"IYC" (space) message & send to 7575

سلیکٹڈ حکومت Vs امپورٹڈ حکومت!

''سلیکٹڈ حکومت‘‘ کے بعد اب پیش خدمت ہے ''امپورٹڈ حکومت‘‘۔ویسے تو ہر اختتام کو ایک نئی شروعات کہا جاتا ہے، لیکن پاکستانی سیاست کا وتیرہ کچھ مختلف یوں ہے کہ یہاں ہر اختتام پرانی شروعات سے ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ جب افغان جہاد کے دوران ضیاالحق صاحب کو ضرورت محسوس ہوئی کہ پاکستان کو نئی عالمی حقیقتوں کے مطابق ڈھالنے اور نسبتاً قابل قبول چہرہ دینے کے لیے مارشل لائی نظام کو جمہوری لبادہ اوڑھایا جانا چاہئے تو غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں جونیجو سرکار قائم ہوئی‘ لیکن اٹھاون ٹو بی کے اختیار، غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن اور اسمبلی کا من پسند سپیکر منتخب کروانے کی ضد نے یہ عیاں کر دیا کہ اس جمہوری حکومت کے پاس کتنا اقتدار ہو گا اور یہ کتنا چل سکے گی‘ یعنی نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ایک طرح سے اس کو ناکام کرنے کی کوششوں کی بھی ابتدا کر دی گئی تھی۔
کچھ برس آگے بڑھتے ہیں تو بیوروکریٹ سے چیئرمین سینیٹ اور پھر ''حادثاتی‘‘ طور پر صدر مملکت بننے والے غلام اسحق خان کو جب طوہاً و کرہاً حکومت بے نظیر بھٹو کے حوالے کرنا پڑی تو بی بی کو مجبور کیا گیا کہ خارجہ امور اور معاشی معاملات پاکستان کے مستقل اداروں کے پاس رہیں گے۔ سونے پر سہاگہ اس حکومت کو ''آئی جے آئی‘‘ نامی ہائبرڈ اتحاد کے خلاف الیکشن لڑ کر اور پنجاب گنوا کر اقتدار لینا پڑا۔ 90 کی دہائی، سیاست میں اقتدار کی آنکھ مچولی اور پھر طویل مارشل لائی دور کے بعد 2008ء میں پیپلز پارٹی کو حکومت ملی تو انہیں ''کیانی ڈاکٹرائن‘‘ ورثے میں ملا ، یعنی حکومت کسی کی، اور سٹیئرنگ کسی اور کے ہاتھ میں۔ جب 2013ء میں اقتدار کی باگیں میاں نواز شریف کے ہاتھ میں آئیں اور وہ وزیر اعظم بن گئے تو عمران خان کی صورت میں ''تیسری سیاسی قوت‘‘ کا ایک مختلف phenomena دیکھنے کو ملا‘ لیکن کہانی وہی پرانی رہی، یعنی نئی حکومت کو ڈھنگ سے کام نہ کرنے دینا اور راستے میں بارودی سرنگیں پہلے ہی بچھا دینا۔ اب ظاہر ہے اس کے کچھ نہ کچھ تو نتائج نکلنے ہی تھے‘ سو وہ نکل رہے ہیں۔
2013 کے الیکشن کے بعد ابتدا میں سیاسی ماحول موافق لگا اور محسوس ہوتا تھا کہ معاملات ٹھیک انداز میں آگے بڑھتے رہیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف، عمران خان سے بنی گالہ جا کر ملے، ان کی فرمائش پر بنی گالہ کو جانے والی سڑک کی تزئین و مرمت بھی کروائی گئی۔ حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن کو ناراض کر کے خیبر پختون خوا کی حکومت اس اصول کے تحت پی ٹی آئی کے حوالے کی گئی کہ اکثریتی جماعت ہونے کے ناتے عمران خان کو صوبے میں حکومت بنانے کا حق حاصل ہے‘ لیکن 6 ماہ بعد ہی عمران خان کے تیور بدلنے لگے۔ انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کا نعرہ بلند کر کے حکومت کے خلاف مہم کا آغاز کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے مہم جوئی کی صورت اختیار کر گئی۔ اپنی حکومت کے قیام کے صرف ڈیڑھ سال بعد نواز شریف کو ملک میں 126 دن کے دھرنے برداشت کرنے پڑے‘ جس نے ملک کے سیاسی و معاشی استحکام کو بری طرح متاثر کیا۔
