"IYC" (space) message & send to 7575

ادھورے خواب!!

'رنگ روڈ کپتان کے خلاف پانامہ ثابت ہو گی‘ سوشل میڈیا پر ایسے تبصروں کی بھرمار تھی۔ اصل کہانی کیا ہے، جو میڈیا رپورٹس دیکھیں اور پڑھیں اس سے زیادہ مجھے علم ہے نہ میں اندر کی خبر رکھنے کے دعوے کرتا ہوں، اندر کی خبریں جاننے کے لیے حکومتی حلقوں کے مصاحب 'صحافیوں‘ کے تجزیہ نما دعووں اور اطلاعات کا منتظر رہتا ہوں‘ لیکن کبھی ان پر آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کرتا، ان کی بیان کردہ اندرونی کہانیوں کا اپنے صحافتی تجربے کی بنیاد پر تجزیہ کرتا ہوں، اپنے تئیں اس حوالے سے معلومات اکٹھی کرتا ہوں اور پھر اور ایک منظر بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایسا منظر جس سے ساری تصویر واضح ہو کر سامنے آ جائے۔ پتا چل جائے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں بسے اور اندر کا حال جاننے والے ایک تجزیہ کار نے راولپنڈی رنگ روڈ پر اپنے ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات پر مبنی ایک کہانی چھاپی ہے جس میں چند اکاؤنٹ نمبرز، چند فون نمبرز، چار افسروں کے نام اور 10 ہاؤسنگ سوسائٹیاں‘ سب کو اس کہانی کا مرکزی پلاٹ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس کہانی کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کپتان اپنے شیدائیوں کے دعووں سے بھی زیادہ بھولا اور معصوم ہے یا پھر پوری دنیا گھومنے اور ہر معاملے کو کسی بھی شخص سے زیادہ جاننے کا دعویدار کپتان حکمرانی اور ایوان اقتدار میں ہونے والی سرگرمیوں سے ہی نا واقف ہے یا ممکن ہے کہ کپتان صاحب کو قصداً اندھیرے میں رکھا جا رہا ہواور انہیں واقعی کچھ معلوم نہ ہو۔
کمشنر راولپنڈی کی رپورٹ پر مبنی اس کہانی میں وفاقی وزیر غلام سرور خان اور معاون خصوصی زلفی بخاری کو کسی بھی تفتیش سے پہلے ہی اصل گناہ گار ثابت کر دیا گیا ہے جبکہ جس افسر کی رپورٹ پر انہیں گناہگار لکھا گیا ہے، اس کے بارے میں یہ بھی اقرار کیا گیا ہے کہ وہ اچھی شہرت نہیں رکھتے۔ اس افسر کی لکھی رپورٹ کا ایسا قصیدہ لکھا گیا کہ اگر کوئی صاحبِ اختیار اس پر یقین کر لے تو شاید پاکستان کا پورا نظام ہی اس کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو جائے۔
کپتان کی بے بسی کا نوحہ بھی لکھا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ چھ سال سے ان پر تنقید کر رہا ہوں لیکن یہ رپورٹ پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے ان پر یعنی کپتان صاحب پر ترس آیاکہ یہ شخص واقعی ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے، سرکاری افسر، وزیر اعظم کے دوست اور حکمران پارٹی کے عہدے دار‘ سبھی ملک کو لوٹ رہے ہیں اور یہ مُلک کو اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوششیں کر رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے یہ کس کس سے بچے گا؟ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
کپتان کی بے بسی پر لکھی گئی اس تحریر کو غور سے پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کہانی دراصل کپتان کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ اس چارج شیٹ کا پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ کپتان کی ٹیم مفاد پرستوں سے بھری ہے، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کپتان کے دوست بھی چور ہیں، اس کی پارٹی میں بھی لٹیرے بیٹھے ہیں اور اکیلا کپتان ہے جو ملک کو اور خود کو بچانے کی کوششوں میں لگا ہے۔ کہانی میں رنگ روڈ سکینڈل کی مالیت بھی اربوں سے بڑھا کر کھربوں کر دی گئی اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے لیے گئے نذرانے شامل کر کے اس کیس کو کپتان کے لیے واقعی پانامہ بنا دیا گیا۔
یہ پڑھنے کے بعد میں یہ بات سوچنے پر مجبور ہوا کہ کیا ہمارا وزیر اعظم واقعی اتنا بھولا ہے کہ اسے اپنے ارد گرد اور اپنی ناک کے عین نیچے ہونے والے معاملات کا علم بھی نہیں ہوتا۔ سوالات کئی اور بھی ہیں، جن کے جواب شاید صرف میں ہی نہیں، پورا ملک جاننا چاہتا ہے۔ ان بات کو جاننے کے لیے پہلے دیکھتے ہیں کہ اپوزیشن اور حکومتی ترجمان کیا کیا کہانیاں سناتے ہیں۔
مسلم لیگ نون نے تو رنگ روڈ کرپشن سکینڈل پر وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ مسلم لیگ نون کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے الزام عائد کیا کہ ملک میں مافیا کی حکومت ہے، جس کے سرغنہ خود وزیر اعظم ہیں‘ اگر عمران خان اور عثمان بزدار مستعفی نہ ہوئے تو ٹمپرنگ ہو گی اور یہ شفاف تحقیقات نہیں ہونے دیں گے۔ مسلم لیگی رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ اس حکومت میں ادویات سکینڈل سامنے آیا، آٹا سکینڈل سامنے آیا، چینی سکینڈل بھی ہوا، وفاقی وزرا عبدالرزاق داؤد، خسرو بختیار اور ندیم بابر سمیت کرپشن کی کئی کہانیاں سامنے آئیں‘ لیکن نہ تو ان میں سے کسی کو کوئی سزا ملی اور نہ ہی قوم کو اس کی لوٹی ہوئی دولت واپس لوٹائی گئی۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف والے ہمارے بارے میں کہتے تھے کہ ''کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے‘‘۔ لیکن ان کا اپنا یہ حال ہے کہ ''کھاتا ہے تو دکھاتا بھی ہے‘‘۔
دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے یہ انکشاف کیا کہ ''وزیر اعظم عمران خان نے ایک نا معلوم انجینئر کی ٹیلی فون کال پر رنگ روڈ کرپشن سکینڈل کا نوٹس لیا۔ اگر ایسا کوئی معاملہ نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا ہوتا تو میڈیا کے چیخ چیخ کر گلے بیٹھ جاتے مگر کیا مجال کہ ان کے کان پر جون بھی رینگ جاتی۔ ایسا صرف عمران خان کے دورِ حکومت میں ہی ہو سکتا تھا کہ اگر الزامات لگیں تو تحقیقات بھی ہوں۔ حکومتی عہدے داروں کو بھی احتساب کا خوف ہونا چاہئے۔ طاقت ور ترین لوگ بھی قانون سے مبرا نہیں۔ وزیر اعظم کی احتساب سے متعلق پالیسی واضح ہے، جس کسی پر بھی الزامات لگیں گے تو تحقیقات ہوں گی۔ راولپنڈی رنگ روڈ انکوائری کی ابتدائی رپورٹ میں کسی وزیر یا مشیر کے ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا‘‘۔
راولپنڈی رنگ روڈ کرپشن سکینڈل کی اس غضب ناک کہانی کے ان تمام پہلوؤں پر غور کریں اور پھر کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کریں تو نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کہانی بھی کوئی نئی کہانی نہیں۔ حکومتیں بدل جاتی ہیں، چہرے اور کردار بدل جاتے ہیں، مقام اور کردار بدل جاتے ہیں، اگر نہیں بدلتی تو وطنِ عزیز اور اس میں بسنے والے عوام کی تقدیر نہیں بدلتی۔ وزیروں، مشیروں، بیوروکریسی اور ان سب سے جڑے لینڈ مافیا، آٹا مافیا، چینی مافیا اور ایل این جی مافیا کی جیبیں بھی بڑھ جاتی ہیں‘ بھر جاتی ہیں اور پھر ان کے خلاف ہونے والی انکوائریاں بھی داخل دفتر کر دی جاتی ہیں۔ کبھی کسی سے استعفیٰ لے کر اور کبھی کسی کو گھر بھیج کر سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور عوام ایک بار پھر سے بھرپور احتساب کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا اور کہاں جا کر رکے گا؟ اگر اسی طرح ایک کے بعد ایک سکینڈلز آتے رہے تو ترقیاتی کام کب ہوں گے اور ملک و قوم کی تقدیر کب بدلے‘ جس کی آس اس ملک کے عوام مملکتِ خداداد کے قیام کے پہلے دن سے لگائے بیٹھے ہیں؟ پتا نہیں عوام کے ذہنوں میں کلبلانے والے ان سوالوں کے جوابات انہیں کب ملیں گے؟ پتا نہیں یہ ادھورے خواب کب پورے ہوں گے جو اس ملک کے عوام نے دہائیوں سے اپنی آنکھوں میں سجا رکھے ہیں اور جن کے پورے ہونے کا سپنا وہ ہر دورِ حکومت میں دیکھتے ہیں‘ لیکن ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں