پاکستان کے ٹوٹتے بنتے سیاسی اتحادوں کی کہانی بہت پرانی ہے۔ 1952ء میں ڈیموکریٹک یوتھ لیگ اور ایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے مسلم لیگ کے خلاف بننے والے پہلے اتحاد سے لے کرستمبر 2020ء میں بننے والے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) کے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف بننے والے ان سیاسی اتحادوں نے کامیابی سے حکمرانی بھی کی اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں کے مکینوں کو مشکل میں بھی مبتلا رکھا۔ اس وقت پاکستان میں اتحادی حکومت برسر اقتدار ہے اور مختلف ترجیحات ہونے کی بنا پرآپس میں برسر پیکار بھی ہے۔ اتحادی حکومت پی ڈی ایم ‘ پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ پر مشتمل ہے جس کی قیادت اس وقت وزیراعظم شہباز شریف اور سابق صدرآصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے۔یہ اتحاد عمران حکومت کے خاتمے کیلئے وجود میںآیا اور ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن سے ہاتھ ملا کر حکومت کا دھڑن تختہ کردیا۔ لیکن اب یہ اتحاد مشکل میں دکھائی دے رہاہے کیونکہ بدحالی کی شکار معیشت کی نگہبان حکومت اتحادیوں سے کئے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام نظرآرہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران حکومت گرانے والی اتحادی جماعتیں موجودہ سیاسی بندوبست کو بھی گرا سکتی ہیں؟
بات اگر سات ووٹوں کی حامل متحدہ قومی موومنٹ سے شروع کریں تو سندھ میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے نے ایم کیو ایم کو پیپلزپارٹی کے خلاف چراغ پا کررکھا ہے ‘ جس کی وجہ سے متحدہ قومی موومنٹ کھلے عام اتحاد سے علیحدہ ہونے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ صرف دو ووٹوں کی اکثریت پر ٹکی حکومت کو ایک ایک ووٹ کی اشد ضرورت ہے اور یہ بات اتحاد میں شامل جونیئر پارٹنر جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی میں ہونے والے معاہدے کی چیدہ چیدہ شقوں کا جائزہ لیں‘ جس کے ضامن میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان ہیں تو ان کے مطابق پیپلزپارٹی لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرے گی۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ایکٹ میں ترامیم 30 دن میں سندھ اسمبلی سے منظور کرائی جائیں گی۔ معاہدے کے تحت ایم کیو ایم کی سفارش پر کسی سیاسی فرد کو کے ایم سی کا ایڈمنسٹریٹر لگایا جائے گا‘ مقامی حکومتوں کے لیے فنڈز کی تقسیم این ایف سی ایوارڈ2010ء کے فارمولے کے تحت ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت ابھی تک ان میں سے ایک شق پر بھی عمل نہیں کرسکی‘ جس کی وجہ سے متحدہ کبھی قومی اسمبلی میں تو کبھی پریس کانفرنسوں میں حکومت کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کررہی ہے۔ اگر ایم کیو ایم کی ماضی کی حکومتوں سے معاہدوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایم کیوایم نے 1988ء میں 13 قومی اور 25 صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا اور بدلے میں 51 نکات پر مبنی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ یہ اتحاد 11 ماہ چلا کیونکہ ان میں سے صرف ایک نکتے پر عمل ہوسکا تھا۔ پھر متحدہ نے محترمہ کی حکومت کے خلاف آئی جے آ ئی کے ساتھ مل کر تحریک عدم اعتماد پیش کی مگر وہ ناکام رہی۔ 1990ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت کی برطرفی کے بعد نواز حکومت سے اتحاد ہوا جو 1992ء کے کراچی آپریشن تک جاری رہا۔ ایم کیو ایم نے 1997ء میں نواز شریف کی حکومت سے پھر معاہدہ کیا مگرحکیم محمد سعید کے قتل اور سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد یہ معاہدہ صرف ایک سال میں ختم ہوگیا۔ پرویز مشرف سے 2002ء میں ہونے والا معاہدہ سب سے طویل مدتی تھا اس معاہدے میں شہری علاقوں کراچی‘ حیدرآباد کے معاملات کی نگرانی گورنر عشرت العباد کرتے تھے جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں کے معاملات وزیراعلیٰ سندھ کے پاس تھے۔ 2008ء میں آصف زرداری کے دور میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان پھرمعاہدہ ہوا جو ادھورا رہ گیا۔
