ٹک ٹاک سٹار حریم شاہ نے سندھ اسمبلی کے کسی رکن سے شادی کرلی، کون ہے وہ؟ وزیر بھی ہے، پہلی بیوی کو منالے تو شادی کا اعلان ہو گا۔ حریم شاہ کی شادی کی خبروں پر سندھ کے وزیروں کے گھروں میں لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کابینہ ارکان کے موبائل فونز کا فرانزک کرانے پر سوچ بچار شروع کردی‘ ایک اطلاع کے مطابق فرانزک کروا بھی لیا مگر کچھ نہیں ملا اور اس کے ساتھ سندھ اسمبلی میں چارپائی لے کر گھسنے والے ارکان اور ان کی رکنیت معطلی۔ وزیراعظم کے مشیر زلفی بخاری کے دورہ اسرائیل کی پرانی خبر کا دوبارہ گردش کرنا اور پھر اس کے متعلق تردیدی بیانات‘یہ ہیں وہ نان ایشوز جن کا قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر چرچا ہے۔ کیا یہی مسائل رہ گئے ہیں جن پر وقت اور توانائی ضائع کی جائے؟
دراصل یہ ایک پرانا اور سوچا سمجھا حربہ ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے حکومتیں اور ان کا مددگار میڈیا عوام کی توجہ اصل ایشوز سے ہٹا کر انہیں ایسے معاملات میں الجھا دیتا ہے جو بظاہر ایک ایشو بن جاتا ہے لیکن یہ نان ایشو ہوتا ہے جس کا عوام اور ملک کے حالات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں اور یہ حربہ بھی ہم نے جمہوریت کی طرح مغرب سے درآمد کیا ہے۔امریکی صدور کے ایگزیکٹو آرڈرز عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر نان ایشوز کی طرف مرکوز کرنے کی بہترین مثال ہیں۔ 25 اگست 2017ء کو جب ریاست ٹیکساس کے ساتھ سمندری طوفان ہاروے ٹکرانے کو تھا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پولیس شیرف کو عام معافی کا صدارتی فرمان جاری کردیا، یہ پولیس شیرف نسلی امتیاز کے لیے بدنام تھا اور انہی مقدمات میں سزا یافتہ تھا،اسی دن صدر ٹرمپ نے امریکی فوج میں ٹرانس جینڈر فوجیوں کی بھرتی پرپابندی کا بھی فرمان جاری کیا۔ صدر کے یہ دو فرمان ایسے تھے جنہوں نے عوام اور میڈیا کی توجہ کھینچ لی اور سمندری طوفان سے ہونے والی تباہی اور اس تباہی سے نمٹنے کی حکومتی حکمت عملی پس منظر میں چلی گئی۔
چودہ اگست 2018ء کو فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے پہلے دن روس نے ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس میں اضافے کے اعلانات کئے لیکن فیفا ورلڈ کپ کی چکا چوند میں روس کی حکومت کے یہ اقدامات چھپ گئے اور کہیں بھی حکومتی پالیسی پر کوئی آواز بلند نہ ہوئی۔ 13 جولائی 1994ء کو اٹلی میں وزیراعظم برلسکونی کی حکومت نے کرپشن کے مقدمات میں ملوث سینکڑوں سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کی رہائی کا ہنگامی فرمان جاری کیا لیکن اس فرمان پر کسی نے توجہ نہ دی کیونکہ اس روز اطالوی عوام اور میڈیا فیفاورلڈ کپ میں قومی ٹیم کے کوالیفائی کرنے کی خوشیاں منا رہے تھے۔امریکا، روس اور اٹلی کی ایک ایک مثال سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سیاست میں اتفاقات ہمیشہ اتفاقات ہی نہیں ہوتے بلکہ سوچی سمجھی پالیسی اور حکمت عملی ہوتی ہے۔ سیاست دان ہمیشہ تنازعات خود پیدا کرتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد ان چھوٹے چھوٹے تنازعات کی آڑ میں بڑے اقدامات کو چھپانا ہوتا ہے۔ ایسے تنازعات کنٹرولڈ ہوتے ہیں اور ان کا کوئی بڑا نقصان بھی نہیں ہوتا، صرف چند دن کے لیے عوام اور میڈیا کی توجہ بٹائی جاتی ہے۔ سیاستدانوں کی یہ حکمت عملی جنگوں میں استعمال ہونے والی سٹریٹیجک حکمت عملی جیسی ہی ہوتی ہے۔ سوچی سمجھی حکمت اور کنٹرولڈ نقصان کی مثال سابق امریکی صدر بارک اوباماکے بڑے مالیاتی سکینڈل کی ہے، اوباما دور میں وال سٹریٹ کو بڑا بیل آؤٹ پیکیج دیا گیا تھا اور عام آدمی کو ریلیف دینے کے بجائے بڑی کمپنیوں کو حکومتی خزانے سے نوازا گیا تھا۔ اوباما وائٹ ہاؤس کے لان میں میڈیا سے بات کرنے آئے تو طے شدہ منصوبے کے تحت ایک رپورٹر نے اوباما سے سوال کیاکہ انشورنس کمپنی اے آئی جی کے ملازمین کو 165 ملین ڈالر بونس کی مد میں دیے گئے ہیں‘ کیا اس معاملے پرعوامی غصے کو کم کرنے کے وہ کچھ کہناچاہیں گے؟ صدر اوباما نے کہا کہ وہ عوامی غصے کو کم کرنے کی خواہش نہیں رکھتے، عوام کا غصہ بجا ہے‘ میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ عوام کے اس غصے کوکسی تعمیری انداز میں استعمال کیا جائے۔اوباما یہ گفتگو کر کے ایئرفورس ون پر چل دیے اور اس بیان کے سامنے آتے ہی امریکی کانگریس نے انشورنس کمپنی کی کھچائی شروع کردی اور غصے کااظہار کیا۔ انشورنس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نے ملازموں کی منت سماجت شروع کردی کہ جن کو ایک لاکھ ڈالر یا اس سے زیادہ بونس ملا ہے وہ اس کا نصف واپس کردیں۔ دراصل ایک چھوٹے سکینڈل کو خود اچھالا گیا اور بڑی کمپنیوں کو دیے گئے بیل آؤٹ پیکیج سے عوام کا دھیان ہٹا دیا گیا۔
کالم میں جن تین نان ایشوز کا ذکر کیا ہے یہ روز شائع ہونے والے نان ایشوز کی ایک معمولی جھلک ہے۔ حریم شاہ کے سکینڈلز کو دیکھ لیں اور اس کی ٹائمنگ بھی دوبارہ ذہن میں دوڑائیں۔ حکومت جب بھی کسی مشکل یا بڑے فیصلے میں پھنسی ہو اسے آگے کر دیا جاتا ہے، اس کی شادی پورے ملک کے لیے بڑی خبر بنادی گئی۔سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان نے ایک ڈرامہ خود سے تشکیل دیا، کہنے کو وہ سندھ حکومت کا علامتی جنازہ پڑھنے آئے تھے لیکن کیا جنازے میں میٹرس بھی لائے جاتے ہیں؟زلفی بخاری کے دورۂ اسرائیل کی خبر بھی پچھلے سال کے آخر میں شائع ہو چکی ہے‘ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت زلفی بخاری کا نام نہیں لیا گیا اور وزیراعظم کے ایک مشیر جن کے پاس برطانوی پاسپورٹ ہے، کہہ کر واضح اشارہ دے دیا گیا تھا۔ اب اس کہانی کے دوبارہ شائع ہونے کی ضرورت کسے اور کیوں پیش آئی؟ ایک جواب تو کہانی چھاپنے والے اسرائیلی اخبار کے ایڈیٹر نے خود دیا اور کہا کہ اس کہانی کو اسرائیلی فوج نے شائع کرنے کی اجازت دی تھی اور سنسر کے بعد شائع کی گئی۔ اس سموک سکرین کی ضرورت کسے تھی؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا تیزی سے جاری ہے اورگیارہ ستمبر کو آخری فوجی بھی نکل جائے گا، باقی رہنے والے امریکی سفارتخانے تک محدود ہوں گے، امریکی انخلا سے پہلے ہی افغانستان کے بڑے رقبے پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے اور امریکی کمانڈر کہہ رہا ہے کہ خانہ جنگی ہوگی۔ افغان وزیر دفاع طالبان سے مار کھانے کے بعد بہانے گھڑ رہا ہے کہ ہم حکمت عملی کے تحت پسپا ہو رہے ہیں اور کن اضلاع کا دفاع کرنا ہے اور کہاں سے نکلنا ہے، یہ حکمت عملی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی حکمت عملی کیا ہے، امریکا نے پاکستان سے کیا مطالبات رکھے ہیں؟ وزیراعظم اڈے نہ دینے کے بیانات دے رہے ہیں تو مطالبات بھی ہوئے ہوں گے، اڈوں کے علاوہ کس قسم کی سپورٹ طلب کی جا رہی ہے؟ کیا شرائط طے کی جا رہی ہیں؟اب تک امریکا کی اعلیٰ قیادت نے پاکستان کے ساتھ بالمشافہ بات کرنے سے گریز کی پالیسی کیوں اپنا رکھی ہے؟ امریکی وزیر دفاع ہماری عسکری قیادت کو فون تو کرتا ہے لیکن دونوں جانب کی سول قیادت کیا طے کر رہی ہے؟ پارلیمان کا اس معاملے میں کیا کردار ہے؟ اس پر میڈیا اور سیاسی قیادت عوام کو کچھ بھی بتانے سے گریز کی پالیسی اپنا کر انہیں بے سروپا سکینڈل میں الجھائے ہوئے ہیں۔ کیامیڈیا پر کوئی دباؤہے یا پھر یہ ہمارے دوستوں کی نااہلی ہے کہ نان ایشوز اور چٹخارے ڈھونڈکر عوام کا دل بہلانے میں لگے ہیں۔