آزاد کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے متاثر کن جلسے لیکن مایوس کن نتائج اور اس کے فوری بعد سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی شکست، ایک ایسے ضلع اور حلقے سے شکست‘ جہاں سے ناکامی کا تصور بھی شاید لیگی حلقوں کے لیے ممکن نہیں تھا، مسلم لیگ ن کے بڑوں اور پالیسی سازوں کے لیے وہ لمحہ ہے جب وہ سنجیدگی کے ساتھ سوچیں کہ ان کی جماعت کی سمت کیا ہے؟ کیا وہ جماعتی سطح پر پائی جانے والی کنفیوژن کو برقرار رکھ کر آئندہ عام انتخابات میں اترنے کی غلطی کر سکتے ہیں؟
مسلم لیگ ن میں جماعتی سطح پر پائی جانے والی کنفیوژن کو بیانیے کی جنگ بھی کہا جا رہا ہے۔ سیاسی مبصرین کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ ن کے بڑوں میں مفاہمت اور مزاحمت کی پالیسی پر اختلاف رائے ہے‘ اور عام ووٹر بھی ایسا ہی سوچ رہا ہے۔ اس اختلاف رائے کی بنا پر ووٹر یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پارٹی قیادت اس سے کیا چاہتی ہے؟
مسلم لیگ ن کا ووٹر اور سپورٹر‘ دونوں ہی اس بات سے پریشان نظر آتے ہیں کہ ان کے لیڈر مستقبل میں کیا سیاسی لائحہ عمل اختیار کریں گے۔ اگر ہم 80 کی دہائی سے لے کر آج تک کی مسلم لیگ ن کی سیاست پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا ووٹر کبھی بھی انقلابی یا احتجابی نہیں رہا‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انتخابی مہم کے دوران کوئی پٹاخہ چل جائے یا انتخابات کے روز پولنگ سٹیشن کے ارد گرد کوئی پھلجھڑی پھوٹ پڑے تو نون لیگ کا ووٹر اپنے گھر میں بیٹھ جاتا ہے۔ ماضی قریب میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی طرف سے اپنائی جانے والی جارحانہ پالیسی نے اگرچہ پارٹی کے مایوس کارکنوں میں حوصلے کی ایک نئی رمک تو پیدا کر دی‘ لیکن اس سارے عمل میں بطور جماعت مسلم لیگ ن کو طاقتور حلقوں سے مزید دور کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے اپنے تئیں مقتدرہ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کئی کوششیں کیں‘ لیکن ہر موقع پر مسلم لیگ ن کے قائد یا ان کی صاحبزادی کی طرف سے سامنے آنے والے کسی بیان نے کھیل کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔ مسلم لیگ (ن) میں اگرچہ ووٹ بینک تو میاں نوازشریف کا ہے‘ لیکن اس ووٹ بینک کو مضبوط بنانے اور اس میں اضافہ کرنے میں میاں شہباز شریف کی گورننس اور پرفارمنس کا بھی بہت کردار رہا ہے۔
آزاد کشمیر کے الیکشن میں مریم نواز صاحبہ کے جلسوں اور انتخابی نتائج کے بعد یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مریم نواز مجمع اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں‘ لیکن کامیاب جلسے انتخابی کامیابی میں تبدیل نہیں کر سکیں اور پارٹی کو مایوس کن شکست ہوئی۔ مریم نواز کے ساتھ اس الیکشن مہم میں شریف فیملی سے کوئی لیڈر شریک نہ ہوا۔ ناقدین کی طرف سے اس بات کو بھی بیانیہ کی جنگ کا ثبوت بنا کر پیش کیا گیا۔ بعض حلقے تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ کشمیر کے انتخابات اور سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں مریم نواز کو فری ہینڈ دے کر ان کی انتخابی معرکہ لڑنے کی صلاحیت جانچی گئی اور وہ اس امتحان میں ناکام ہو گئیں۔
میری ذاتی رائے اس حوالے سے مختلف ہے۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے مابین بیانیہ کے نام پر کوئی جنگ نہیں ہو رہی بلکہ ایک عرصے سے دونوں بھائی مقتدرہ سے تعلقات پر مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ 3 بار ملک کے وزیر اعظم منتخب ہونے والے میاں محمد نواز شریف مقتدرہ کے ساتھ کھینچا تانی پہلی بار نہیں کر رہے اور نہ ہی میاں شہباز شریف اس کھینچا تانی کو روکنے کی پہلی کوشش کر رہے ہیں۔ دونوں بھائیوں کے مزاج اور سوچ میں فرق کوجنگ قرار دینا نامناسب ہوگا، البتہ یہ ضرور ہے کہ نواز شریف جب کبھی مقتدرہ کے ساتھ تعلقات بگاڑ کر مشکل کا شکار ہوئے تو شہباز شریف نے انہیں ریسکیو کیا‘ لیکن اس بار ریسکیو کی کوششیں اتنی ثمرآور دکھائی نہیں دے رہیں‘ اور محاذ آرائی طویل ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے ذمہ دار اس مرتبہ خود نواز شریف ہیں، انتہائی سینئر اور سمجھدار سیاست دان نواز شریف اس بار غصے سے بھرے بیٹھے ہیں اور ان کا یہ غصہ ان کی جماعت کی سیاست پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے نواز شریف کا غصہ کم کرنے کے لیے شریف خاندان کے بڑے اہم کردار ادا کرتے تھے لیکن اب نواز شریف خود خاندان کے بڑے ہیں اور شہباز شریف کو کہیں سے مدد نہیں مل رہی کہ وہ بڑے بھائی کا غصہ کم اور سیاست کی الجھی ڈور کو سلجھانے میں کردار ادا کریں۔ شریف خاندان کے ''واقفان حال‘‘ کے مطابق میاں نواز شریف کی سوچ پر ان کی صاحبزادی اور ان کے چند ''انقلابی‘‘ رفقا کی سوچ اثر انداز ہو رہی ہے۔ ماضی میں اگرچہ کئی مواقع پر میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی اور قائد‘ جن کا وہ اپنے والد کی طرح احترام کرتے ہیں‘ کو اپنے موقف پر قائل کر چکے ہیں لیکن اس بار بڑے بھائی شاید اپنی صاحبزادی کی رائے سے زیادہ متفق ہیں۔
مسلم لیگ ن کا بڑا مسئلہ اس وقت جماعت کا بیانیہ نہیں بلکہ احتجاجی موڈ کو انتخابی موڈ میں بدلنا ہے۔ جب احتجاجی موڈ کی ضرورت تھی تو شہباز شریف اس کے آڑے نہیں آئے‘ لیکن اب احتجاجی موڈ پارٹی کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ مسلم لیگ ن کو الیکشن میں اترنے کے لیے انتخابی بیانیہ بنانا ہو گا اس میں احتجاج بھی ایک عنصر تو ضرور ہے لیکن مکمل احتجاجی سیاست الیکشن میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتی۔ اب مسلم لیگ ن کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اس کا ووٹر کنفیوزڈ رہے گا۔ پارٹی کو مشترکہ حکمت عملی بنانا ہو گی ورنہ 2023 کے عام انتخابات میں بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ ان کے ووٹرز بھی مسلسل احتجاج کے متحمل نہیں اور انہیں پارٹی کا ایسا بیانیہ درکار ہے جو نہ صرف انہیں بلکہ خاموش ووٹرز کی بڑی تعداد کو بھی مسلم لیگ ن کے حق میں مائل کر سکے۔ اس کے لیے مسلم لیگ ن کو عام آدمی کی نبض پر ہاتھ رکھنا ہو گا، عام آدمی اس وقت مقتدرہ کے خلاف بیانات کے بجائے مہنگائی، غربت، بیروزگاری، کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے عاجز ہے۔ اسے اپنے مسائل کے حل کا کوئی واضح روڈ میپ اور امید درکار ہے۔ ملک کی معاشی اور سیاسی سمت پر بھی مایوسی موجود ہے، اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے کوئی بھی امید نظر نہ آنے پر عام آدمی جل کڑھ رہا ہے لیکن وہ حکومت کے خلاف سرگرمی دکھانے کو تیار نہیں۔ اس کا ثبوت حال ہی میں آنے والا رائے عامہ کا ایک جائزہ بھی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ فار پبلک اوپینئن ریسرچ نے پنجاب کے عوام سے ملکی مسائل سے متعلق ایک سروے کیا جس کے نتائج کے مطابق پنجاب کے 57 فیصد شہریوں کی رائے ہے کہ ملک غلط سمت میں جا رہا ہے جبکہ 38 فیصد نے اس کے برعکس رائے دی۔ پنجاب کے 49 فیصد شہریوں نے مہنگائی کو اہم ترین مسئلہ جبکہ 19 فیصد نے بیروزگاری کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ صوبے کے 13 فیصد شہریوں نے غربت کو اہم ترین مسئلہ بتایا۔ یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں عام آدمی مطمئن نہیں اور اپوزیشن ابھی تک اس کی امنگوں کے مطابق کوئی بیانیہ بنانے میں ناکام رہی ہے۔
مسلم لیگ ن کے لیے عوام کی توجہ ان مسائل کی طرف دلاتے ہوئے حکومتی کارکردگی کو آڑے ہاتھوں لے کر اپنی جماعت میں پارٹی قیادت کے اندر اختلافات کے تاثر کو زائل کرنا بے حد ضروری ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کے اختلاف رائے کو ایک جنگ بنا کر پیش کیا گیا۔ کہنے والے کہتے رہے کہ ن میں سے ش نکلے گی، اس بات کو اتنی بار دہرایا گیا کہ اب عام آدمی کو اس پر سچ کا گمان ہونے لگا ہے۔ اس گمان کو بھی ختم کرنے ضرورت ہے!