برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا بھی بالآخر وہی انجام ہوا جو اس سے قبل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق وزیراعظم عمران خان کا ہوا۔ پاپولزم کی لہر کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے والے حکمران طوفان کی طرح آئے ‘ اپنے نعروں اور دعوؤں کی چمک سے سب کی آنکھیں خیرہ کیں لیکن اختتام ایک جیسا ہوا‘ یعنی حقیقت آشکار ہونے کے بعد جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔کوئی مضا ئقہ نہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی جلد اسی انجام سے دوچار ہوں گے۔ پاپولسٹ سیاست کرنے والوں کا طریقۂ واردات ایک ہی ہوتا ہے۔ وہ معاشرے کے تعصبات سے کھیلتے ہیں‘ خاص طور پر متوسط طبقے کی دلی خواہشات‘ ان کے خوابوں اور آرزوؤں کو اپنے دل لبھانے والے نعروں سے لبھاتے ہیں ‘ معاشرے میں طبقۂ اشرافیہ کی جانب سے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم ‘ کلاس سسٹم ‘ وسائل کی کمی اور'' اداروں کی سفاکی‘‘ کے بیانیے کو کیش کراتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ کیسے وہ آئیں گے تو کچھ ہی عرصے میں عام آدمی کی تمام آرزوئیں اپنے انقلابی اقدامات سے پوری کردیں گے اور ہر جانب چین ہی چین ہوگا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی ''ریاست مدینہ‘ ‘، ٹرمپ کا ''گریٹ امریکا‘‘ اور بورس کا '' بریگزٹ ‘‘ کا نعرہ اسی سیاست کے مختلف رخ ہیں۔
وہ تبدیلی کے سنہرے خواب بُنتے ہیں ‘ان میں نعروں کی کہکشاں سجاتے ہیں لیکن زمینی حقائق سے مربوط نہ ہونے کے سبب وہ ایسے ہوائی قلعے تعمیر کرتے ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔یہی کچھ بورس جانسن نے کیا‘ جنہوں نے بریگزٹ یعنی یورپین یونین سے علیحدگی کی مہم میں اہم کردار نبھایا۔اپنے لوگوں کو ایک نئی اور توانا قیادت دینے کا وعدہ کیا ‘ لیکن دوسرے لیڈروں سے منفرد نظر آنے کی خواہش میں ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ آثارپیدا ہونے لگے کہ شاید برطانیہ ٹوٹ جائے۔ سنجیدہ سے سنجیدہ معاملات میں مذاق کرنے‘ بے تکی باتوں اور عجیب و غریب حلیے سے انہوں نے میڈیا کی توجہ خوب سمیٹی لیکن ان کی پارٹی میں یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ بورنس جانسن ایک اچھے میڈیا منیجر ضرور ہوسکتے ہیں لیکن ایک اچھے وزیراعظم نہیں کیونکہ ان کے دور میں ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں کام کے سوا سب کچھ ہورہا تھا‘ حتیٰ کہ کوروناکے دنوں میں ''پارٹی ‘‘ سکینڈ ل بہت مقبول ہوا جس میں پتہ چلا کہ قوم پر کورونا کی پابندیاں لگانے والا خود دعوتوں اور پارٹیوں کے مزے اڑا رہا تھا۔
اب برطانیہ کی حالت یہ ہے کہ اسے بریگزٹ کے سنہری خواب دکھا کہ یورپی یونین سے علیحدہ تو کردیا گیا لیکن جزیرہ نما برطانیہ جو یورپ کے ساتھ اوپن بارڈرز کے سبب بہت سا سامان بغیر ڈیوٹی کے خرید کر استعمال کرتا تھا اب وہی سامان باقاعدہ ڈیوٹی ادا کرکے امپورٹ کرنے پر مجبور ہے جس کے سبب برطانیہ میں مہنگائی کی شرح باقی یورپی ممالک کو پیچھے چھوڑ گئی ہے ‘ یعنی برطانیہ کو غیر ملکیوں سے پاک کرنے کی کوشش اس وقت وہاں کی معیشت کیلئے جاں لیوا ثابت ہورہی ہے۔ پھر ہوا یوں کہ پارلیمنٹ میں ڈپٹی چیف وہپ کی تعیناتی اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئی جس نے پارٹی میں بغاوت ابھاری اور یوں اپنی ہی سیاسی جماعت کی جانب سے لائی گئی تحریکِ عدم اعتماد نے انہیں اقتدار سے محروم کردیا۔
تقریباً یہی کہانی عمران خان کی بھی ہے جو اقتدار میں رہ کر اور اس سے باہر نکل کر بھی ہیڈ لائنز میں رہنے کا فن ضرور جانتے ہیں‘ تقریر بھی اچھی کرتے ہیں‘ خواب بھی دکھاتے ہیں لیکن خواب کی تعبیر دینے میں وہ بھی ناکام رہے۔ کرپشن کے خاتمے اور نیا پاکستان بنانے کے وعدے ‘ دعوے ہی ثابت ہوئے اور بالآ خر ان کی یہی ادائیں ان کے سیاسی زوال کا باعث بنیں۔ سیاسی اتحادیوں اور ایک صفحے والوں سے کئے گئے وعدے پورے نہ ہونے کے سبب وہ بھی خان صاحب سے مایوس ہونے لگے اور آخر کار یہ وقت آیا کہ انہوں نے بھی کپتان پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔ دیوار سے لگی اپوزیشن تیار بیٹھی تھی‘ جس نے اس مشاکی سے عمران خان کو سیاسی دھوبی پٹخا دیا کہ کپتان آج بھی حیران پریشان پھرتے ہیں کہ انہیں کیوں اور کیسے نکالا گیا۔
لیکن یہاں سے خان صاحب اور بورس جانسن صاحب کی کہانی مختلف راستے لیتی ہیں۔ جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو انہوں نے اسے امریکی سازش‘ اپنوں کی بے وفائی ‘ لوٹا ازم اور نجانے کس کس شے سے جوڑا مگر ویسٹ منسٹر جمہوریت کی مثالیں دینے والے عمران خان کے دوست بورس جانسن کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی اور وہ بھی ان کی اپنی جماعت کے لوگوں کی جانب سے تو نہ انہیں غیرملکی ایجنٹ پکارا گیا نہ ضمیر فروش اور نہ ہی لوٹا کہا گیا۔ ایک سیدھے سادے عدم اعتماد کے نتیجے میں جب بورس جانسن کو یقین ہوگیا کہ اب بازی ان کے ہاتھ میں نہیں رہی تو انہوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ یہ ہے اصل جمہوریت اور اس کی خوبصورتی کہ جہاں پر گورننس کے راستے میں سپیڈ بریکر آئے تو نظام کے تسلسل اور عوام کی فلاح کی خاطر گاڑی کا ڈرائیور تبدیل ہوگیا اور یوں جمہوریت کا سفر رواں دواں رہا۔
لیکن دوسری جانب پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر لوگ خود کو سسٹم کیلئے ناگزیر سمجھتے ہیں۔ 10 سال حکومت کرنے والے آمر ہوں‘ تین دفعہ وزیراعظم بننے والا سیاستدان ہو یا پھر ریاستی مشینری کا کوئی اعلیٰ عہدیدار۔انہیں یہی لگتا ہے کہ جب وہ رخصت ہوں گے تو پاکستان کا نجانے کیا ہوگا؟ ایک سابق چیف جسٹس تو برملا عدالت میں فرماتے تھے کہ نجانے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملک کا کیا ہوگا۔ اسی طرح بیوروکریٹس کو ریٹائرمنٹ کے بعد ایکسٹینشن دینا یا کنٹریکٹ ملازمت یہ کہہ کر دیناکہ ان کے بغیر محکمہ یا ادارہ نہیں چل سکتا یہ بھی ہماری خام خیالی ہے۔ آج کل بھی آرمی چیف کی ایکسٹینشن پر بھی بیان بازی جاری ہے حالانکہ وہ خود اس دفعہ توسیع لینے سے انکار کرچکے ہیں لیکن پھر بھی چہ مگوئیاں جاری ہیں حالانکہ ان کی جگہ جو بھی سنبھالے گا وہ فوج کی کمان کرنے کا اہل ہوگا۔
عمران خان صاحب کو لگتا ہے کہ وہ اقتدار سے نکالے گئے تو اب ملک کا کیا ہوگا‘ حالانکہ انہیں تسلی رکھنی چاہیے کہ ان کے ہونے یا نہ ہونے سے پاکستان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ان کے دور میں قرضے کئی گنا بڑھ گئے‘ اگلی حکومتوں کے دور میں بھی ایسا ہی ہونے کا احتمال ہے ‘انہوں نے آمرانہ رویہ اپنایا تو اگلے سربراہانِ حکومت بھی یہی رویہ اپنائے رکھیں گے۔خان صاحب نے کچھ مختلف نہیں کیا اس لئے ان کے ساتھ بھی کچھ مختلف نہیں ہوا‘ بلکہ وہی ہوا جو ماضی کے حکمرانوں کے ساتھ ہوا یعنی وہ سب تاریخ کا حصہ بن گئے۔