چند روز قبل میں اپنے دفتر میں ایک میٹنگ میں مصروف تھا کہ میرے فون پر ایک دوست کی کال موصول ہوئی۔ میں نے مصروفیت کی وجہ سے وہ کال نہیں سنی اور سوچا کہ ابھی میٹنگ سے فارغ ہو کر خود کال بیک کر لوں گا، لیکن پھر دوبارہ اسی دوست کی کال آنا شروع ہو گئی۔ میں نے ایک مرتبہ پھر ٹیلیفون کاٹ کر اس کو میسج کیا کہ میٹنگ میں مصروف ہوں، فارغ ہو کر واپس کال کرتا ہوں۔ یہ پیغام پڑھتے ہی میرے اس دوست نے مجھے جوابی پیغام بھیجا کہ عمران بھائی ایک ایمرجنسی ہے اس لیے فوری رابطہ کر لیں۔ یہ پیغام پڑھتے ہی میں نے اس دوست کو فون کیا تو اس نے تقریباً روتے ہوئے مجھے کہا کہ میری بہن شدید بیمار ہے، ڈینگی کی وجہ سے اس کے پلیٹ لٹس انتہائی کم ہو چکے ہیں اور ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اگر آپ اس کی زندگی بچانا چاہتے ہیں تو مریضہ کو فوری طور پر لاہور کے کسی اچھے ہسپتال میں لے جائیں۔ عمران بھائی! خدا کے لیے کچھ کریں، نہیں تو میری بہن مر جائے گی۔ ہم نے اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کر لی ہے کسی سرکاری تو کیا، پرائیویٹ ہسپتال میں بھی کوئی بیڈ نہیں مل رہا۔ اللہ کے واسطے ہماری کچھ مدد کریں۔
میں نے اپنے طور پر اس کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ تم فون بند کرو میں کچھ کرتا ہوں۔ اپنا فون بند کرتے ہی میں نے اپنے ایک انتہائی قریبی دوست ڈاکٹر ، جو لاہور کے ایک معروف نجی ہسپتال کے سی ای او ہیں، کو فون کیا اور اپنا مدعا بیان کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے انتہائی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے کہا کہ عمران بھائی آپ کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ میرے پاس اگر ایک بیڈ کی بھی گنجائش ہو تو حاضر ہوں لیکن کیا کروں‘ ہمارے تینوں ہسپتالوں میں سے کسی ایک میں بھی نہ تو کوئی کمرہ دستیاب ہے اور نہ ہی آئی سی یو میں کوئی بیڈ خالی ہے۔ تمام ہسپتال ڈینگی کے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ انکار سننے کے بعد میں نے ایک اور دوست کے ذریعے فیروزپور روڈ پر قذافی سٹیڈیم کے سامنے واقع لاہور کے ایک اور معروف ہسپتال کے مالک سے رابطہ کیا، لیکن وہاں سے بھی کچھ ایسا ہی جواب ملا۔ ادھر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق میرا وہ دوست مسلسل روتے ہوئے مجھے فون کیے جا رہا تھا کہ خدا کے واسطے کچھ کرو، اس کے فون کی ہر بیل کے ساتھ نہ صرف میری ذمہ داری بڑھتی جا رہی تھی بلکہ میری شرمندگی میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا تھا کہ میں اس پریشانی کے عالم میں اس کی مدد کیوں نہیں کر پا رہا۔ اس پریشانی کے عالم میں، میں نے اپنے ایک اور دوست ڈاکٹر سے رابطہ کیا جو لاہور کے ایک بڑے نجی ہسپتال کے مالک بھی ہیں اور ان سے اس ساری صورتحال میں کسی خصوصی شفقت اور مدد کی درخواست کی۔ انہوں نے خاص مہربانی فرمائی اور مجھے کہا کہ کوئی کمرہ یا آئی سی یو کا بیڈ دستیاب نہیں ہے لیکن میں آپ کی اور آپ کے اس دوست کی پریشانی کم کرنے کے لیے یہ ضرور کر سکتا ہوں کہ آئی سی یو کے ساتھ واقع سائیڈ روم میں اس مریضہ کو ایڈمٹ کر کے اس کا فوری علاج شروع کروا دیتے ہیں ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور اپنے دوست سے کہا کہ وہ فوری طور پر بہن کو لے کر متعلقہ ہسپتال پہنچ جائے۔