2018ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے حکومت بنانے کے لیے 9 نکاتی معاہدہ کیا مگر سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہے کہ متحدہ کا بطور اتحادی ایک طویل ماضی ہے اور وہ موجودہ حکومت کو بھی ناکوں چنے چبوا سکتی ہے‘ اس لئے یا تو حکومت کو ان کے مطالبے ماننا ہوں گے یا پھر وہ قوتیں جن کے اشارے پر اتحادی چلتے ہیں ‘ ان سے رجوع کرنا ہوگا۔
اگر اے این پی کی بات کریں تو عوامی نیشنل پارٹی نے عید کے بعد حکومت سے علیحدہ ہونے پر مشاورت کرنے کیلئے سنٹرل کمیٹی کا اجلاس بلالیا ہے۔ اے این پی کی خواہش ہے کہ اسے پی ڈی ایم کی حمایت کے عوض کے پی میں گورنر شپ کا عہدہ دیا جائے‘ تاہم مولانا فضل الرحمان اس میں مزاحم ہوئے‘ جو اپنے بھائی کو اس عہدے پر دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن جب مولانا کو کہا گیا کہ آپ کو پہلے ہی وفاقی کابینہ میں اہم وزارتیں دے دی گئی ہیں تو انہوں نے شرط رکھی کہ اے این پی کی جانب سے انہیں صرف امیر حیدر خان ہوتی بطور گورنر منظور ہیں‘ تاہم امیر حیدر خان ہوتی اے این پی کی جانب سے اس وقت واحد رکن اسمبلی ہیں ‘ یعنی مولانا ان کا استعفیٰ چاہتے ہیں۔ اس پر وزیراعظم شہباز شریف حرکت میںآئے ہیں جنہوں نے ایمل ولی خان سے ملاقات کرکے اس معاملے کو حل کرنے کی کوششوں کاآغاز کردیا ہے لیکن بہرحال مولانا کو سمجھانا اور اے این پی کو راضی رکھنا مشکل ہوسکتا ہے خاص طور پر جب جے یوآئی (ف) نے سندھ میں زرداری ہٹاؤ مہم کاآغاز کردیا ہے۔
اگر بلوچستان عوامی پارٹی(BAP) کی بات کی جائے تو اس کے مرکزی رہنما خالد مگسی شکوہ کناں ہیں کہ ان کی جماعت کو ترقیاتی سکیموں کیلئے فنڈز مہیا نہیں کیے جارہے جس کی وجہ وہ حلقے کے عوام کی تنقید کی زد میں ہیں۔ پارلیمان میں اسلم بھوتانی کی احسن اقبال پر تنقید نے واضح کیا کہ یہ معاملہ سنگین ہے جس پروزیر اعظم نے آصف علی زرداری سے مدد مانگ لی ہے کیونکہ زرداری صاحب اور BAPکے پرانے تعلقات ہیں جنہوں نے مل کر بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت گرائی تھی۔ وہ اس معاملے کو کس قدر سنبھال پاتے ہیں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔
مجموعی طور پر اتحادی حکومت کا مستقبل تمام جماعتوں کے مل بیٹھ کر چلنے میں ہے کیونکہ ان کا سامنا عمران خان جیسے حریف سے ہے جو نہ صرف عوامی حمایت رکھتا ہے بلکہ حکومت سے باہر ہونے کے باوجود سسٹم کے ایک حصے کی حمایت حاصل کیے ہوئے ہے۔اگر مارکیٹ میں چلنے والے مفروضوں کی بات کریں تو عمران خان کا ٹارگٹ کسی بھی طرح اکتوبر میں انتخابات حاصل کرنا ہے ‘ جو( ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کیلئے زہر قاتل ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ سخت بجٹ اور حالیہ مہنگائی نے ان کی عوامی مقبولیت کو کافی نقصان پہنچایا ہے اور وہ جلد الیکشن میں جانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ایم کیو ایم اورBAP کی جانب سے حال ہی میں سامنے آنے والے شکوے (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے اسی خوف سے کھیلنے کی کوشش ہیں۔ اگر بڑی جماعتیں چھوٹی جماعتوں کے تحفظات دور کردیتی ہیں تو ٹھیک ورنہ پانسا پلٹ سکتا ہے۔