"IYC" (space) message & send to 7575

شطرنج کا کھیل اور سیاسی بساط

شطرنج، صد رنج ہے۔ زندگی کی بساط پر تو گزرتا وقت ہی کھلاڑی ہے۔ اپنی مرضی سے مہروں کو ان کی چال کے مطابق ایک خانے سے دوسرے خانے میں منتقل کرتا ہے۔ بساط اگر سیاست کی بچھی ہو تو اس میں رنج اور بھی زیادہ ملتے ہیں۔ ایک چال غلط ہوئی تو اپنا سب سے قابل بھروسہ مہرہ ہی دغا باز ثابت ہوتا ہے۔ سیاسی بساط پر کل تک جن کے ہاتھ میں چال تھی اب نہیں رہی۔ اقتدار اور اختیار بعض اوقات واہمہ ہوتے ہیں، جہاں ہم دیکھ یا سمجھ رہے ہوتے ہیں وہاں نہیں ہوتے، ان کا منبع و مرکز کہیں اور ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثال شطرنج کا برائے نام بادشاہ ہے جس کی چال محض چار خانوں تک محدود ہے۔ وہ بساط پر بادشاہ تو ہے لیکن لاچار، خود کو مضبوط مہروں کے درمیان قلعہ بند رکھنے پر مجبور، ذرا ان کے تحفظ کی چھاؤں سے نکلے‘ مخالف فوری شہ دینے پہنچ جاتا ہے۔ ایسے میں بادشاہ کے آس پاس موجود مہروں کا کردار بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ بظاہر عام سے نظر آنے والے بعض مہرے بادشاہ کے ماتحت ہونے کے باوجود بادشاہ گر ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مہروں کی بات کریں تو فرزین سب سے طاقت ور مہرہ ٹھہرتا ہے۔ اس کی چال، زد اور مار بساط کے ہر گھر اور ہر رخ ہوتی ہے۔ کپتان کا فرزین بساط پر ایسے خانوں میں مقید ہے کہ ان کی مدد کو نہیں پہنچ پارہا۔ شطرنج کے کھیل میں ''چیک میٹ‘‘ ایک ایسی چال کہلاتی ہے جس میں مخالف کھلاڑی کے بادشاہ کے پاس فرار کا راستہ بھی نہ بچے، لیکن وہ مر بھی نہ رہا ہو۔ کچھ یہی صورتحال پاکستانی سیاست میں بچھی تحریک عدم اعتماد کی بساط پر نظر آتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کے کھلاڑی ایک دوسر ے کے بادشاہ کو مارنے کے بلند بانگ دعوے تو کررہے ہیں ، لیکن ابھی تک یہ دعوے زبانی کلامی اور سنگین بیان بازی کے گرد ہی گھوم رہے ہیں، جو سیاسی فضا کو مزید مکدر کرنے کے علاوہ ملک میں غیر یقینی کیفیت کو بڑھا رہے ہیں۔
سیاسی بساط پر نظر دوڑائیں تو اپوزیشن جماعتیں کھیل کو اس نہج پر لے جارہی ہیں کہ کپتان کو شہ مات دے دیں۔ کپتان کے پاس اب بھی اس بساط پر پیدل، ہاتھی، رخ اور گھوڑے موجود ہیں‘ اور کپتان پراعتماد ہیں کہ اپنے ہاتھ میں موجود ان مہروں سے کوئی ایسی چال چلیں گے کہ بازی پلٹ دیں گے۔ کھیل جب آخری مراحل کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے تو بساط پر ایک دوسرے کے مہرے مار گرانے میں تیزی آجاتی ہے۔ اپوزیشن ان ساڑھے تین سالوں میں اپنے مہروں کی قربانیاں دیتی آئی ہے۔ کپتان جن مہروں کے سہارے اب تک بساط پر مضبوطی سے کھڑے تھے ان میں سے اکثر ساتھ چھوڑتے نظر آتے ہیں۔ اب اپوزیشن کی جانب سے گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اور کپتان کے مہرے گرائے جارہے ہیں۔ سیاسی بساط پر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی چال کے بعد سے ماحول کشیدہ ہوچکا ہے۔ حکومت نے اس وار کو روکنے کیلئے دس لاکھ لوگوں کے ساتھ شہر اقتدار میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کپتان اور ان کی ٹیم حزب مخالف کو للکار رہی ہے، عدم اعتماد کے ووٹ کیلئے پارلیمنٹ جانا ہے تو عوام کے اس سمندر سے گزرنا ہوگا۔
