منگل کے روز ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے تمام وزرا کو پاکستان میں رہنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کابینہ کو یہ حکم دیا کہ حکومت کو مختلف طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے لہٰذا کوئی بھی وزیر ملک سے باہر نہ جائے۔ کابینہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ آئندہ تین ماہ بہت اہم ہیں، ملک کو معاشی بحرانوں کا سامنا ہے، ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تین ماہ کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، ایسی صورتحال میں کوئی بھی وزیر غیر ضروری بیرونی دورے کا پروگرام نہ بنائے، تمام وزرا اپنی اپنی وزارتوں میں رہیں۔
وفاقی کابینہ کے معمول کے اجلاس کے بعد جب یہ خبر سامنے آئی تو اس حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا۔ صحافی، سیاسی تجزیہ کار، مختلف سیاسی رہنما حتیٰ کہ عوامی سطح پر بھی اس حوالے سے کئی چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ ہر کوئی اس حوالے سے اپنی اپنی رائے کا اظہار کرنے لگا۔ کسی نے کہا کہ وزیر اعظم نے وزرا کو بیرون ملک دوروں پر جانے سے منع کر کے بہت مستحسن قدم اٹھایا ہے۔ ملک کی بگڑتی اور کمزور معاشی صورت حال کا تقاضا یہی تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے کچھ کارکنوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کپتان کو یہ فیصلہ بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ ہمارے بہت سارے وزرا کے بیرونی دوروں پر جانے کا مقصد اہم سرکاری مصروفیات سے زیادہ سیر و تفریح کا پروگرام ہوتا ہے۔ دوسری طرف بعض سیاسی تجزیہ کاروں اور حکومتی ناقدین نے اس فیصلے کو تبدیلی سرکار کے لیے بڑھتے ہوئے خطروں کی ایک گھنٹی قرار دیا۔ انہیں ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کا یہ فیصلہ صرف اور صرف معاشی صورتحال کی خرابی کے باعث نہیں، بلکہ ملک میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کے باعث ہے۔ حکومت کو آنے والے دنوں میں اپوزیشن کی طرف سے ممکنہ طور پر وزیر اعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کا اندیشہ ہے۔ تمام وزرا کی ملک میں حاضری انہی خطرات سے نمٹنے کے لیے لازمی بنائی گئی ہے جبکہ غیر جانبدار حلقوں کے مطابق اس فیصلے کے بعد وفاقی حکومت نے خود اپنے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کی صورتحال پیدا کر دی ہے جس سے سیاسی طور پر حکومت کی کمزوری بھی ظاہر ہوتی ہے۔
وفاقی وزرا کے بیرونی دوروں پر پابندی کے پیچھے وجہ کچھ بھی ہو، حکومتی وزرا اور اپوزیشن کے ترجمان اس حوالے سے جو کچھ بھی کہتے پھریں‘ اور طرح طرح کی توجیہات کیوں نہ پیش کی جائیں‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں راوی حکومت کے لیے سب چین نہیں لکھ رہا۔ سیاست کی بات کریں تو اپوزیشن اپنے تئیں احتجاج کر رہی ہے۔ کبھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کوئی جلسہ کیا جا رہا ہے اور کہیں پر جماعت اسلامی کوئی دھرنا دے رہی ہے۔ کہیں پیپلز پارٹی اپنا شو لگا رہی ہے اور کہیں پر مولانا فضل الرحمن حکومت کو للکارتے نظر آتے ہیں۔ یوں کہیے کہ کراچی سے لے کر پشاور تک اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لے کر کوئٹہ تک عجیب سی بے چینی ہے۔ یہی نہیں ایک طرف اسلام آباد میں آل پاکستان انجمن تاجران فکسڈ ٹیکس کے خلاف سراپا احتجاج ہے تو دوسری طرف کراچی میں نسلہ ٹاور کے متاثرین اپنے حق کیلئے لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
