"IYC" (space) message & send to 7575

احتساب‘ سیاست اور راہِ راست

نیب قوانین میں کی گئی ترامیم کے حوالے سے آج کل بہت چرچہ ہے۔ حکومت اسے احتساب کے عمل میں ریفارمز جبکہ اپوزیشن رہنما عمران خان اسے این آر او 2 قرار دے رہے ہیں۔ بحث یہ ہے کہ دونوں میں سے درست کون ہے؟ اگر پاکستان میں احتساب کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان میں احتساب کا عمل مخالفین کی کلائی موڑنے اور دیوار سے لگانے سے زیادہ کچھ نہیں رہا۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں تو بانیٔ پاکستان قائداعظم نے ملک کے اہم ترین مسائل میں کرپشن اور کالا بازاری کو سرفہرست قرار دیا، یعنی کرپشن کے ڈانڈے قیامِ پاکستان کے وقت سے جا ملتے ہیں۔ کرپشن کے خلاف لٹھ پہلے ایوب خان نے اٹھائی اور ''ایبڈو‘‘ نامی قانون کا نفاذ کیا اور چن چن کر اپنے مخالف سیاستدانوں کو 20 سے 22 سال تک سیاست سے نااہل قرار دے دیا؛ تاہم بدعنوانی کے خلاف قانون کے ڈر سے جو سیاستدان ''راہِ راست‘‘ پر آگئے‘ ان کے خلاف مقدمات بھی ختم ہوگئے اور بعد ازاں وہ ایوب خان کی کنونشنل مسلم لیگ میں اہم عہدوں پر دکھائی دیے۔ یحییٰ خان اقتدار میں آئے تو صرف وہی افسر اور سیاستدان زیرِ عتاب آئے جو ان کے اقتدار کیلئے خطرہ ہو سکتے تھے۔ پھر حد تو یہ تھی کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے نتیجے میں جب ملک دو لخت ہوگیا تو یحییٰ خان نے خود اقتدار چھوڑنے یا خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی بلکہ تبھی حکومت چھوڑی جب نوجوانوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو حکومت میں آئے تو انہوں نے احتساب کے نام پر 313 سول و ملٹری افسروں کو سانحہ مشرقی پاکستان اور کرپشن کے نام پر بیک جنبش قلم برطرف کردیا۔ ان افسروں میں سے زیادہ تر لوگ وہ تھے جن کی شکلیں اور سابق انتظامیہ سے قربتیں بھٹو صاحب کو نہیں بھاتی تھیں۔
بھٹو کے جمہوری دور کے بعد دوبارہ مارشل لا کی باری آ گئی‘ 90دن کا وعدہ کرکے اقتدار میں آنے والے ضیاء الحق کو جب اقتدار جاتا نظر آنا شروع ہوا تو انہوں نے انتخابات کے اپنے وعدے سے یوٹرن لیا اور فرمایا کہ جب تک وہ احتساب کا عمل مکمل نہیں کرتے تب تک انتخابات کا انعقاد مشکل ہے۔ پھر اقتدار کی ''مشکلات‘‘ دور کرنے کے لیے سول و ملٹری بیوروکریسی کو مراعات سے نواز کر انہی ''کرپٹ‘‘ سیاستدانوں کو ''شریکِ اقتدار‘‘ کرتے دکھائی دیے جن کے خلاف انہوں نے تحریک اٹھائی تھی۔ 90ء کی دہائی میں تو کرپشن الزامات پر جمہوری حکومتیں گھر بھیجنے کا میوزیکل چیئر والا کھیل شروع ہوا جس میں غلام اسحاق خان اور پھر فاروق لغاری جیسے صدور پیش پیش رہے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نوازشریف کی حکومتیں ان کا نشانہ تھیں حتیٰ کہ میاں نواز شریف نے احتساب کے عمل کو ''انسٹیٹیوشنلائز‘‘ کرنے کے نام پر احتساب بیورو قائم کیا‘ لیکن سیف الرحمن کی سربراہی میں چلنے والے اس ادارے نے مخالفین کو ٹارگٹ کرنے سے زیادہ کچھ نہ کیا۔ آصف زرداری جیل بھیج دیے گئے‘ محترمہ بے نظیر بھٹو جلا وطن ہوگئیں‘ سرکاری افسروں کی کرپشن کے قصے پی ٹی و ی پر دکھائے جانے لگے اور یوں مخالفین کو باقاعدہ شکنجے میں کسا گیا۔ اکتوبر 1999ء میں جب پرویز مشرف آئے تو انہیں احتساب کا یہ کھیل بہت پسند آیا‘ انہوں نے احتساب کے ادارے کا نام تبدیل کر کے اسے نیب کے سانچے میں ڈھالا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے اراکین کو احتساب کے نام پر ڈرا دھمکا کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ گروپ اور پھر مسلم لیگ (ق) نامی جماعت کھڑی کی گئی اور یوں مشرف صاحب نے 9سال پورے طمطراق سے حکومت کی۔ بعدازاں ''میثاقِ جمہوریت‘‘ میں اپنی ماضی کی غلطیوں کے کفارے کے نام پر پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی حکومتوں نے احتساب کے سیاسی استعمال سے گریز کا عہد کیا تاکہ سیاسی مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کی روایت ختم ہو۔
ملکی تاریخ کو فاسٹ فارورڈ کر کے دیکھتے ہیں تو عمران خان نے بھی ماضی کی طرح احتساب کے ادارے کا استعمال کرپشن نہیں بلکہ مخالفین کی سیاست ختم کرنے کے لیے کیا۔ پہلے ادارۂ احتساب کے سابق چیئرمین کو اچھی طرح ٹائٹ کیا گیا اور پھر مخالف جماعتوں کی تقریباً تمام لیڈر شپ کو احتساب کے نام پر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ اسی دور میں وہ وقت بھی آیا کہ اپوزیشن جماعتوں کے قومی اسمبلی میں بنچوں کی ابتدائی نشستیں خالی ہوگئیں کیونکہ سب جیل میں تھے۔ پھر آہستہ آہستہ تمام اپوزیشن لیڈر اور سرکاری افسر عدم ثبوتوں کی بنا پر ضمانتوں پر رہا ہونے لگے تو یہ بات ظاہر ہو نے لگی کہ احتساب کا ادارہ حکومت کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکا ہے۔ حقائق دیکھیں تو پاکستان گزشتہ 4 برسوں میں شفافیت کے انڈیکس میں مسلسل تنزلی کا شکار رہا یعنی یہاں کرپشن مسلسل بڑھتی گئی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2021ء میں پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ملک کی کرپشن انڈیکس میں 16درجے تنزلی ہوئی اور وہ 124سے 140کے درجے پر آگیا۔ انہی چار برسوں کے دوران احتساب کا ادارہ کسی ایک بھی سیاستدان کو اپنے کمزور کیسز کی بنا پر سزا نہیں دلوا سکا‘ اور نہ ہی مبینہ طور پر لوٹی گئی رقم ریکور کر سکا۔ رواں سال 14اپریل کو ادارۂ احتساب کے سابق چیئرمین جب پبلک اکاونٹس کمیٹی میں پیش ہوئے تو انہو ں نے بتایا کہ یہ ادارہ اپنے قیام سے اب تک 882ارب روپے ریکور کر چکا ہے‘ جن میں سے سیاستدانوں سے ریکور ہونے والی رقم محض 4کروڑ 70 لاکھ روپے ہے اور یہ رقم بھی گزشتہ ادوار میں ریکور کی گئی۔
اہم سوال یہ ہے کہ اگر احتساب کا موجودہ ادارہ جو 1999ء میں قائم ہوا اور اپنے قیام سے لے کر اب تک ملک میں کرپشن ختم تو کیا کم بھی نہیں کر سکا‘کیا اس میں اصلاحات کی ضرورت نہیں؟ اگر اس ادارے کا مقصد مبینہ طور پر صرف حکومتی مخالفین کو دھمکانا اور کاروباری شخصیات اور بیوروکریٹس کو ڈرانا ہی رہ گیا ہے تو عمران خان اس کا دفاع کیوں کررہے ہیں؟ کیا اس ادارے کے ڈر سے سرکاری افسروں نے فائلوں پر دستخط کرنا نہیں چھوڑ دیے تھے کہ کہیں کیس بنا کر انہیں اٹھا نہ لیا جائے؟ کیا کاروباری شخصیات نے مقدمات کے ڈر سے انویسٹمنٹ نہیں روک دی تھی‘ جس کا خمیازہ ملکی معیشت کو بھگتنا پڑا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے احتساب کے ادارے کے قوانین میں جو حالیہ ترامیم کی ہیں ان میں اس ادارے کے دائرہ کار کے حوالے سے سیکشن 4بالکل وہی ہے جسے پی ٹی آئی حکومت نے ایک آرڈیننس کی صورت میں نافذ کیا تھا‘ اور یہ سیکشن حالیہ ترامیم کا 85 فیصد ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی آرڈیننس جسے دو دفعہ صدرِ مملکت اپنے دستخطوں سے نافذ کر چکے‘ جب پارلیمنٹ کی طرف سے منظور ہو کر قانون کی شکل میں صدر صاحب کے سامنے گیا تو انہوں نے اس قانون پر سائن کرنے سے انکار کر دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس ملک میں کبھی حقیقی احتساب ہوا ہی نہیں‘ بلکہ صرف احتساب کے نام پر صرف یاست ہوئی ہے۔ کیا اس تمام صورتحال میں احتساب کے ادارے میں اصلاحات کی ضرورت نہیں؟ عمران خان نے پہلے جس طرح اس ادارے کے سر پر اپنی سیاست چمکائی‘ ویسے ہی کہیں اب اِن اصلاحات کو این آر او 2 قرار دینا بھی میرے نزدیک سیاست سے زیادہ کچھ نہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں