"IYC" (space) message & send to 7575

آئینی بحران اور گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ

کہنے کو تو ستمبر‘ ستم گر کے طور پر مشہور ہے لیکن قومی سیاست کا دھارا ایسا ہے کہ یہاں کون‘ کس مہینے میں ستم ڈھا دے کچھ کہنا مشکل ہے۔ شیخ رشید جیسے کچھ ''سیاسی نابغۂ روزگار‘‘ جولائی کے ستم گر ہونے کی پیش گوئی کر رہے ہیں اور اکتوبر میں انتخابات کا اعلان کرتے پھر رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ حکومت ناکام ہو چکی‘ مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کا جن قابو میں نہیں آرہا‘ عالمی مالیاتی ادارے کی سخت ترین شرائط ماننے کے باوجود ابھی تک قرضے کی اگلی قسط نہیں ملی‘ موجودہ حکومت بنانے والے پشیمان اور اپنی غلطی سدھارنے کو تیار ہیں۔ بجٹ پاس ہونے سے قبل ایم کیو ایم‘ بی اے پی اور اے این پی جیسے اتحادیوں کی حکومت سے ناراضی اور لاہور وزیراعلیٰ پنجاب کی آئینی حیثیت سے متعلق کیس میں الیکشن دوبارہ کرانے کا عندیہ موجودہ حکومت کے لیے اشارے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ افراد پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی سخت تنقید اور دوسری طرف سے جواباً خاموشی کو اس بات کی تاویل کے طور پر پیش کررہے ہیں کہ فریقِ ثانی کا عمران خان کے ساتھ ''خصوصی‘‘ رویہ کچھ اور بتا رہا ہے۔
اگر ان امکانات کو بالفرض مان لیا جائے‘ تو بھی حکومت دو وجوہ کی بنا پر گھر جا سکتی ہے‘ یا تو دو ووٹوں کی اکثریت پر کھڑی حکومت کے اتحادی اس سے علیحدہ ہوجائیں یا کوئی مداخلت ہو جائے۔ موخر الذکر کا کوئی امکان نہیں کیونکہ ادارے بارہا یہ باور کروا چکے ہیں کہ وہ آئین میں تقویض کردہ اپنے کردار سے ہرگز تجاوز نہیں کریں گے۔ اول الذکر کا امکان ضرور موجود ہے لیکن کچھ خاص نہیں کیونکہ ایم کیو ایم اور بی اے پی جن اشاروں پر دائیں بائیں ہوتی تھیں‘ وہ اشارے ملنا اب بند ہوچکے ہیں‘ اگر یہ اشارے بند نہ ہوتے تو کم از کم بی اے پی اور (ق) لیگ جیسی پارٹیاں یوں دو حصوں میں تقسیم نہ ہوتیں۔ ایک آدھ مزید وزارت دے کر کر اتحادیوں کو دوبارہ رام کیا جا سکتا ہے‘ وزیراعظم میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری پہلے ہی سے اس مشن پر کام شروع کر چکے ہیں۔
اگر عمران خان فیکٹر کی بات کی جائے تو میری دانست میں خان صاحب ایک لایعنی اور ناکام لانگ مارچ کے بعد اپنا رعب و دبدبہ گنوا چکے ہیں اور ان کا عوام کا سیلاب سڑکوں پر لانے کا دعویٰ اب زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں۔ سونے پر سہاگہ‘ وہ اپنے ہر خطاب اور انٹرویو میں نیوٹرل‘ میر جعفر اور میر صادق جیسے الفاظ کی مالا جپ کر رہی سہی حمایت بھی گنوا چکے ہیں۔
لیکن اس وقت حکومت کے لیے دو ایسے بڑے چیلنجز موجود ہیں جو اس کے مستقبل کا صحیح معنوں میں تعین کریں گے۔ اول؛ اقتصادی چیلنج‘ دوم؛ پنجا ب کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات۔ اس وقت مہنگائی عروج پر ہے‘ پٹرول ڈیزل کی قیمت بڑھنے کے بعد ہر شے کو جیسے آگ لگی ہوئی ہے‘ بجلی مزید مہنگی ہونے جارہی ہے‘ غریب آدمی گھر چلانے سے قاصر ہے تو امیر صنعتکار سپر ٹیکس لگنے سے پریشان‘ جس کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی کا زیادہ تر ملبہ متوسط طبقے پر گرے گا۔ اگرعوام میں بے چینی کی یہ لہر غیظ و غضب میں بدل جاتی ہے تو حکومت کیلئے سخت پریشانی پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے ایک نہیں بلکہ 2ارب ڈالر دینے کی خبر نے حکومت کی مشکلات کم کر دی ہیں۔ چین سے قرضے کے بعد سعودی عرب کی جانب سے ادھار تیل کی حد بڑھنے سے پاکستان کی سخت معاشی صورتحال کو کچھ آسرا ملا ہے۔ ممکن ہے کہ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل جو اس وقت سخت فیصلے لینے کے باعث اپنوں اور غیروں‘ سب کی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں‘ ڈالر کو 180 یا190 روپے تک لانے میں کامیاب ہو جائیں جس سے عوام کو کچھ معاشی ریلیف مل سکے۔ اگر اسحاق ڈار صاحب‘ خبروں کے مطابق‘ واقعی واپس آکر وزارتِ خزانہ سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ تو ان کی معاشی ''جگاڑیں‘‘ کچھ مزید آسانی فراہم کر سکتی ہیں۔ واقفانِ حال کے مطابق ڈار صاحب واپس ملک آ جائیں تو بھی مختلف سیاسی وجوہات کی بنا پر ان کی وزارتِ خزانہ میں واپسی فی الحال مشکل ہو سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پارٹی میں معاشی ٹیم کی گروپنگ ہونے کی وجہ سے اسحاق ڈار کے حوالے سے ناپسندیدگی کا عنصر بھی موجود ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے حال ہی میں ملک کے سب سے طاقتور معاشی ادارے‘ قومی اقتصادی کونسل کی تشکیلِ نو کرکے شاہد خاقان عباسی کو اس کا سربراہ بنانا دراصل اسی گروپنگ کو ختم کرنے کی ایک کڑی ہو سکتی ہے۔ مجموعی طور پر اقتصادی محاذ پر یہ چیلنجز حکومت کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہو سکتے ہیں۔
دوسرا اور سب سے اہم ترین فیکٹر ضمنی انتخابات ہیں۔ پنجاب کی ان 20 صوبائی نشستوں پر ہار یا جیت حکومت کے لیے آر یا پار ثابت ہوگی۔ یہ انتخابات حکومت کی مقبولیت کے حوالے سے ریفرنڈم ثابت ہوں گے‘ اگر عوام واقعی حکومت کے کیے گئے ضروری لیکن سخت اقدامات کی تائید نہیں کرتے اور وہ عمران خان کے سازش کے بیانیے پر ایمان لا چکے ہیں توپنجاب میں حمزہ سرکار کے لیے شدید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ دوسری جانب حلقے کی سیاست بھی اس وقت (ن) لیگ کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے‘ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پی ٹی آئی کے منحرفین اراکین کو ٹکٹ دینے سے ان کے اپنے کچھ لوگ ناراض ہو گئے تھے‘ لیگی قیادت ایسے تمام ساتھیوں کو راضی کرنے میں بھی مصروف ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز صوبے میں جاری آئینی بحران کے دنوں میں بھی بغیر کسی کابینہ کے اکیلے ہی جتے رہے اور پنجاب کے عوام کو آٹے کی مد میں 200 ارب کی سبسڈی بھی دی۔ لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وہ اس بات کا گلہ کرتے نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ 3ماہ کے آئینی بحران کا اندراج گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ہونا چاہئے۔
پنجاب میں 20 نشستوں پر ان انتخابات کو (ن) لیگ زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر میدان میں اتری ہے‘ اس مہم کی قیادت مریم نواز کریں گی جن کا براہِ راست مقابلہ عمران خان سے ہے جو ان حلقوں میں خود مہم چلا رہے ہیں۔ حمزہ شہباز جو پنجاب کے ہر حلقے میں گراس روٹ لیول تک جڑے ہوئے ہیں‘ وزیراعلیٰ بننے کے بعد انتخابی مہم چلانے سے قاصر ہیں جس کا شاید (ن) لیگ کو کچھ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ بہرحال‘ اس وقت پی ٹی آئی رہنماؤں کی پنجاب حکومت‘ الیکشن کمیشن اور چند دیگر اداروں پر الیکشن انجینئرنگ کے حوالے سے سخت تنقید بتا رہی ہے کہ انتخابی حلقوں میں ان کی پوزیشن غیر موافق ہے۔ ظاہر ہے کہ ابھی اس حوالے سے کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔ اگر (ن) لیگ ان ضمنی انتخابات میں 12سے 15 نشستیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر پنجاب اور حتمی طور پر وفاق میں (ن) لیگ کی سربراہی میں چلنے والی اتحادی حکومت اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے‘ اور اگر پی ٹی آئی میدان مار لیتی ہے تو پنجاب میں مرضی کا وزیراعلیٰ لگانے کے علاوہ وفاق میں بھی حکومت کو ڈینٹ ڈال سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں