کس نے کتنا قرضہ لیا؟ کس نے کتنا اتارا؟ کس کے دور میں معیشت زیادہ بہتر تھی؟ ملکی معیشت کی اس خراب صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ مسلم لیگ (ن) کے رہنما یہ ذمہ داری عمران خان اور ان کی ٹیم پر ڈالتے ہیں تو کپتان اور ان کی ٹیم سارا ملبہ موجودہ اتحادی حکومت پر ڈالتی نظر آتی ہے۔ ہر نئی آنے والی حکومت کا سب سے پہلا تختہ مشق عوام ہی بنتے ہیں۔ مہنگائی کا سیلاب آئے تو سامنا کریں عوام‘ معاشی حالات خراب ہوں تو قربانی دیں عوام‘ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو صلواتیں سنا کر پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ قرار دے دیتی ہے۔ تبدیلی سرکار کی حکومت میں آنے پر قوم نے وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچنے اور گاڑیوں کی نیلامی تک کی شعبدہ بازی دیکھی۔ انڈوں‘ کٹوں اور بچھڑوں سے ملکی معیشت کی سمت درست کرنے والے منصوبوں کی بڑی بڑی تقریبات منعقد ہوئیں پھر جب خراب معاشی حالات آئے تو عوام کو صبر کرنے اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں لانے کا مجرم بنا کر کہا گیا کہ اب جو حالات ہو گئے ہیں انہیں بھگتنا تو پڑے گا۔ 2019ء میں سپیکر کے پی اسمبلی مشتاق غنی کا کہنا تھا کہ ملک مشکل معاشی حالات سے گزر رہا ہے اور قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے‘ اس لیے عوام دو کے بجائے ایک روٹی کھا کر گزارا کریں‘ آگے وقت آئے گا جب عوام کو ڈھائی روٹی کھانے کو ملے گی۔ لیکن وہ ڈھائی روٹی کا خواب کبھی پورا نہ ہوا‘ الٹا ایک روٹی بھی آدھی رہ گئی۔ جن قرضوں کو وجہ بتا کر پی ٹی آئی عوام پر چھری چلاتی رہی آخر میں پتا چلا کہ وہ اپنے دورِ اقتدار میں ملکی قرضوں میں بقول سابق وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب کے‘ 80 تو نہیں لیکن 76 فیصد اضافہ کر گئی‘ خیر باقی 4 فیصد بھی کر جاتے تو کس نے پوچھنا تھا۔ پٹرول کی قیمت بڑھی تو اس وقت کے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز نے عوام کو کم سے کم پٹرول استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جہاں تک ممکن ہو کم فیول استعمال کرنا چاہیے‘ پاکستان پٹرول بناتا یا ہمارے پٹرول کے کنویں ہوتے تو پھر اور بات تھی۔
بس اقتدار جانے کی دیر تھی جس عالمی منڈی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو بنیاد بنا کر عوام کو صبر کرنے کا مشورہ دیا جاتا تھا وہ منڈی موجودہ حکومت کے لیے نہ رہی یا شاید پاکستان میں تیل کے کنویں نکل آئے کہ جن میں سے اتحادی حکومت سستا تیل نکال کر عوام کو مہنگا بیچ رہی ہے۔ خیر‘ اتحادی حکومت نے بھی آ کر گزشتہ حکومت کو پاکستان کے مسائل کی وجہ قرار دیا اور وہی پرانی کیسٹ ری وائنڈ کر کے چلا دی۔ جو مشکل معاشی فیصلے لینے تھے انہیں لٹکایا گیا گو کہ معیشت سنبھالنے کے لیے دیگر اقدانات تو ہو رہے ہیں لیکن پھر بھی عوام اس چین میں سب سے آخر میں ہی آتے ہیں جو اوپر والے سب مدارج کا شکار بنتے ہیں۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے چار بھائیوں کو ایک روٹی کے چار ٹکڑے کرنے کا مشورہ دے ڈالا اور احسن اقبال صاحب‘ جو وفاقی وزیر منصوبہ بندی ہیں‘ نے عوام سے چائے کی ایک‘ دو پیالیاں کم پینے کی اپیل کردی۔ یہ کیوں ہے کہ جب کاروبار کے اوقات کار طے کرنے کی بات آئے تو حکومت اس پر سہج سہج کر قدم رکھتی ہے‘ پی آئی اے‘ بجلی کی کمپنیاں اور سٹیل مل سمیت بہت سے ایسے ادارے ہیں جو برسوں سے نجکاری کے منتظر ہیں لیکن ہر مرتبہ سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔
گزشتہ سال کی ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ان اداروں کا نقصان حالیہ برسوں میں جی ڈی پی کا تقریباً 8سے 12فیصد رہا، جو کہ تعلیم و صحت پر ملک کے عوامی اخراجات سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جن کی طرف توجہ دے کر حکومتی اخراجات میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے جو میثاقِ معیشت چاہیے‘ کیا سیاسی جماعتوں میں اس پر اتفاق ممکن ہے؟ وزیراعظم شہباز شریف نے اپوزیشن لیڈری کے دور میں جس میثاق کی بات کی تھی اس پر تمام ملکی اداروں اور سیاسی جماعتوں کو ایک سنجیدہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر معیشت کے ایسے گوشے جن کا تعلق ملکی سلامتی اور ملکی مفاد سے ہے‘ سیاست کا شکار رہے تو ملک ایسے ہی دائروں میں گھومتا رہے گا اور آدھی روٹی پونی اور چائے کے دو کپ ایک بنتے رہیں گے۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے موجودہ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ 2020ء میں کورونا کے اثرات نے دنیا بھر کی معیشتوں کی شرح نمو منفی سے منفی چھ تھی، حکومتی اراکین کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں؟ ہماری گزشتہ 2سال کی کارکردگی 30سال میں سب سے بہتر ہے۔ لوگوں کو دھوکا دینا بند کریں‘ وہ سچ جانتے ہیں، گزشتہ 8 ہفتوں میں آپ کی کارکردگی انتہائی بری ہے۔ پی ٹی آئی کے ماہر معاشیات مزمل اسلم نے شوکت ترین کے قرض سے متعلق بیان کا بھرپور دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں 76 فیصد قرض بڑھا لیکن مسلم لیگ (ن) کے دور میں یہ قرض 90 فیصد بڑھا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ شوکت ترین صاحب نے اعتراف کر لیا کہ عمران صاحب نے 4 سالہ حکومت میں 20 ہزار ارب روپے کا قرض لیا۔ یہ قرض پاکستان میں لیے گئے مجموعی قرض کا 74 فیصد ہے۔
معروف ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ میں آپ کو یہ بتا دوں کہ یہ ملک ڈیفالٹ نہیں کرنے جا رہا ہے اور نہ ہی دیوالیہ ہونے جا رہا ہے‘ جب عمران خان نے 28فروری 2022ء کو آئی ایم ایف سے تحریری معاہدہ توڑا تھا‘ اس کے بعد سے ملک مشکلات کا شکار ہوا جس کی وجہ سے چین اور سعودی عرب نے ہمیں پیسے دینے سے انکار کر دیا۔ معاہدہ توڑنے کی وجہ سے آئی ایم ایف نئی حکومت سے مزید معاملات طے نہیں کر رہا‘جبکہ اپوزیشن اب کہہ رہی ہے کہ وہ بجٹ کے بعد حکومت کو گرا دے گی تو آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ ہم ڈوبتی حکومت کے ساتھ معاہدہ کیوں کریں۔ آئی ایم ایف اپنی تسلی کیلئے شرائط کو بڑھا رہا ہے‘ امریکا کا مقصد ہی ہمارے عوام میں بے چینی بڑھانا اور ہمیں معاشی طور پر کمزور کرنا ہے‘ اگر یہ حکومت چوری کے اثاثوں کی ریکوری پر کام کرے تو ان کو 9سو ارب روپے مل سکتے ہیں اور اس کا قانون بھی موجود ہے۔ مشکل فیصلے یہ صرف عوام کو کچلنے کیلئے تو کرتے ہیں مگر چوروں پر نہ عمران خان حکومت نے کوئی فیصلہ کیا اور نہ ہی موجودہ حکومت کچھ کرنے کو تیار ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے ملک دیوالیہ ہونے کی بات کرنا بہت ہی افسوسناک ہے۔ڈاکٹر شاہد صدیقی کا کہنا ہے کہ ریکوری سے متعلق نیب کا دعویٰ درست نہیں ہے، میں نے دستاویزی ثبوت پیش کیے ہیں کہ کوئی ریکوری نہیں ہوئی۔ ریکوری کے پیسے قومی خزانے کے بجائے متاثرین کو ملتے ہیں‘ آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلنے کا کوئی راستہ اب نہیں بچا۔ اس حکومت نے ریزور اور روپے کی قدر کو بڑھانے کیلئے ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہونے کی وجہ سے ہماری سرمایہ کاری پر کوئی اثر پڑا اور نہ ہی ہمارے بینکوں پر۔ صحیح سمت میں بہادری سے فیصلے کرکے ہی معیشت کی سمت درست کی جا سکتی ہے۔