وزیراعظم عمران خان نے قوم کو خبردار کیا ہے کہ اگر کورونا قواعد و ضوابط پر عمل نہ کیا گیا تو جس طرح انڈیا کے حالات ہیں کہ مریض ہسپتال پہنچتا نہیں اور اس کی ہلاکت ہو جاتی ہے، اگلے ایک یا دو ہفتوں میں ہمارے بھی وہی حالات ہونے والے ہیں۔ اس وقت ہمارے وہ حالات اس لیے نہیں ہیں کہ ایک سال پہلے ہم نے ہسپتالوں کے وسائل بڑھا دیئے تھے۔ اگر پچھلے سال والے وسائل ہوتے تو شاید وہی حالات ہو جاتے جو انڈیا کے ہیں۔ وزیراعظم نے کورونا وائرس وبا روکنے کیلئے بنائے گئے ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے کیلئے فوج سے بھی مدد طلب کی۔
وزیراعظم کی جانب سے بھارت کی صورت حال کا حوالہ اہم ہے۔ بھارت میں مسلسل تین روز سے سامنے آنے والے نئے متاثرین کی تعداد 3 لاکھ سے زیادہ ہے اور ملک کے بیشتر علاقوں میں مریض ہسپتالوں میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر بیٹھے انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔ کورونا کے بہت زیادہ پھیلاؤ کے باعث دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں میں بھی ہسپتالوں پر دباؤ بڑھ چکا ہے اور ملک کے زیادہ تر ہسپتالوں میں آکسیجن کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ بہت سے افراد آکسیجن کے انتظار میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
وزیراعظم کا قوم سے خطاب اور بھارت کی صورت حال سے حالات گمبھیر ہونے کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ متعدی امراض کے ماہرین بھی عوام کو زیادہ خبردار کرنے کے لیے بار بار خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں کورونا وائرس کی لہر کا عروج اگست ستمبر میں آیا تھا، جس کے بعد پاکستان میں نومبر دسمبر میں کیسز میں اضافہ ہوا تھا۔ اس وقت انڈیا دوبارہ اس وبا کا عروج دیکھ رہا ہے تو کیا پاکستان کے لیے وبا کا عروج زیادہ دور نہیں ہے؟ یہی وقت ہے کہ ہم آنے والے وقت کے لیے تیار ہو جائیں۔
اس وبا سے نمٹنے کی تیاریاں اور حکومتوں کا ردعمل اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اس وبا کے دوران چند باتوں میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ پہلا یہ کہ عوامی مقبولیت کی خواہش رکھنے والے حکمران ہوں تو ایسی وبا کے دوران ہلاکتیں اندازوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ سائنسدانوں نے ثابت کر دیا کہ اس وبا سے جس قدر ہلاکتیں ہوئی ہیں انہیں کم کیا جا سکتا تھا، تیسرا یہ کہ جب کوئی بے لگام اور سخت بیماری، بیمار اور چھوٹے ذہنوں والوں تک پہنچتی ہے تو تباہی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
عوامی مقبولیت کی خواہش رکھنے والے کس طرح ہلاکت اور تباہی کو بڑھانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں اس کی مثالیں موجود ہیں جنہیں جھٹلانا ممکن نہیں۔ پہلی مثال ہمسایہ بھارت کی ہے جہاں وبا پھیلنے کے ڈر سے لاک ڈاؤن کا اعلان اس قدر عجلت اور بے ڈھنگے انداز میں ہوا کہ لاکھوں لوگ سڑکوں پر پیدل نکل کھڑے ہوئے۔ مقصد عوام کو اکٹھے ہونے سے روکنا تھا لیکن اس لاک ڈاؤن نے وبا کو بڑھنے اور پھیلنے کے زیادہ مواقع مہیا کر دیئے۔ جب لاک ڈاؤن کی بے ڈھنگی حکمت عملی کا ملبہ مودی سرکار پر گرنے لگا تو بھارتی میڈیا اس کی مدد کو آیا اور مسلمانوں پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس کے لیے تبلیغی جماعت کے بیرون ملک سے آئے مبلغین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ مودی سرکار اپنی نالائقی کو مسلمانوں پر ڈال کر پہلی لہر میں دامن بچا گئی لیکن اب وبا کی دوسری لہر کا بڑا سبب کنبھ میلہ بنا۔ اس میلے کے دوران ایک ایک دن میں تیس تیس لاکھ افراد نے گنگا اشنان کیا اور مودی سرکار یا اس کے چہیتے میڈیا کو کورونا ایس او پیز یاد نہ آئے۔ اس پر ہی بس نہ ہوئی، 4 ریاستوں میں ہونے والے الیکشن کے لیے مودی نے جلسے اور ریلیاں جاری رکھیں۔ 4 ہفتے پہلے بھارتی وزیر صحت نے کورونا کے خلاف جنگ جیتنے کا اعلان کر دیا تھا اور مودی 100 ملین بھارتیوں کو ویکسین لگنے کی خوشیاں منا رہے تھے۔ دراصل مودی عوامی مقبولیت کے جس پہاڑ پر سوار ہو کر آئے تھے‘ انہیں اس بلندی سے اپنی شہرت اور مقبولیت کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ کنبھ میلے پر روک لگانا مودی کے لیے ممکن نہ تھا کیونکہ مقبولیت کے پہاڑ کی بلندی کم ہو سکتی تھی۔ یہی کوتاہ بینی تھی، اب پابندی نہ لگانے سے مقبولیت داؤ پر لگ چکی ہے۔ ٹویٹر پر مودی سے استعفے کے مطالبے ٹاپ ٹرینڈ بن چکے ہیں۔
دوسرا نکتہ تھا، سائنسدانوں نے ثابت کر دیا کہ اس وبا سے ہلاکتوں کی تعداد کم کی جا سکتی تھی۔ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں، جن ملکوں نے بھی کورونا پر قابو پایا ہے وہاں سخت گیر لاک ڈاؤن، حفاظتی انتظامات، ویکسی نیشن کا عمل دیکھ لیں کسی ثبوت کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
تیسرا اور سب سے اہم نکتہ، جب وبا پھیلتی ہے تو چھوٹے اور بیمار ذہن ہلاکت اور تباہی کا خدشہ بڑھا دیتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم اس وبا کو حقیقی خطرہ تصور نہیں کریں گے تب تک ہم اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہو پائیں گے۔ اس وبا کو پھیلے ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے لیکن اب بھی آس پاس نظر دوڑائیں اور لوگوں کی گفتگو سنیں تو اندازہ ہو گا کہ وہ اس وبا کو ایک سازش سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔
اس وقت بہاول پور سب سے زیادہ متاثرہ ضلع ہے جہاں کورونا کے مریضوں کی شرح 38 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس ضلع سے میرے ایک کولیگ نے چند دن پہلے بتایا کہ دیہات میں ہونے والے ہلاکتوں پر ہر ایک کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ مرحوم کو ہوا کیا تھا؟ اب بھی یہی سوال ہوتا ہے لیکن اس بار جواب کی نوعیت ایک ہی ہے۔ پتا چلتا ہے بخار ہوا اور کھانسی شدید تھی، بس اچانک ہی چلا گیا، اللہ کی مرضی۔ دراصل ابھی تک کورونا کے ٹیسٹوں کی شرح بہت کم ہے اور لوگ بھی کورونا ٹیسٹ کرانے سے گھبراتے ہیں جس کی وجہ سے اب تک رپورٹ ہونے والی اموات اصل تعداد سے کہیں کم ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں تاکہ ہمارا حال ہمسایہ بھارت جیسا نہ ہو۔ اللہ ہمارے ہمسائے پر بھی رحم فرمائے۔
عوام پر تنقید تو آسان ہے لیکن دوسرے معاملات پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ کل ہی ایک وفاقی وزیر‘ جو دانشور سمجھے جاتے ہیں‘ عوام کو مشورہ دیتے پائے گئے کہ عید شاپنگ کے لیے آخری دنوں کا انتظار نہ کریں‘ عید پر لاک ڈاؤن لگ سکتا ہے۔ ان دانشور صاحب سے بندہ پوچھے کیا وائرس لاک ڈاؤن کا انتظار کرے گا؟ اس سے پہلے کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا؟ جہاں بھی ہجوم ہو گا وائرس پھیلنے کا خدشہ بھی اسی قدر زیادہ ہوگا، عید کے دن ہوں یا اس سے پہلے جب عید شاپنگ کے لیے بازار بھر جائیں گے تو وائرس ڈر کر بھاگے گا نہیں۔ حکومت کے اب تک کے اقدامات کورونا کی دوسری لہر کو خوفناک ہونے سے بچانے کے لیے بہت کم ہیں۔ بار بار یہ کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن سے معیشت بیٹھ جائے گی، مزدور کا چولہا بند ہو جائے گا، دراصل حکومتی ذمہ داریوں سے فرار کی ایک کیفیت ہے۔ یہ رویہ عوامی مقبولیت کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ عوامی مقبولیت کو ہر وقت ذہن میں بٹھائے رکھنا سیاستدانوں کی کمزوری ہے‘ لیکن یہی کمزوری انہیں لیڈر بننے سے روکتی ہے۔ قیادت وہ ہوتی ہے جو مشکلات میں مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور قوموں کو بحرانوں سے کم سے کم نقصان کے ساتھ نکال لے جانے کی قابلیت کا ثبوت دے۔