ملک کی معاشی صورتحال اور حکومت کو معاشی میدان میں چیلنجز کے حوالے سے بات کریں تو مہنگائی نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے حکومت کو جس طرح سے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے اس کا اثر براہ راست عوام پر پڑتا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث بعض علاقوں میں لوگ لکڑیاں جلا کر کھانا پکانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بات کہیں پہ رکتی نظر نہیں آتی۔ سوئی ناردرن گیس کی جانب سے اوگرا کو گیس کی قیمتوں میں 150 فیصد اضافے کی درخواست دی گئی ہے۔ یہ کالم تحریر کرتے وقت اوگرا میں اس حوالے سے سماعت جاری ہے۔ اب اگر آج گیس کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ ہو جاتا ہے تو عوام، جو سردیوں میں پہلے ہی گیس نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں، کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ یہ بات سچ ہے کہ حکومت کو درپیش مسائل میں سے کئی چیزوں کا تعلق بیرونی عوامل سے ہے‘ لیکن یہ بات بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس ساری صورتحال کو اس نہج تک پہنچانے میں بہت سے اندرونی عوامل بھی کارفرما ہیں۔ تحریک انصاف کا حکومت میں آنے سے پہلے کسی قسم کا ہوم ورک نہ ہونا، پروفیشنلز کی کمی اور سب سے بڑھ کر بیڈ گورننس، کچھ ایسی چیزیں ہیں کہ جن کے باعث کپتان کی حکومت، نہ تو عوام سے کیے گئے وعدے پورے کر سکی اور نہ ہی اپنے اہداف حاصل کر سکی۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزرا ملک کی بگڑتی معاشی صورتحال کی ذمہ داری اکثر اوقات کورونا کی وبا پر ڈالتے نظر آتے ہیں۔ اس بات سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کورونا نے پوری دنیا کی معاشی صورتحال میں بگاڑ پیدا کیا ہے اور اس کے اثرات پاکستانی معیشت پر مرتب ہوئے ہیں‘ لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ کورونا کی وبا سے پہلے ہی ڈبل ڈیجٹ میں پہنچ چکا تھا۔ اب اگر بات کورونا کے حوالے سے چل ہی نکلی ہے تو کورونا فنڈز میں ہونے والی بے ضابطگیاں بھی حکومتی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ حکومت نے معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر لینے کا معاہدہ کیا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مابین اس حوالے سے معاہدہ طے پا گیا ہے‘ اور یہ رقم سٹیٹ بینک میں جمع کروا دی جائے گی‘ لیکن جن شرائط پر یہ معاہدہ کیا گیا ہے‘ اس نے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ ''معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی عرب کی طرف سے پہلی مرتبہ اس طرح کی کڑی شرائط پیش کی گئی ہیں، جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان تجزیہ کاروں کے مطابق یہ شرائط 100 فیصد کمرشل بنیادوں پر ہیں۔ ان شرائط کے مطابق اگر پاکستان آئی ایم ایف کی رکنیت چھوڑتا ہے تو بھی ڈیفالٹ ہو گا، اگر کسی پے منٹ کی ادائیگی نہیں کر پاتا تو بھی ڈیفالٹ ہو گا۔ یہاں تک کہ شرح سود کی ادائیگی نہ کر سکنے کی صورت میں بھی اسے ڈیفالٹ سمجھا جائے گا‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سعودی عرب کبھی بھی 72 گھنٹے کا نوٹس دے کر اس قرضے کی واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہے‘‘۔
اس ساری صورتحال کو ملکی سیاسی صورتحال سے ملا کر دیکھیں تو جو سیاسی منظرنامہ بنتا ہے وہ کم از کم مجھ جیسے صحافی اور تجزیہ کار کیلئے کچھ زیادہ خوش کن نہیں۔ پچھلے چند ہفتوں میں ایک سابق چیف جسٹس کی مبینہ آڈیو، ایک سابق چیف جج کا مبینہ حلفیہ بیان، اپوزیشن رہنمائوں کی مبینہ آڈیو اور ویڈیو کے سکینڈلز کے بعد مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں جاری موجودہ 'سٹیٹس کو‘ مزید دو سال تک قائم نہیں رہ سکتا۔ ان حالات کو دیکھ کر بعض اوقات خوف بھی آتا ہے، تبدیلی کیسے آئے گی؟ یہ بہت اہم اور بڑا سوال ہے جس کا جواب فی الحال شاید مجھ سمیت کسی کالم نویس اور تجزیہ کار کے پاس نہیں۔