ہفتے کے روز وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے موقع پر پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے اسمبلی کی کارروائی شروع کی تو پہلے حکمران جماعت کی طرف سے اسمبلی کے اندر لائے گئے لوٹے لہرائے گئے اور پھر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے چند اراکین اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر پر حملے نے بہت سوں کے سر شرم سے جھکا دئیے ہیں۔ دوست محمد مزاری کو تھپڑ مارے گئے، ان کے بال نوچے گئے اور خوب گھسیٹا گیا۔
کہتے ہیں تاریخ خود کو دہراتی ہے اور مہذب قومیں اپنی غلطیوں سے سیکھ کر انہیں دہرانے سے اجتناب کرتی ہیں، لیکن نجانے کیوں ہم اپنی غلطیاں بار بار دہرا کر تاریخ کو بھی شرمندہ کر دیتے ہیں۔ جس طرح ڈپٹی سپیکر پر حملہ کیا گیا، ستمبر 1958ء میں مشرقی پاکستان کے ڈپٹی سپیکر بھی صوبائی اسمبلی کے سیشن کے دوران ایسی ہی ہنگامہ آرائی کا شکار ہوئے تھے۔ اس وقت اقتدار میں عوامی لیگ تھی جبکہ مسلم لیگ حزب اختلاف کا حصہ تھی۔ مسئلہ تب بھی یہی تھا کہ عوامی لیگ اسمبلی میں اکثریت کھو چکی تھی، اور شکست کے ڈر سے اس نے تشدد کا راستہ اپنایا۔ اسی اثنا میں ایک پیپر ویٹ ڈپٹی سپیکر شاہد علی کو آن لگا اور دو دن بے ہوش رہنے کے بعد وہ انتقال کر گئے۔ یوں اقتدار پر قابض رہنے کی یہ بے رحمانہ لڑائی‘ جس میں سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی، تمام روایات کو پامال کر دیا گیا تھا‘ اپنے افسوسناک انجام کو پہنچی۔ پھر اس واقعہ کی خبر دنیا بھر میں رپورٹ ہوئی جس نے ریاست پاکستان کی نوازئیدہ مملکت کے ماتھے پر ایسا کالا کلنک لگایا، جس کی نحوست آج تک ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ اسی واقعہ کے بعد، اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان نے مارشل لا لگانے کا حتمی فیصلہ کر لیا، اور یوں اکتوبر 1958ء میں ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کر دیا گیا، جس نے ملک کی سیاسی اٹھان اور تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا۔ جنرل ایوب اپنی سوانح عمری ''جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ میں اس قصے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ''اسمبلی نے سپیکر کو پاگل قرار دے دیا‘ اس کے بعد دنگا فساد ہوا‘ جس میں ڈپٹی سپیکر کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے‘‘۔
یعنی ملک بننے کے 11 سال بعد جو فاشسٹ رویہ ہماری سیاسی قیادت نے اپنایا تھا، اگر وہی رویہ 6 دہائیوں بعد بھی قائم ہے تو یہ باعث شرم ہے۔ ہم نے پہلے قومی اسمبلی میں دیکھا کہ کیا ہوا۔ اپنی اکثریت کھونے اور شکست کھانے کے ڈر سے سابق حکمران جماعت نے جس طرح آئین اور قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی، قومی اسمبلی تحلیل کی اور پھر سپریم کورٹ کے احکامات کو ''ٹالنے‘‘ کی کوشش کی جاتی رہی‘ وہ اب تاریخ کاحصہ بن چکا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ اُسی واقعہ کا ایک ''ری پلے‘‘ لگتا تھا کہ اسمبلی میں اکثریت ختم ہوتی دیکھ کر پی ٹی آئی اور ق لیگ نے تشدد کا راستہ اپنایا۔ اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوا‘ وہ سب نے دیکھا۔ دُوسری جانب ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ جمہوریت کی زبوں حالی کا یہ سفر صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں جاری ہے۔ جمہوری نظام‘ جو عوامی رائے دہی کے احترام کا نام ہے، جس میں برداشت، صبر اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے، جس میں اختلاف کو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے ایک متبادل حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، وہ اب سوشل میڈیا اور متبادل سچ کی اس دنیا میں کمزور پڑتا جا رہا ہے، یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ اس کی اقدار تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ جس طرح سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی شکست کے بعد جنوری 2021ء میں امریکی پارلیمان یا کیپٹل ہل پر حملہ کیا گیا، اس نے دنیا میں جمہوریت کے چیمپئن ہونے کی دعویدار ریاست کی قلعی کھول کر رکھ دی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی شکست کا تمام تر ملبہ ریاستی اداروں پر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس نے یہ بیانیہ سوشل میڈیا اور حامی ٹی وی چینلز کی مدد سے اس مہارت سے پھیلایا کہ آخرکار اس کے حامیوں کے جتھوں نے کیپٹل ہل کو مشق ستم بنا ڈالا، جس کے ٹی وی مناظر نے دنیا بھر کے ناظرین کو حیران کر دیا تھا۔
اسی واقعہ نے دنیا میں اس بحث کو آگے بڑھایا کہ اس وقت دنیا بھر میں لبرل جمہوریت کمزور ہو رہی ہے اور جمہوری اداروں پر لوگوں کا اعتماد بھی کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ آج جمہوری اقدار دباؤ میں ہیں، طاقت کا توازن بدل رہا ہے، معاشروں کو کمزور کرنے کے لیے پروپیگنڈے، غلط معلومات اور بدنیتی پر مبنی سائبر ٹولز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ آج سے 3 دہائیاں قبل، جب سرد جنگ ختم ہوئی تو ایسا لگتا تھا کہ اب آمریت اور مطلق العنان حکومتیں ماضی کا قصہ بن جائیں گی، اور 20ویں صدی کی نظریات کی عظیم جنگ آخرکار جمہوریت نے جیت لی ہے، لیکن آج دنیا بھر میں جمہوریت پہلے کے مقابلے میں کمزور تر ہو چکی ہے۔ مغربی ممالک اس کا الزام روس اور چین پر لگاتے ہیں‘ جہاں ان کے بقول آمرانہ حکومتوں نے بین الاقوامی آرڈر کو پیچھے دھکیل دیا ہے‘ لیکن دوسری جانب اگر ہم دیکھیں تو جاپان، جسے انسانی حقوق اور سیاسی آزادی کے حوالے سے دنیا کے ٹاپ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، کی پارلیمنٹ میں لاتیں، گھونسے چلنے اور گتھم گتھا ہونے کے واقعات عام ہیں۔ اسی طرح جنوبی کوریا کو ایشیا کی مستحکم ترین جمہوریتوں میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن شاید ہی کوئی ایسا سال وہاں گزرا ہو گا جب پارلیمنٹ میں لڑائی جھگڑے کے واقعات نظروں سے نہ گزریں۔ اسی طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت، مودی سرکار کے دور میں جس جنونی فاشزم کا شکار ہوکر شدت پسندی کی راہ پر گامزن ہے، وہ مثال عبرت ہے اور سبق آموز حقیقت بھی۔ نریندر مودی سے قبل بھی صورت حال یہی رہی کہ بھارت کے نصف پارلیمنٹیرینز پر جرائم کے الزامات رہے۔ یہی نہیں بلکہ تائیوان کی پارلیمنٹ میں بھی جھگڑوں کی طویل فہرست موجود ہے۔ 2016ء میں ترکی میں ایک متنازع قانون کے بعد جس طرح کا جھگڑا دیکھنے کو ملا وہ بھی بہت سے ناظرین کے یادداشتوں میں موجود ہے۔ اسی طرح نیپال، کوسوو، یوکرین اور سائوتھ افریقہ میں بھی پارلیمانی جھگڑوں کی ویڈیوز کی طویل فہرست یو ٹیوب پر موجود ہے۔ یعنی دنیا کے مہذب ترین ممالک سے لے کر کمزور ممالک تک جمہوری نظام کی قدریں گلوبل ولیج کے اس دور میں یکساں طور پر تبدیل ہو رہی ہیں۔ برداشت، جو جمہوریت کا حسن ہے، کی جگہ اب عدم برداشت، جمہوریت کا جھومر بنتی جا رہی ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں ہی دیکھیں تو حکومت کی حالیہ تبدیلی کے بعد جس طرح کی تقسیم اور عدم برداشت دکھائی دے رہی ہے، ماضی میں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ سیاسی قیادت خاص طور پر تحریک انصاف کی قیادت نے اس سیاسی صورت حال کو جس بیانیے میں ڈھالا ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے۔
"''آپ میرے ساتھ ہیں... یا میرے مخالف ہیں‘‘ جیسے رویے نے معاشرے میں تقسیم گہری کر دی ہے، اور اگر کہا جائے کہ ہم سول بدامنی کی جانب بڑھ رہے ہیں، تو بے جا نہ ہو گا۔ خدارا خود کو سنبھالیے، جمہوری زبوں حالی کو اس حد تک نہ لے جائیں کہ تباہی ہمارا مقدر بن جائے۔ ذاتیات سے اٹھ کر قومیت کی جانب آئیں اور سسٹم میں رہ کر سسٹم کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