انسان زندگی میں کئی طرح کے حادثات اور سانحات سے گزرتا ہے‘ وقت ہر زخم بھر دیتا ہے‘ انسان کو صبر بھی آجاتا ہے لیکن کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کو مرتے دم تک نہیں بھلایا جا سکتا۔ 16 دسمبر کا دن ہم پاکستانیوں کی زندگی میں کچھ ایسی ہی تلخ یادیں رکھتا ہے۔ 16دسمبر 1971ء کو پاکستان دو لخت ہوا‘ پوری قوم آج تک اس کا غم محسوس کرتی ہے‘ پھر 2014ء میں 16 دسمبر کے روز پشاور میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔آرمی پبلک سکول کا سانحہ ایک ایسا ہی دکھ ہے جو تاعمر ساتھ رہنے والا ہے۔ سانحہ اے پی ایس کی بات کرتے ہوئے آنکھیں آج بھی پر نم ہو جاتی ہیں۔ اس حملے میں 8 سے 18 سال کی عمر کے 132 طلبہ اور سکول کے عملے کے 17 افراد شہید ہوئے۔ اس واقعے کے بعد پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کو مزید تیز کردیا ‘ اُس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف نے ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کا اعلان کیا۔ ملکی سیاسی قیادت کے ساتھ اتفاق رائے سے 20 نکات پر مشتمل ایک نیشنل ایکشن پلان پیش کیا گیا۔ دہشت گردوں کو سزائیں دلانے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں ‘ سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد غیر علانیہ پابندی بھی اٹھائی گئی ‘ لیکن سانحہ آرمی پبلک سکول کے شہید طلبہ اور دیگر افراد کے لواحقین آج بھی انصاف کے متلاشی ہیں۔ متاثرین نے تحقیقات کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا۔ فروری 2018ء میں پشاور ہائیکورٹ نے سانحہ اے پی ایس میں خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو پولیس تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم جاری کیا۔ دہشتگردانہ حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کی جانب سے اپریل 2018ء میں دائر کی گئی درخواست پر اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کو نوٹسز جاری کیے۔ 5 اکتوبر 2018ء کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا تحریری حکم جاری کردیا۔ 14 اکتوبر 2018ء کو پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں سانحہ اے پی ایس کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن تشکیل دیا۔ کمیشن کے قیام کے تقریباً دو سال بعد جون 2020ء کے آغاز میں کمیشن نے اپنی کارروائی مکمل کرلی۔ کمیشن کی جانب سے سانحہ میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین سمیت 135 سے زائد افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ کمیشن کے ارکان نے پاک فوج‘ پولیس اور سی ٹی ڈی کے اعلیٰ افسروں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے۔ 9 جولائی 2020ء کو کمیشن نے سربمہر رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرادی۔ 4 اگست 2020ء کو سانحہ اے پی ایس سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر اٹارنی جنرل کو حکومت سے ہدایت لینے کا حکم دیا۔ اس موقع پر والدین کی جانب سے انصاف کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ پہلے دن سے انصاف مانگ رہے ہیں لیکن ابھی تک انصاف نہیں ملا‘ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں والدین سے بے حد ہمدردی ہے‘ اب کیس سپریم کورٹ کے پاس ہے‘ والدین کو انصاف ضرور ملے گا۔ 25 ستمبر 2020ء کو سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ اور اٹارنی جنرل کے کمنٹس کو پبلک کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اوپر سے کارروائی کا آغاز کریں‘ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچ سکیں۔ عدالت میں موجود شہید بچوں کے والدین نے کہا کہ یہ واقعہ دہشتگردی نہیں ٹارگٹ کلنگ تھی‘ ہمارے بچے واپس نہیں آسکتے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ کسی اور کے بچوں کے ساتھ ایسا واقعہ نہ ہو‘ ساری عمر نیچے والوں کا احتساب ہوا‘ اس واقعے میں اوپر والے لوگوں کو پکڑا جائے‘ جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کو ہم چلائیں گے۔ عدالتی حکم پر سانحہ کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ پبلک کردی گئی جس میں سانحہ آرمی پبلک سکول کو سکیورٹی کی ناکامی قرار دیا گیا تھا۔ رپورٹ کے خلاصے میں کہا گیا کہ ہماری شمال مغربی سرحد بہت غیر محفوظ ہے جہاں سے حکومتوں کے مابین اور بین الاقوامی سمجھوتوں کے تحت مہاجرین کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ ان حقائق کے باوجود انتہا پسند عناصر کو مقامی آبادی کی طرف سے مدد فراہم ہونا ناقابلِ معافی جرم ہے‘ جب اپنا ہی خون دغا دے تو ایسے ہی تباہ کن سانحات رونما ہوتے ہیں۔ ایسے عناصر کی وجہ سے نہ صرف محدود وسائل میں کیے گئے سکیورٹی انتظامات ناکام ہوتے ہیں بلکہ دشمن کو اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی ایجنسی افرادی قوت‘ انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے کتنے ہی وسائل کیوں نہ رکھتی ہو ایسے واقعات روکنے میں ناکام ہو جاتی ہے‘ جب اندر سے ہی مدد فراہم کی گئی ہو۔ رپورٹ میں سانحہ کو سکیورٹی کی ناکامی قرار دیا گیا۔ تین ہزار صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا کہ غداری کے سبب سکیورٹی پر سمجھوتہ ہوا اور دہشتگردوں کا منصوبہ کامیاب ہوا‘ دہشتگردوں کو مقامی افراد کی طرف سے ملنے والی سہولت کاری ناقابلِ معافی ہے۔ حملے میں شہید بچوں کے والدین نے عدالت سے سابق آرمی چیف ‘سابق ڈی جی آئی ایس آئی‘ سابق وزیرِ داخلہ و دیگر حکام پر مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی۔
گزشتہ ماہ سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر وزیراعظم عمران خان عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت کے روبرو انہوں نے کہا کہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں‘ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے‘ آپ حکم کریں‘ ہم ایکشن لیں گے۔ دوران سماعت وزیراعظم نے جج صاحبان سے مکالمے میں کہا کہ بچوں کے والدین کو اللہ صبر دے گا‘ میں پہلے بھی ان سے ملا تھا اب بھی ملوں گا‘ یہ بھی پتہ لگایا جائے کہ 80 ہزار جانوں اور 480 ڈرون حملوں کا ذمہ دارکون ہے۔ اس پر چیف جسٹس صاحب نے وزیراعظم عمران خان سے استفسار کیا کہ وزیراعظم آپ ہیں‘ یہ پتہ لگانا آپ کا کام ہے‘ بطور وزیراعظم ان سارے سوالوں کا جواب آپ کے پاس ہونے چاہئیں۔ بینچ کے رکن جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دئیے کہ وزیراعظم صاحب ہمارا کوئی چھوٹا ملک نہیں‘ دنیاکی چھٹی بڑی آرمی ہماری ہے‘ آپ مجرمان کو مذاکرات کے لیے میزپر لے آئے‘ کیاہم ایک بار پھرسرنڈر ڈاکیومنٹ سائن کرنے جارہے ہیں؟ جسٹس قاضی امین صاحب نے حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مبینہ مذاکرات کی جانب اشارہ کیا تھا‘ کوئی ایک مہینہ سیزفائر بھی رہا لیکن اسی ہفتے مسلسل دو دن پولیو ٹیموں پر حملے ہوئے جو سیزفائر ختم ہونے کی شہادت ہے۔ کچھ لوگ ان حملوں میں بھی مارے گئے‘ یہ خبر بھی ایک روایتی انداز میں آن ائیر ہوئی لیکن وہ بھی کسی ماں کے بچے ہوں گے۔ سانحہ اے پی ایس کے متاثرین جب پچھلے مہینے سپریم کورٹ پہنچے تو وہاں ایک بچے کی ماں سے اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے بات کی تھی۔ اس ماں کا کہنا تھا کہ سانحہ اے پی ایس کے وقت ایک اعلیٰ افسر نے ان سے کہا تھا کہ کیا ہوا جو آپ کے بچے شہید ہوگئے اور پیدا کر لو۔ اسے نہیں پتہ کہ کیا یہ سب کچھ اتنا ہی آسان ہے۔ یہ بات کرتے ہوئے اُس ماں کی آنکھوں میں آنسوؤں اور اس کی آواز کا کرب کتنا تھا یہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا۔ آج پھر 16 دسمبر ہے اور میرے ذہن میں یہ الفاظ گونج رہے ہیں‘ نہ جانے اور کتنی مائیں جن کے بچے پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے وہ بھی اپنے دل میں یہی سوال لیے بیٹھی ہوں گی کی کیا بچہ پیدا کرنا اتنا آسان ہے؟