کو چیئرمین سینیٹ منتخب کروایا جائے گا اور اس کے بعد اس بات کی راہ ہموار کی جائے گی کہ آئندہ عام انتخابات تک ادارے غیر جانبدار رہیں۔ خیر یہ تو وہ مختلف طرح کی سازشی تھیوریز ہیں جو اس وقت زبان زد عام ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کو ہی اپنے اپنے گھرکی باندی بنا رکھا ہے، کہیں تحریک انصاف کے لوگوں کی خرید وفروخت کی وڈیو سامنے آتی ہے تو کہیں علی گیلانی اپنے ''دوست اراکین اسمبلی‘‘ کو ووٹ ضائع کرنے کے طریقے سمجھاتے نظر آتے ہیں۔ سینیٹ الیکشن میں سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے 3 رکن اسلم ابڑو، شہریار شر اور کریم بخش گبول مبینہ طور پر منحرف ہوئے تو تحریک انصاف نے ارکان اسمبلی کو 2 ہوٹلوں میں نظر بند کر دیا اس سے پہلے انہی میں سے ایک منحرف رکن کریم بخش گبول کو اسمبلی سے زبردستی ساتھ لے جانے کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ جب سندھ اسمبلی میں سینیٹ الیکشن کی ووٹنگ شروع ہوئی تو خرم شیر زمان، کریم بخش گبول کو ہوٹل سے اپنے ساتھ ہی اسمبلی میں لائے اور انہوں نے بخوشی یہ اعلان بھی کیا کہ تمام غلط فہمیاں دور ہو چکی ہیں اور وہ اپنا ووٹ پی ٹی آئی کے امیدوار کو ہی دیں گے۔
اب بھی اگر کوئی چھانگا مانگا کو ہی یاد رکھنا چاہتا ہے اور مینگورہ، سوات اور کراچی کے ہوٹل کا تذکرہ اسے گوارا نہیں تو اس کی جانبداری مسلمہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ 90ء کی دہائی کی سیاست سے لوگوں کو متنفر اور بیزار کرکے اپنے اقتدارکی راہ ہموار کرنے والے بھی اب چھانگا مانگا سیاست کی ڈگر پر اتر چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں