"IYC" (space) message & send to 7575

شفاف انتخابات‘ ایک خواب؟

ہمارے ملک کا ہر نیا الیکشن تنازعات اور انتشار کے دروازے کھول دیتا ہے اور گزشتہ کئی ادوار سے ان تنازعات کو ختم کرنے کیلئے ہر حکومت اپنے تئیں انتخابی اصلاحات لاتی ہے لیکن بات کچھ بن نہیں رہی اور انتخابات‘ جو استحکام کا باعث ہونے چاہئیں‘ مزید انتشار کو جنم دے دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت بھی انتخابی اصلاحات پر کمربستہ نظر آتی ہے۔
وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور ہونے والے دو نئے آرڈیننس الیکٹرانک ووٹنگ اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت 49 ترامیم کے ذریعے ملک میں انتخابی اصلاحات لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ الیکشن ایکٹ اور آئین پاکستان میں لائی جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ ان سب ترامیم اور آرڈیننسز کے ذریعے جو اصلاحات لائی جائیں گی‘ وہ پاکستان میں ہونے والے ہر چھوٹے بڑے الیکشن کے تنازعات کو ختم کر دیں گی یا نئے مسائل کو جنم دیں گی؟ ایسے مسائل جن کے نتائج سہارنا شاید بس سے باہر ہو۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہمارے انتخابات سے جڑے مسائل اور تنازعات کا حل ان اصلاحات میں ہے یا ان تنازعات کا کُھرا کہیں اور جا رہا جس پر چلنے کی ہمت شاید ابھی نہیں ہے۔
تبدیلی سرکار کا تو یہ خاصا ہے کہ گمبھیر اور متنوع معاملات اور مسائل کو نہایت سادہ اور آسان حل میں سمو دیتی ہے۔ ملک میں ترقی اور خوشحالی چاہئے؟ لوٹی ہوئی دولت لے آئیں تو سب دلدر دور ہو جائیں گے۔ معیشت کا پہیہ چلانا ہے؟ ایسا کرتے ہیں کہ لوگوں کو مرغیاں‘کٹے پلوا دیتے ہیں‘ ذاتی آمدنی میں اضافہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ الیکشن اور اس سے جنم لینے والے تنازعات پاکستان کی تاریخ میں کئی سانحات سے جڑے ہیں اس لئے کوئی بھی اصلاحات اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں‘ جب تک معاملے کی تہہ تک نہ پہنچا جائے اور اس کینسر کا علاج کرنے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز آپریشن اور طریقہ علاج پر متفق ہوں۔
اب نکتۂ بحث یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کی جائے یہ نہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کا بنیادی مقصد ووٹوں کی گنتی کو تیز اور موثر بنانا ہوتا ہے۔ حکومت اس وقت الیکٹرانک ووٹنگ کو ایسے پیش کر رہی ہے جیسے اس کے آنے سے تمام مسائل جڑ سے ختم ہو جائیں گے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے مطابق تقریباً ایک کھرب روپے چاہئیں ہوں گے تاکہ تمام پرچی سے ڈالے جانے والے ووٹوں کو ڈیجیٹل اور الیکٹرانک نظام سے تبدیل کیا جائے مزید برآں اگلے انتخابات تک تو ایسا ہونا ویسے بھی ناممکن لگتا ہے کہ ملک کے تمام حلقوں میں الیکٹرانک ووٹنگ کروائی جا سکے۔
عالمی سطح پر آسٹریلیا، بلجیم، برازیل، ایسٹونیا، فرانس، جرمنی، برطانیہ، بھارت، اٹلی، ناروے، سوئٹزرلینڈ، متحدہ عرب امارات اور امریکا سمیت کئی ممالک الیکٹرانک ووٹنگ سے انتخابات کرا چکے ہیں۔ اپنے ہمسائے بھارت کی طرف دیکھیں‘ جو سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے‘ تو وہاں انتخابی عمل میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال کیا جاتا ہے۔ 1982 میں کیرالہ کے ریاستی انتخابات میں پہلی بار الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال کیا گیا تھا۔ بھارت مقامی طور پر تیارکردہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کرتا ہے۔ 39 دنوں پر محیط گزشتہ عام انتخابات میں ایک ملین پولنگ سٹیشنز پر 4 ملین ووٹنگ مشینیں استعمال کی گئیں۔ بھارتی انتخابی عمل میں انتہائی سادہ انداز میں بیٹری پر چلنے والی ان مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ووٹر پولنگ سٹیشن پر انتخابی عملے کو اپنا شناختی کارڈ پیش کرتا ہے۔ انتخابی عملہ چیک کرتا ہے کہ وہ ووٹر لسٹ میں ہے یا نہیں۔ اس کے بعد ووٹر کی باری آنے پر پولنگ افسر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بیلٹ یونٹ ان لاک کر کے اس کے حوالے کرتا ہے۔ ووٹر کے سامنے مشین کی سکرین پر مختلف بٹن روشن ہو جاتے ہیں جن پر امیدواروں کے نام اور ان کے سامنے انتخابی نشان ہوتے ہیں۔ ووٹر اپنے پسند کے امیدوار کے سامنے والے نشان کو دباتا ہے اور اس کا ووٹ کاسٹ ہو جاتا ہے۔ ہر ووٹ کے بعد ایک پرنٹر سے نکلنے والی چھوٹی سی پرچی کے ذریعے ووٹر کو دکھایا جاتا ہے کہ اس نے ووٹ کس کو کاسٹ کیا ہے۔ اس کے بعد یہ پرچی ایک مقفل بکس میں ڈال دی جاتی ہے۔ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بکس میں ڈالی گئی پرچیوں کو انتخابی عملہ اپنے دستخط کے ساتھ سیل کر دیتا ہے۔ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کا عملہ سیل کی گئی ووٹنگ مشینوں اور بیلٹ باکس کو کھول کر ووٹوں کی گنتی کرتا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور پرچی کے ووٹ کو ایک دوسرے سے ملا کر گنتی مکمل کی جاتی ہے اور ہر حلقے کا رزلٹ مرتب کیا جاتا ہے۔ بھارتی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے لیے خصوصی طور پر تیارکردہ سافٹ وئیر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ سکیورٹی کے کوئی مسائل جنم نہ لیں۔ ووٹنگ مشین کو انٹرنیٹ یا کسی کمپیوٹر نیٹ ورک سے بھی جوڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس سسٹم کے ذریعے انتخابات میں کسی قسم کی ممکنہ دھاندلی سے بچا جاتا ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن تو یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ ان کی الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں دھاندلی پروف ہیں تاہم اس کے باوجود ہارنے والی پارٹیوں کی جانب سے کئی بار ان مشینوں کے کام کرنے کی صلاحیت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
امریکا میں الیکٹرانک ووٹنگ کے لیے مختلف طرح کی مشینیں استعمال ہوتی ہیں۔ ٹچ سکرین مشینوں پر ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ بیلٹ پیپر کے لیے سکینرز کا استعمال ہوتا ہے۔ ووٹرز کے دستخط کی شناخت کے لیے بھی سکینرز استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ ویب سرورز کے ذریعے ووٹوں کی گنتی بتائی جاتی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے باوجود انتخابی عمل کا پیپر پر بیک اپ بھی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کچھ یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں گڑبڑ بھی ہو سکتی ہے یا انہیں ہیک کرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایسے میں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال بھی اٹھ جاتے ہیں۔ امریکا میں مختلف حلقے ان مشینوں کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایسی ویڈیوز بھی موجود ہیں جن میں ان مشینوں کو ہیک کرتے دکھایا گیا ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ کا دوسرا سب سے بڑا سوال جس کا جواب دینے پر فی الحال کوئی آمادہ نظر نہیں آتا‘ یہ ہے کہ گزشتہ انتخاب کے آر ٹی ایس سسٹم کے تلخ تجربے کے بعد کسی بھی ٹیکنالوجی پر لوگوں کا اعتماد کیسے بحال کروایا جائے۔ کیا الیکٹرانک ووٹنگ دھاندلی کے تمام دروازے بند کر دے گی یا نئے ممکنات کو جنم دے گی کیونکہ دنیا بھر میں اس حوالے سے بات ہوتی ہے کہ کیا الیکٹرانک ووٹنگ ٹیکنالوجی سے متعلق مسائل کا ابھی تک صحیح طور سے جواب دے پائی ہے؟ دھوکا دہی کے وسیع امکانات پاکستان جیسے ملک میں کیا انتشار کو بڑھا نہیں دیں گے؟ اور رائے دہندگان اور ان کے ووٹوں کا تحفظ کیسے ممکن بنایا جائے گا؟ کیا ہمیں بھی بھارت کی طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ساتھ ساتھ VVPAT یعنی ووٹر ویریفائیڈ پیپر آڈٹ ٹریل مشینوں کو بھی رکھنا ہو گا تاکہ کسی بھی تنازع کی صورت میں کوئی ایسا نظام ہو جو ثالثی کر سکے۔
انتخابی عمل میں الیکٹرانک مشین کا استعمال کرنے والے ممالک اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جو نظام وہ استعمال کررہے ہیں اس کی سکیورٹی فول پروف ہو۔ انتخابی عمل صاف اور شفاف ہو اور اسے چیلنج نہ کیا جاسکے۔ پاکستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا تجربہ کس حد تک کارگر ثابت ہوگا یہ تو انتخابی عمل سے گزر کر پتا چلے گا‘ لیکن الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال سے پہلے ہی یہاں انہیں دھاندلی کا نیا حربہ قرار دیا جا رہا ہے تو مستقبل میں اس بات کی توقع کرنا کہ یہاں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال نہیں اٹھایا جائے گا خام خیالی ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں