"IYC" (space) message & send to 7575

نواز شریف کی واپسی اور تبدیلی سرکار

برطانیہ کے شہر لندن کو پاکستانی سیاست میں ہمیشہ بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ حکومت پیپلزپارٹی کی ہو، مسلم لیگ ن کی یا پھر جنرل پرویز مشرف کی، پاکستانی سیاستدانوں خصوصاً اپوزیشن رہنمائوں کا مسکن کسی نہ کسی وجہ سے لندن ہی رہا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی جلاوطنی کا زیادہ عرصہ لندن میں گزارا۔ اسی طرح 1999ء میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد شریف خاندان بھی پہلے سعودی عرب اور پھر لندن میں مقیم رہا۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں وطن عزیز میں جب تحریک انصاف کی حکومت بنی اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو ایک عدالتی فیصلے کے بعد جیل بھیج دیا گیا تو جیل میں ان کے سزا کاٹنے کے دوران ہی یہ خبر آئی کہ وہ شدید علیل ہیں۔ ان کو علاج کی غرض سے سروسز ہسپتال لاہور میں منتقل کر دیا گیا۔ تب مسلم لیگ ن کے رہنمائوں اور خود حکومتی عہدیداروں کی طرف سے یہ بیانات سامنے آنے لگے کہ سابق وزیراعظم نہ صرف شدید علیل ہیں بلکہ اگر ان کو علاج کے لیے بیرون ملک نہ بھجوایا گیا تو خدانخواستہ اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یہی نہیں سرکاری ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اور پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر میڈیا کو میاں صاحب کی صحت سے متعلق بریفنگ بھی دی جاتی رہی۔ پھر نومبر 2019ء میں ایک ایئرایمبولینس کے ذریعے نواز شریف کو ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف اور ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان علاج کی غرض سے لندن لے گئے۔ یہ سارا عمل وزیراعظم کی منظوری سے ہوا اور علاج کے بعد میاں نواز شریف سے وطن واپس آنے کی گارنٹی بھی لی گئی۔ مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف نے گارنٹی پیپر پر دستخط کئے تھے۔
میاں نواز شریف لندن تو چلے گئے لیکن اپنے پیچھے الزامات سے بھرپور سیاست کا ایک نیا پنڈورا باکس کھول گئے۔ حکومت نواز شریف کو لندن جانے سے تو نہ روک سکی؛ البتہ نواز شریف کی بیماری سے متعلق مختلف وزرا کی طرف سے مختلف نوعیت کے تبصرے سامنے آنا شروع ہو گئے۔ اور تو اور خود وزیراعظم عمران خان ہر جلسے اور ہر میڈیا ٹاک میں نواز شریف کو جھوٹا اور بھگوڑا قرار دینے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ ان کی جانب سے بارہا یہی موقف دہرایا جاتا رہا کہ نواز شریف جھوٹی رپورٹس بنوا کر اور جعلی بیمار بن کر ملک سے فرار ہوئے۔ اب وزیراعظم اور ان کے رفقا سے کون یہ پوچھے کہ جناب پنجاب میں حکومت بھی آپ کی، وزیر اعلیٰ جناب عثمان بزدار بھی آپ کے، وزیر صحت محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد کا تعلق بھی آپ ہی کی پارٹی سے اور پھر ہسپتال بھی سرکاری، ڈاکٹر اور وہاں پر تعینات دیگر عملہ بھی سرکاری تو ایسے میں اگر میاں نواز شریف جعلی رپورٹس بنوا کر یا پوری ''سرکاری مشینری‘‘ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر لندن چلے گئے تو پھر ذمہ داری تو بطور وزیراعظم ''جناب والا‘‘ آپ کی بنتی ہے۔
پھر حکومت کی جانب سے یہ کہا جانے لگا کہ سابق وزیراعظم اور عدالتی سزا یافتہ میاں نواز شریف کو واپس پاکستان لایا جائے گا۔ وزیراعظم کی ہدایت پر اس ضمن میں برطانوی حکومت کو خط بھی لکھے گئے‘ لیکن نہ تو ان خطوط کا کوئی خاطر خواہ جواب ملا اور نہ ہی میاں نواز شریف کو واپس پاکستان لایا جاسکا۔ گزشتہ جمعرات کی شام لندن سے خبر آئی کہ ویزہ کی مدت ختم ہو جانے پر برطانوی محکمہ داخلہ نے نواز شریف کے لندن قیام میں توسیع کی درخواست مسترد کردی ہے۔ سابق وزیراعظم کا ویزہ تاحال قانونی قرار دیا گیا‘ لیکن ان کی طرف سے برطانوی محکمہ داخلہ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی گئی ہے۔ برطانوی ماہرین قانون کے مطابق اس اپیل کا فیصلہ ہونے میں ڈیڑھ سے 2 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ امیگریشن ٹربیونل کی طرف سے اگر یہ اپیل خارج بھی کر دی جائے تو پھر ان کے پاس لندن ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا آپشن موجود ہے۔
ماہرین قانون اور امیگریشن کے ماہرین نے اب تک یہ بات تو واضح کر دی ہے کہ نواز شریف کی برطانیہ میں ویزہ توسیع کی درخواست مسترد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پرسوں ہی لاہور کا ٹکٹ کٹا کر اپنا بوریا بستر سمیٹنا شروع کر دیں گے۔ یہ ایک قانونی معاملہ ہے جس کے طے شدہ مراحل ہیں اور یہ مراحل دنوں‘ ہفتوں میں نہیں بلکہ مہینوں اور بعض اوقات سال سے زائد بھی وقت لے لیتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے لندن قیام میں توسیع کی درخواست مسترد ہونے کی خبر نے پاکستانی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل مچا دی۔ حکومتی وزیروں اور مشیروں کو تو جیسے نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لینے کا ایک اور موقع مل گیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ''نواز شریف بیمار نہیں، انہوں نے جھوٹ بول کر ویزہ لیا، وہ پاکستانی سفارت خانے جا کر عارضی سفری دستاویزات حاصل کریں، پاکستان واپس آئیں اور عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کریں، نواز شریف جس طرح برطانیہ میں گھوم پھر رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بیمار نہیں، ویزہ درخواست میں توسیع کے لیے اگر وہ جھوٹ بولیں گے تو برطانوی عدالتوں سے انہیں سزا بھی ہو سکتی ہے‘‘۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے کہا ''نواز شریف برطانیہ میں ایکسپائرڈ پاسپورٹ کے ساتھ بھگوڑے بن کر بیٹھے ہیں‘ واپس آ کر مقدمات کا سامنا کریں، شرم کی بات ہے کہ ملک کا سابق وزیر اعظم مفرور ہے، انہیں واپس آ کر سیدھا جیل جانا چاہئے‘‘۔
مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف کا کہنا ہے ''سیاسی پگڑیاں اچھالنے والے پاکستان کی پگڑی نہ اچھالیں تو مہربانی ہو گی۔ 3 بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی زندگی پر سیاست بے حسی اور غیر انسانی رویہ ہے۔ قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپیل دائر کر دی گئی ہے‘ اپیل پر فیصلہ ہونے تک نواز شریف قانونی طور پر لندن میں قیام کر سکتے ہیں۔ نواز شریف کو لندن بھجوانے کا فیصلہ حکومت کا تھا۔ ان کا علاج پاکستان میں نہیں ہو سکتا۔ یہ فیصلہ بھی سرکاری بورڈ کا تھا‘ ڈاکٹر جب اجازت دیں گے تو نواز شریف وطن واپس آ جائیں گے‘‘۔
سب کو یاد ہو گا کہ جب نواز شریف کا پاسپورٹ منسوخ کیا گیا تھا تو اس وقت بھی بڑا شور اٹھایا گیا تھا‘ لیکن پھر یہ معاملہ بھی دب گیا کیونکہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین مجرموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کے نتیجے میں ایک مجوزہ مسودہ تیار کیا گیا تھا؛ تاہم اس پر عمل درآمد پراتفاق نہیں ہو پایا۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ کے دورے کے دوران وہ اپنے برطانوی ہم منصب سے ملاقات کر کے نواز شریف کو وطن واپس لانے کا مطالبہ کریں گے؛ تاہم ابھی تک انہیں اپنے برطانوی ہم منصب کی طرف سے برطانیہ کے دورے کی دعوت ہی نہیں ملی۔
سیاست دان کی سیاست اس وقت خطرے میں پڑتی ہے جب وہ اپنی حکمت عملی کے بجائے اپنے حریف کی بتائی چالوں پر چلنا شروع کر دے اور نواز شریف کو اس بات کا بہت اچھے طریقے سے اندازہ ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف یہ بات بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان کی پاکستان واپسی ایک ''ترپ‘‘ کا پتہ ہے اور یہ پتہ وہ اپنی شرائط پر ہی کھیلیں گے‘ نہ کہ اپنے کسی سیاسی حریف کی خواہش پر۔ نواز شریف کی وطن واپسی کا موزوں وقت وہی ہے جب ملک میں انتخابات کا ماحول بن چکا ہو ایسے میں ان کی واپسی انہیں بھرپور سیاسی فائدہ پہنچا سکتی ہے‘ اور مقتدر قوتوں کے ساتھ معاملات بہتر انداز میں طے کرنے کی پوزیشن میں لا سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں