جو بات ماننے کی ہے وہ ماننی چاہئے۔ عمران خان‘ جنہیں اقتدار سے رخصتی کے بعد نہایت کمزور وکٹ پر ہونا چاہئے تھا، اس وقت مضبوط پوزیشن پر نظر آتے ہیں جبکہ حکومت اور دیگر تمام ادارے جنہیں ایک بہتر پوزیشن پر کھڑا ہونا چاہیے تھا‘ اس وقت بے بسی کے ساتھ ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں۔ عمران خان کے منہ زور بیانیے نے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ ریاست کے ان دائمی اداروں کو بھی نہیں بخشا جن پر یوں کھلے عام تنقید کا کوئی سیاستدان سوچ بھی نہیں سکتا۔ عمران خان نے جس خوبصورتی کے ساتھ مذہب کارڈ، اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی امریکہ کارڈز کی مدد سے اپنا بیانیہ ڈیزائن کیا، وہ زیادہ تر غیرمصدقہ باتوں، جھوٹ اور پروپیگنڈے پر مبنی ہے، لیکن لوگ‘ خاص طور پر نوجوان‘ اس پر یقین کررہے ہیں۔
روایتی سیاستدانوں کی داستانوں سے بیزار ان نوجوانوں کو عمران خان میں سیاستدان نہیں بلکہ کوئی مسیحا نظر آرہا ہے جو ان کے دلوں کے تعصبات کو ہوا دے کر یہ باور کروا رہا ہے کہ عمران خان ہی وہ واحد شخص ہے جو ''کرپٹ‘‘ سیاستدانوں، اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کو چیلنج کرسکتا ہے۔ ان لوگوں کو اب نہ عمران خان کی پونے چار سال کی بدترین حکومتی کارکردگی یاد ہے، نہ ان کے یوٹرنز اور نہ ہی سکینڈلز۔ جلسہ گاہ ہو یا سوشل میڈیا وہاں پر عمران خان ہی عمران خان ہیں، جو عرق ریزی اور اعتماد کے ساتھ جھوٹی سچی باتوں سے لوگوں کا دل موہ رہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے سیاسی مخالفین کا کائونٹر بیانیہ ناپید نظر آتا ہے۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ آخر پاکستان کے تاریخی سیاسی دھارے کو موڑنے میں عمران خان کیوں اور کیسے کامیاب ہوئے؟
سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اتحادی حکومت نہ بروقت درست فیصلے کر پارہی ہے‘ نہ ہی قوم کو عمران خان کا متبادل کوئی بیانیہ دے پائی ہے۔ شہباز شریف کے پاس بطور وزیراعظم سخت اور فوری فیصلے کرنے کے جو مواقع تھے وہ انہوں نے ضائع کردیئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتحادی جماعتیں اب اس گومگو کا شکار ہیں کہ وہ ریاست بچائیں یا اپنی سیاست۔ پٹرول پر سبسڈی کا معاملہ اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کے حوالے سے فوری فیصلے کی ضرورت تھی، اور یہ ''تجربہ کار‘‘ سیاستدان عمران خان کو اقتدار سے نکالنے سے قبل ہی دعوے کررہے تھے کہ ان کے پاس ملکی مسائل کے تمام تر حل موجود ہیں‘ اور حکومت میں آتے ہی وہ کم ازکم ملک کی سمت درست کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے‘ لیکن بدقسمتی سے ان تجربہ کار جماعتوں نے بھی وہی کیا جو عمران خان نے اقتدار میں آکر کیا تھا‘ یعنی معاشی محاذ پر فیصلے کرنے میں اس قدر تاخیر کہ جس کی سزا ہم موجودہ معاشی بحران کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور نون لیگ کے سینئر رہنما اب تک مسلسل عمران حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈیز پر تنقید کررہے ہیں اور حیرت در حیرت یہ کہ وہ خود بھی ان سبسڈیز کو جاری رکھے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے ملکی خزانہ اور قیمتی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے سکڑرہے ہیں۔ نون لیگ اس وقت موجودہ اتحادی حکومت کا چہرہ ہے اور اس کے بارے میں یہ تاثر عام تھاکہ وہی ملک کو مسائل کی اس دلدل سے نکال سکتی ہے، لیکن فیصلہ سازی میں تاخیر اور فیصلوں کیلئے لندن میں نواز شریف کی جانب سے دیکھنے سے نون لیگ کا تاثر عوام کی نظر میں تیزی سے بگڑرہا ہے۔ دوسری جانب ڈالر کی تیزی سے بلند ہوتی قیمت اور سٹاک مارکیٹ کی زبوں حالی یہ نشاندہی کررہی ہے کہ سرمایہ دار کو موجودہ نظام سے زیادہ امید نہیں۔
عمران خان اور ان کی پالیسیوں پر تنقید اپنی جگہ، کیونکہ ظاہر ہے پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دینے کا کارنامہ انہی کا ہے، لیکن اب تو حکومت بدل چکی، اب تو ہر گزرتا دن‘ جس میں فیصلے نہیں کئے جارہے، خزانے کواربوں روپے کا نقصان پہنچا رہاہے۔ ان اہم اور ضروری فیصلوں کیلئے نون لیگ کا اتحادی جماعتوں کی جانب دیکھنا وزیراعظم شہباز شریف کا اتحادی جماعتوں پر عدم اعتماد اور ساتھ ساتھ اقتدار لینے سے قبل مناسب ہوم ورک نہ کرنے کا اظہار ہے۔ دوسری جانب حکومت ابھی تک عمران خان کے متبادل کوئی بیانیہ دینے میں بھی ناکام نظر آرہی ہے۔ اپنی ماضی کی کارکردگی کے چند اشتہارات دینے سے پتہ چلتا ہے نون لیگ کی بزرگ قیادت سمجھ ہی نہی پارہی کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں پیغام کیسے آگے بڑھانا ہے۔ اب اتحادی حکومت یہ اشارے دے رہی ہے کہ وہ قبل از وقت انتخابات کے بجائے اگست 2023ء تک اپنی مدت پوری کرکے سخت معاشی فیصلے کرے گی اور حالات کو قابو میں لائے گی، لیکن یہاں بھی ان کو ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق عمران خان 20 مئی کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کرنے والے ہیں، جس کی کامیابی کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں‘ لیکن اس ضمن میں حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وہ تعاون نظر نہیں آرہا، جس کی مدد سے عمران خان کو قابو میں رکھنا اور ملک کے اہم معاشی فیصلوں کو موثر بنانا ممکن ہو۔ عمران خان نے جس نہج پر جاکر ریاستی اداروں پر تنقید کی ہے اگر وہ نواز شریف یا آصف علی زرداری کرتے تو شاید نشان عبرت بن چکے ہوتے‘ لیکن یہاں عمران خان جو کھیل کھیل رہے ہیں‘ اس سے لگتا ہے کہ اداروں میں اس نکتے پر ابہام پایا جاتا ہے کہ عمران خان سے کیسا نمٹا جائے۔ اس سے یہ تھیوری نکلتی ہے کہ غالباً عمران خان کو اب بھی مقتدرہ کے ایک حلقے کی سپورٹ حاصل ہے جس کی شہ پر عمران خان اور مخصوص صحافی اور میڈیا گروپ حکومت اور اداروں پر چڑھائی کئے ہوئے ہیں۔ یہی خاموشی شہباز حکومت کے ان خدشات کو ابھار رہی ہے کہ ماضی کی طرح اس دفعہ بھی وہ کسی ایسی سکیم کا نشانہ نہ بن جائیں‘ جس میں ان سے عمران حکومت کا سارا گند صاف کروایا جائے، جس سے وہ غیر مقبول ہو جائیں اور پھر ان کی چھٹی کروا کر جلد الیکشن کا انعقاد کرکے عمران خان کو کھلا میدان فراہم کردیا جائے۔ سابق مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی اچانک وطن واپسی اور ان کو غیرمعمولی پروٹوکول سے یہ افواہیں بازگشت کررہی ہیں کہ وہ نگران حکومت کی قیادت کیلئے وطن واپس پہنچے ہیں۔ اوپر سے پی ٹی آئی میں موجود ایسے سیاستدان جو کسی کے اشاروں پر سیاست کرتے ہیں، اور ان کی مرضی کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں، وہ حیرت انگیز طور پر اب بھی عمران خان کے ساتھ دکھائی دے کر اپوزیشن کے شکوک کو ہوا دے رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اداروں اور حکومت کو ایک صفحے پر ہونے کی جتنی ضرورت آج ہے‘ پہلے کبھی نہ تھی۔ سری لنکا میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ ہماری آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہونا چاہئے۔ اگر ملک کو مسائل سے نکالنا ہے تو قوم، حکومت اور اداروں کو یکسو ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان بدترین حکومتی کارکردگی دکھانے کے بعد اب اپنے بیانیے کے زور پر قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کا فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں۔ ان کے غصے اور الزامات کا دباؤ وزیر اعظم سے لے کر تمام ریاستی ادارے‘ سب برداشت کررہے ہیں۔ شاید اسی لیے حکومتی حلقوں میں یہ بات شدت کے ساتھ کی جارہی ہے کہ ریاستی ادارے اس ''جِن‘‘ کو آئین و قانون کی حدود میں لے کر آئیں اور موجودہ حکومت کو مسائل سے نمٹنے کیلئے اتنی ہی سپورٹ دیں جتنی عمران خان کو دی تھی تاکہ ملک کا منجمد نظام آگے بڑھ سکے۔