10 لاکھ کا مجمع لگانے کے جواب میں 20 لاکھ کا مجمع لانے کے اعلانات ہوں، تین چوہوں پر بندوق کی ''نشست‘‘ باندھنے کی بڑھک ہو، منحرفین کے گھیرائو کی دھمکی ہو یا کون مائی کا لعل ہے جیسے جملے... ایسے بچگانہ رد عمل سے سیاسی جماعتیں اس تاثر کو مضبوط کررہی ہیں کہ قومی سیاسی جماعتیں، سیاسی ایشور کو سنجیدہ انداز میں نمٹانے کے بجائے، اُنہیں دھونس دھاندلی جیسے غیر جمہوری طریقے سے حل کرنے کی خواہاں ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ اپوزیشن، افراتفری کا ماحول پیدا کرکے سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوششیں کرتی ہے، مگر ہمارے ہاں اس وقت اقتدار کی مسند پر بیٹھے ہوئے حکمران اپوزیشن کا کردار نبھا رہے ہیں۔ ملک عزیز میں حالیہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے بھی دو مرتبہ قومی اسمبلی میں یہ کام کیا جا چکا ہے۔ 1989ء میں اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور 2006ء میں وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلا ف تحریک عدم اعتماد لائی جا چکی ہیں۔ شور شرابہ تو اس وقت بھی بہت ہوا مگر اس درجے کی گرما گرمی دیکھنے کو نہیں ملی۔ ان تحریکوں پر ایوان کے اندر رولز کے مطابق ووٹنگ ہوئی اور معاملہ ختم ہوگیا۔ لیکن اب کی بار تبدیلی سرکار جو رویہ اپنائے ہوئے ہے اور جلسوں میں خطاب کرتے ہوئے کپتان نے جن الفاظ میں اپوزیشن کو لتاڑا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ وزیر اعظم کی جانب سے ''نیوٹرل‘‘ کی نئی تعریف اور آرمی چیف کی جانب سے اپوزیشن کے نام نہ بگاڑنے کے مخلصانہ مشورے کے جواب میں ''ڈیزل‘‘ کا لفظ کم از کم 12 مرتبہ دہرایا جانا، بقول شخصے اس عمل نے حکومت اور ادارے کے درمیان آنکھ کا پانی بھی مار دیا۔
اپوزیشن نے بھی 23 مارچ کو اپنے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دے دی ہے۔ او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کے دوران قافلے شہر سے باہر رکیں گے۔25 مارچ کی شام اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔ سیاسی بساط کی آخری لڑائی کے لیے شہر اقتدار میں ہی میدان لگنے جا رہا ہے۔ تصادم اور انتشار کا خدشہ اپنی جگہ موجود ہ ہے اور یہ دھڑکا بھی لگا ہے کہ کہیں بساط مکمل ہی نہ لپیٹ دی جائے۔ کپتان بہت جارحانہ موڈ میں نظر آرہے ہیں تو اپوزیشن بھی کسی طور پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں۔ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو مشورہ دیا ہے کہ اپنے اپنے جلسے منسوخ کردیں اور تصادم کی راہ اختیار کرنے سے گریز کریں۔
اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام، دونوں صورتوں میں کئی سوال پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔ پہلے ناکامی کے امکان پر بات کرلیتے ہیں۔ کپتان خبردار کرچکا ہے کہ جو لوگ ان کا شکار کرنے نکلے ہیں وہ خود شکار ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری اور شہباز شریف کو انہوں نے نشانے پر رکھ لیا ہے۔ ناکامی کی صورت میں اپوزیشن کو ممکنہ سختیوں کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو کیا ہوگا؟ اپوزیشن اپنے لائحہ عمل کا کچھ خاکہ واضح کرچکی ہے جس میں بنیادی نکتہ انتخابی اصلاحات کے ساتھ نئے الیکشن میں جانا ہے۔
سیاسی بساط کی سمجھ رکھنے والے طاقتور حلقوں کے بادشاہ گر پر نظر رکھتے ہیں۔ وہی بادشاہ گر سیاست کی بساط پر بادشاہ بٹھاتے ہیں، پھر اپنی مرضی سے ایک ایک خانہ چال چلتے رہتے ہیں۔ شاید اب کی بار بھی جو شہ مات ہونے جارہی ہے اس میں کلیدی چال بادشاہ گر ہی چل رہے ہیں۔ شیخ رشید صاحب انتہائی باخبر اور طاقتور حلقوں کے قریب سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے اپوزیشن کو قبل از وقت انتخابات کا آپشن دیا ہے۔ فواد چودھری بھی کہہ چکے ہیں کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے‘ ان کو کچھ دے دیں گے۔ اپوزیشن کو کیا دیا جائے گا اس بات کا اشارہ تو نہیں دیا؛ تاہم امکان ہے کہ مرکز میں تبدیلی روکنے کے لیے پنجاب میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اشارے یہی مل رہے ہیں کہ بساط پر چالیں آخری مرحلے کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ شاید تبدیلی کی تبدیلی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں