آج کل آڈیو لیکس کا موسم ہے۔ کچھ سیاسی اور کچھ غیر سیاسی شخصیات کی آڈیو لیکس منظر عام پر آ رہی ہیں۔ شنید ہے کہ اس آڈیو پت جھڑ کے بعد ویڈیوز کی بہار بھی آنے والی ہے۔ بہرکیف ابھی جو آڈیو لیکس سامنے آئی ہیں اور اس سے قبل ماضی قریب میں جج ارشد ملک صاحب کی جو ویڈیو سامنے آئی تھی‘ اس سے پاکستان کے اندر موجود نظام‘ چاہے وہ سیاسی ہو یا نظام عدل‘ پر عام آدمی کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ اور شاید وہ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہو گا کہ آیا یہ سارا نظام ایک خاص طبقے اور چند لوگوں کے تحفظ یا انہیں زک پہنچانے کے لیے ہی کھڑا کیا گیا ہے؟ لیکن شاید ایسی باتیں اب ارباب اختیار کے کان پر جوں بن کر بھی نہیں رینگتیں۔
ان آڈیو لیکس کی بنا پر سیاسی محاذ سردیوں میں ہی گرم ہو گیا ہے اور لگتا یہ ہے کہ کھیل آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف نے اپنی پارٹی کو ہدایت کر دی ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کو ہر فورم پر اٹھایا جائے اور تمام سیاسی جماعتوں سے اس سلسلے میں رابطے کیے جائیں۔ یہ آڈیو لیکس شاید پاکستان کی سیاست کے مستقبل کا منظرنامہ تشکیل دینے کی طاقت رکھتی ہیں اور اسی بنا پر نواز شریف نے پارٹی کو اس حوالے سے متحرک ہونے کی ہدایات کی ہیں۔ اس کا ایک مظہر گزشتہ دنوں مریم نواز شریف کی دھواں دھار پریس کانفرنس کی صورت میں سامنے آیا‘ جبکہ دوسری طرف وزرا بشمول وزیر اعظم بھی جوابی حملے کر رہے ہیں۔ اگر مریم نواز سابق چیف جسٹس کی مبینہ آڈیو کا ذکر کرتی ہیں تو وزرا جوابی پریس کانفرنس میں مریم نواز کی ٹی وی چینلز کو اشتہارات کی بندر بانٹ کے حوالے سے لیک آڈیو پر سوالات کھڑے کرتے ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے تو اس حوالے سے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کر دی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ چند دنوں میں منظر عام پر آ جائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ اس حوالے سے کارروائی بھی ہو گی کیونکہ معاملہ اپوزیشن کی ایک بڑی شخصیت کا ہے۔ اگر یہی رپورٹ پٹرول، چینی، گیس یا آٹا بحران اور اس کے کرداروں کے بارے میں ہوتی تو یقیناً چند دن کے واویلے کے بعد فائلوں کی الماری میں گرد جمع کر رہی ہوتی۔
جسٹس (ر) ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیکس کی بات کروں یا مریم نواز کی اس آڈیو لیکس کی‘ جس کا اعتراف وہ میڈیا کے سامنے خود کر چکی ہیں کہ اس آڈیو میں سنی جانے والی آواز انہی کی ہے۔ اس اعتراف کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے کس بنا پر اور کس اختیار کے تحت مختلف ٹی وی چینلز کے اشتہارات بند کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ کیا ان کو آئینی اور قانونی طور پر کسی بھی طرح سے یہ حق حاصل تھا؟ کیا وزیر اعظم پاکستان کی صاحبزادی ہونے کی بنا پر ان کو از خود یہ اختیار مل گیا تھا کہ نہ صرف وہ وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھ کر ایک میڈیا سیل چلائیں بلکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو دئیے جانے والے اشتہارات کا فیصلہ میرٹ کے بجائے اپنی ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر کریں‘ یعنی حکومت کی تعریفیں کرنے والے اداروں کو تو عوام کے ٹیکسز سے اکٹھے کئے جانے والے پیسے سے نواز دیا جائے اور عوامی ایشوز کو سامنے لانے یا حکومت پر تنقید کرنے والے اداروں کے لیے سرکاری اشتہارات کے دروازے بند کر دئیے جائیں۔ مریم نواز کے اس اعتراف کے بعد قانونی طور پر ان کے خلاف کیا ایکشن لیا جائے گا یا اس اعتراف کے بعد ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا یا نہیں؟ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا، لیکن عوام یہ بات جاننے کے حوالے سے ضرور حق بجانب ہیں کہ کیا مریم نواز وہ واحد سیاسی شخصیت ہیں جو بغیر کسی عہدے اور بغیر کسی منصب کے یہ فریضہ انجام دیتی رہی ہیں یا دیگر حکومتوں اور جماعتوں‘ بشمول تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی‘ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟
اب کچھ بات دوسری آڈیو کے حوالے سے کر لیتے ہیں۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ سیاسی ایشوز سے جڑے قانونی معاملات کے بھی ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک قانونی اور دوسرا سیاسی۔ قانونی پہلو کی بات کریں تو قانونی ماہرین کے مطابق سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اگر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے عدالت میں یہ آڈیو ریکارڈنگ بطور شہادت پیش کرتے ہیں، اور عدالت بطور ثبوت اس کو قبول کرنے کی غرض سے اس کی تصدیق کے لیے تحقیقات کا حکم دیتی ہے اور پھر ان تحقیقات کے نتیجے میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار کی یہ گفتگو اصلی ہے تو اس آڈیو سے میاں نواز شریف اور مریم نواز کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف اسی بنیاد پر جسٹس (ر) ثاقب نثار کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ نہ تو جن پر الزام آیا ہے یعنی جسٹس ثاقب نثار صاحب، انہوں نے ابھی تک اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہے، اور نہ ہی وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم‘ جن کی انتخابات میں جیت کو متنازع بنایا گیا ہے، نے عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نہ ہی تیسرے فریق‘ جس کو ممکنہ طور پر اس سارے معاملے میں ریلیف مل سکتا ہے، یعنی مسلم لیگ ن اور اس کے قائد میاں نواز شریف اور مریم نواز‘ نے کسی عدالت رجو ع کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی سطح پر اس معاملے میں سامنے آنے والے تمام فریقوں کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ میری نظر میں تو اب تک ان سب فریقوں کو عدالت سے رجوع کر لینا چاہیے تھا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
اب جہاں تک اس معاملے کے سیاسی پہلو کی بات ہے تو پاکستانی سیاست کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں ثبوتوں کے بجائے پرسیپشنز کی بنیاد پر رائے بنتی ہے۔ کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے، کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے‘ حقیقت یہی ہے کہ ایک تسلسل کے ساتھ ایسی چیزیں منظر عام پر آرہی ہیں جن سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف آنے والا فیصلہ متنازعہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کا فائدہ یقینی طور پر مسلم لیگ ن کو پہنچے گا۔
جو صحافی یہ آڈیو سامنے لایا اس کا کہنا ہے کہ بطور ایک رپورٹر، اس نے بھی اس آڈیو ریکارڈنگ کو پہلے شک کی نگاہ سے دیکھا کہ اس میں موجود آواز انہی صاحب کی ہے جن کا نام لیا جا رہا ہے اور کیا کسی بھی حوالے سے اس میں کوئی ٹیمپرنگ تو نہیں کی گئی؟ کیونکہ اس میں بہت ہی اہم اداروں اور شخصیات کا ذکر تھا اور یہ بات بڑی واضح تھی کہ ایسی کوئی بھی خبر سامنے آنے سے قانونی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے انہوں نے پہلے اس آڈیو ریکارڈنگ کا ایک مستند امریکی فرم سے فرانزک کرایا گیا اور اس کی مصدقہ رپورٹ کے ساتھ سٹوری شائع کی۔ واللہ اعلم۔
اب یہ ذمہ داری ان فریقوں پر عائد ہوتی کہ وہ یا تو اس آڈیو لیکس کے حوالے سے وضاحت کریں یا پھر قانونی کارروائی کے لیے آگے بڑھیں۔