اس سارے عمل سے گزرنے کے بعد میں یہ بات سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ہم پاکستانی کسی بھی بیماری کی صورت میں علاج معالجے کیلئے بنیادی سہولتوں سے بھی کیوں محروم ہیں؟ آئین پاکستان کے تحت جب ہر پاکستانی کو صحت اور علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے تو پھر ہمیں علاج کیلئے کیوں دربدر ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں، ذلیل ہونا پڑتا ہے اور سفارشیں ڈھونڈنا پڑتی ہیں۔ غریبوں کا نہ پوچھیں یہاں تو پیسے اور وسائل کے ہوتے ہوئے بھی پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی علاج کے لیے منتیں کرنا پڑتی ہیں۔ بیشتر پرائیویٹ ہسپتالوں میں کمروں کے کرائے فائیو سٹار ہوٹلوں کے کمروں سے بھی زیادہ وصول کیے جاتے ہیں، لیکن اتنے پیسے خرچ کرنے پر راضی عوام کو سہولتیں پھر بھی نہیں ملتیں۔ غریب بے چارہ تو علاج کی خواہش لیے سرکاری ہسپتالوں میں ادھر سے ادھر چکر لگاتا ہی مر جاتا ہے، لیکن کوئی اس کا پرسان حال نہیں ہوتا۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.2 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے جبکہ ڈبلیو ایچ او کی تجویز کے مطابق حکومت پاکستان کو جی ڈی پی کا 5 فیصد صحت پر خرچ کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن میں ہوتے ہوئے تو صحت کی سہولتوں کے فقدان اور حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔ وہ تب یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد ملک میں صحت کی سہولتوں کے حوالے سے انقلابی اقدامات کیے جائیں گے‘ خاص طور پر سرکاری ہسپتالوں میں عام آدمی کو علاج معالجے کی تمام سہولتیں دستیاب ہوں گی لیکن کیا عملاً ایسا ہوا ہے؟ اگر آپ سچ پوچھیں تو اس سوال کا جواب 'نہیں‘ میں ملے گا۔
مئی 2020ء میں جاری ہونے والے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے، پنجاب میں 11کروڑ 12ہزار 442 افراد کی صحت پر 90 ارب 10 کروڑ خرچ کیے گئے۔ یعنی ایک فرد کی صحت کیلئے سالانہ 818 روپے 99پیسے اور ماہانہ 68روپے 25پیسے خرچ کیے گئے۔ آبادی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر آنے والے صوبہ سندھ نے اپنے 4 کروڑ 78 لاکھ 86 ہزار 51 شہریوں کی صحت پر 62 ارب 50 کروڑ خرچ کیے یعنی سالانہ 1305 روپے فی شہری اور ماہانہ 108 روپے 76 پیسے خرچ کیے۔ بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ 44 ہزار 408 افراد پر مشتمل ہے اور اس نے صحت کا بجٹ 15 ارب 20 کروڑ رکھا، یعنی سالانہ 1231 روپے 32 پیسے فی شہری اور ماہانہ 102 روپے 61 پیسے خرچ کیے۔ 2018-2019ء میں فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام نہیں ہوا تھا جس کے باعث کے پی نے اپنی3 کروڑ 52 لاکھ 3 ہزار 371 افراد پر مشتمل آبادی کیلئے 23 ارب 50 کروڑ روپے رکھے تھے۔ یوں خیبرپختونخوا نے سالانہ 769 روپے 90 پیسے فی فرد جبکہ ماہانہ 64 روپے 15 پیسے خرچ کیے۔ اسلام آباد کی بات کریں تو وفاق نے گزشتہ مالی سال صحت کے شعبے میں 12 ارب 40 کروڑ خرچ کیے جو وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کے علاوہ وفاق کے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقوں کیلئے بھی تھے۔
کورونا کے بعد ڈینگی نے حکومتی کارکردگی کے حوالے سے مزید سوال پیداکر دیے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اس حوالے سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے تو یہاں تک کہا ہے کہ پنجاب میں ڈینگی کی وبا پھیلنے کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے جس کی نشاندہی خود محکمہ صحت کی اپنی ایک رپورٹ نے کی۔ رواں سال ڈینگی مہم کا حکم اس وقت جاری ہوا جب اموات ہونا شروع ہو گئیں۔
عوام حکومت پر بھروسہ کریں یا اپوزیشن کا اعتبار، سچ یہ ہے کہ ہر پاکستانی کو مناسب علاج کی سہولت دستیاب ہونا اس کا آئینی اور بنیادی حق ہے۔