تجزیہ کاروں کو وہ پیٹرن یاد آنے لگا کہ کیسے 1988ء کے بعد سے کسی بھی حکومت کو چین سے کام نہیں کرنے دیا گیا‘ بلکہ اپوزیشن اور ریاستی اداروں کی قربت نے حکومت کو مشکل میں گھیرے رکھا۔ عمران خان نے نواز حکومت کو سیاسی و قانونی ہر محاذ پر چیلنج دیئے رکھا، حتیٰ کہ پانامہ لیکس نے، جس میں میاں نواز شریف کا براہ راست نام بھی موجود نہیں تھا، انہیں کلین بولڈ کر دیا۔ پھر آئے اگلے انتخابات اور عمران خان حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے، لیکن قومی اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں بلاول بھٹو نے انہیں سلیکٹڈ پرائم منسٹر کہہ کر ایک اور بیانیے کی داغ بیل ڈال دی۔ عمران خان پہلی دفعہ حکمران بنے تھے۔ نہ تو ان کے ساتھ کوئی کرپشن کا بیگیج تھا اور نہ ہی اداروں سے مخاصمت کی تاریخ، چنانچہ اپوزیشن‘ جسے شکوہ تھا کہ عمران حکومت کو اداروں کی غیر معمولی حمایت اقتدار میں لائی ہے، نے آغاز میں ہی انہیں منتخب کی بجائے چنیدہ قرار دے دیا‘ لیکن عمرانی دور میں کھیل ماضی کے مقابلے میں نئے رولز کے تحت کھیلا گیا۔ ''ایک صفحے‘‘ کی پالیسی نے تقریباً تیس سال تجربہ کار اور عددی لحاظ سے تگڑی اپوزیشن کو دیوار سے لگائے رکھا۔ طشتری میں تمام لوازمات کے ساتھ ملی حکومت میں عمران خان مخالفین کے خلاف کھل کر کھیلے، معاشی و خارجہ محاذ پر انہیں پدرانہ قسم کی ادارتی سرپرستی حاصل رہی۔
اپوزیشن یہ تماشہ بے بسی کے عالم میں کھڑی دیکھتی رہی، لیکن گزشتہ برس اکتوبر میں جب ایک صفحہ پھٹا تو اپوزیشن نے پھر اس پھٹے صفحے کو تاراج کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس سے کپتان کی تحریک انصاف پانچ سال مکمل کرنے والی مسلسل تیسری حکومت بننے کے اعزاز سے محروم ہونے کے بالکل قریب پہنچ چکی ہے‘ اور شاید اس کالم کی اشاعت تک محروم ہو بھی چکی ہو۔
تبدیلی سرکار کے ناقدین کے مطابق عمران حکومت کے دور میں مہنگائی، بے روزگاری اور بیڈ گورننس کے مسائل اس قدر عروج پر جا پہنچے کہ ان کے لیے اپنی حکومت کے پاس ڈیڑھ سال کا باقی مینڈیٹ پورا کرنا بھی مشکل ہو گیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس 5 سالہ مینڈیٹ کو کیوں پورا نہیں ہونے دیا، اس کا بہتر اور صحیح جواب تو مؤرخ ہی دے گا لیکن کچھ سوالات کے جواب جلد سے آنے کا امکان ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ''سلیکٹڈ‘‘ حکومت نے اپنے دن پورے کر کے جاتے جاتے ''امپورٹڈ حکومت‘‘ کے نام سے ایک نیا پروڈکٹ مارکیٹ میں پھینک دیا ہے۔ عمران خان نے اپوزیشن اتحاد کو غیر ملکی سازش قرار دے کر اقتدار کے ایوانوں کے نئے مکینوں کے راستے میں پہلے سے ہی بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں، جنہیں اب وہ اپنے جارحانہ احتجاج اور حکمت عملی سے باری باری پھوڑیں گے‘ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اقتدار اعلیٰ کی اس جنگ میں سب سے بڑے سٹیک ہولڈر یعنی عوام کا کیا قصور ہے؟ وہ کیوں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں یا ادارے، جب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں تو ڈھال کے طور پر عوام کی حالت زار کو ہی استعمال کیا جاتا ہے؟ اس سے طبقہ اشرافیہ کے اپنے مقاصد تو پورے ہو جاتے ہیں‘ لیکن عوام الناس اسی غربت، بے چارگی اور مسائل کی دلدل میں دھنسے رہتے ہیں جو گزشتہ سات دہائیوں سے اس کا مقدر ہے۔
حکومت سلیکٹڈ ہو یا امپورٹڈ... اس ملک کے اصل مالکوں کا بھی کوئی سوچے جو ازل سے کمی کمین کی طرح دور بیٹھے طبقہ اشرافیہ کی دھینگا مشتی دیکھ کر اتنے نڈھال ہیں کہ اب وہ کسی دائو پیچ پر ہلکی سی تالی یا سیٹی بجانے کے بھی روادار نہیں رہے۔ ان کی ملکی معاملات سے تیزی سے بڑھتی بے اعتنائی کوئی اچھا شگون نہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان ان کا تب بھی مسئلہ تھا اور اب بھی ہیں۔ خدارا کوئی ان کے بارے میں سوچے، ورنہ اس نظام سے ان کا رہا سہا اعتبار بھی اٹھ گیا تو پھر کوئی بھی نظام اس ملک کو نہیں چلا پائے گا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں