نہ تو کوئی کامیابی مستقل ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ناکامی۔ سیاسی میدان میں یہ معمول کا عمل ہے۔ لیکن ناکامی کو دوبارہ کامیابی میں بدلنے کے لیے اپنے گریبان میں جھانکنا ضروری ہوتا ہے‘ اپنی غلطیوں کو ماننا‘ سمجھنا اور پھر اُن کو درست کرکے آگے بڑھنا لازمی ہوتا ہے۔ میرے نزدیک پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی شکست کی 3 بنیادی وجوہات ہیں۔ مہنگائی‘ ٹکٹوں کی غلط تقسیم اور بیانیے کی غیرموجودگی۔ مسلم لیگ (ن) عموماً خدمت کے نعرے کے ساتھ سیاست کرتی ہے‘ ڈِلیور کرتی ہے اور اپنے ووٹروں کو مطمئن رکھتی ہے۔ 3 ماہ قبل‘ جب اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد کی بنیاد پر فارغ ہوئے تو بے سمت گورننس سے بیزار عوام کو امیدِ سحر کی توقع تھی کہ اپنی گڈ گورننس کے لیے مقبول میاں شہباز شریف آتے ہی ڈِلیور کریں گے اور انہیں ریلیف دیں گے۔ لیکن (ن) لیگ کی قیادت میں 11 جماعتوں کی اتحادی حکومت پر سر منڈواتے ہی اولے پڑے۔ سابق وزیراعظم عمران خان آئی ایم ایف کے ساتھ مشکل معاہدہ کرکے اس کی جو خلاف ورزی کر چکے تھے‘ اس کا خمیازہ میاں شہباز شریف اور ان کی ٹیم کو بھگتنا پڑا۔ تحریک انصاف کی حکومت گرمیوں میں توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے نہ ایل این جی کے ایڈوانس معاہدے کرکے گئی اور نہ ہی 13 کے قریب بند پاور پلانٹس کو چالو کیا۔ یعنی نہ توانائی نہ خزانے میں پیسے۔
اس کے نتیجے میں موسم گرم ہوتے ہی لوڈشیڈنگ نے عوام کی کمر توڑ دی‘ جبکہ آئی ایم ایف نے بھی قرض کی اگلی قسط دینے کے لیے حکومت کو ایسے اقدامات کرنے کے لیے مجبور کیا جن سے مہنگائی دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کو چھونے لگی۔ ایسے میں عام آدمی کا سوال جائز تھا کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ حکومت بدلتے ہی لوڈشیڈنگ بھی شروع ہوگئی اور پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے؟ سونے پر سہاگا حکومت عام آدمی کو اس کے ذہن میں کلبلاتے سوالات کا جواب دینے میں ناکام رہی کہ یہ سب کچھ گزشتہ حکومت کی بچھائی بارودی سرنگوں کے باعث ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ کہنا کہ انہوں نے ریاست کو بچانے کے لیے اپنی سیاست کو داؤ پر لگا دیا‘ اپنی جگہ درست ہو گا لیکن وہ عوام کو اس پر قائل نہیں کر سکے۔ دوسری طرف عمران خان کا بیانیہ کہ سازش کے ذریعے سے اپوزیشن نے‘ ان کی حکومت‘ روس سے تعلقات بڑھانے اور سستا تیل خریدنے کی کوششوں کی وجہ سے گرائی‘ وہ بھی لوگوں کے دل و دماغ میں راسخ ہوگیا اور عام آدمی سوال کرنے لگا کہ آخر موجودہ حکومت روس سے سستا تیل کیوں نہیں خریدتی۔ حکومتی وزرا عوام کو اس سوال پر بھی مطمئن نہ کر سکے۔
دوسری جانب ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر‘ (ن) لیگ نے منحرف اراکین کو ٹکٹ دینے کے وعدے پر‘ کئی پارٹی رہنماؤں کی جانب سے تحفظات کے باوجود یوٹرن نہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کے وعدے کی لاج رہ جائے۔ لیکن حلقہ جاتی سیاست میں یہ اصول پرستی کام نہیں آتی کیونکہ (ن) لیگ کے سابقہ ٹکٹ ہولڈرز اور ووٹروں نے ان منحرفین‘ جنہیں عمران خان حقارت سے لوٹا پکارتے رہے‘ کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس لیے جب فیصل آباد سے (ن) لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے اجمل چیمہ کہتے ہیں کہ مجھے ہرانے میں (ن) لیگ کی تنظیم نے اہم کردار ادا کیا‘ یا پھر کہوٹہ سے راجہ صغیر الزام لگاتے ہیں کہ (ن) لیگ کے چیئرمین راجہ ظفر الحق نے ان کے بجائے پی ٹی آئی کے امیدوار کو سپورٹ کیا تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ مریم نواز نے بھرپور کمپین چلائی لیکن پنجاب میں (ن) لیگ کی تنظیم کی مشینری کے روحِ رواں میاں حمزہ شہباز شریف ہیں جو وزیراعلیٰ بننے کے باعث حلقوں میں سیاسی طور پر متحرک نہ ہو سکے جس کا نقصان بہرحال الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو اٹھانا پڑا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق حمزہ شہباز اگر خود کمپین چلا رہے ہوتے تو آن گراونڈ بہت سارے گروپوں کو متحرک کر لیتے۔ ضمنی انتخابات کے بعد ہونے والے پارلیمانی پارٹی کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے کہا کہ سدا بادشاہی اللہ تعالیٰ کی ہے۔ 1993ء سے بحیثیت سیاسی کارکن محاذ پر ڈٹا ہوا ہوں۔ خوب جانتا ہوں کہ مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے۔ نہ ہار ابدی ہے نہ کسی جیت کو دوام ہے۔ مشن ملک کو بچانا اور سنوارنا ہے جو ان شاء اللہ جاری رہے گا۔
تیسرا فیکٹر بیانیے کا تھا۔ عمران خان نے میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعے مقتدرہ مخالف بیانیے کو خوب پروموٹ کیا۔ وہی بیانیہ جو بنیادی طور پر میاں نواز شریف نے 2018 ء میں متعارف کروایا اور جس کے ذریعے انہوں نے ایک صفحے کوپس پشت ڈال دیا تھا۔ اپنی حکومت جانے کے بعد عمران خان نے اسے کیچ کیا اور بھرپور جلسوں کے ذریعے کیش کروا لیا۔ یعنی بنیادی طور پر (ن) لیگ بغیر کسی بیانیے کے الیکشن میں گئی اور مار کھا گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس ایک بھرپور بیانیہ موجود ہے لیکن اسے ادراک نہیں کہ اس کا مؤثر استعمال کیسے کیا جائے۔ حکومتی وزرا یہ تو کہتے ہیں کہ وہ سیاست نہیں ریاست بچانے کے لیے حکومت میں آئے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ مشکل فیصلے کرنے سے ان کی سیاسی ساکھ داؤ پر لگے گی۔ ملک کو سری لنکا جیسی صورتحال سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس بروقت جانے کی بھی ضروت تھی لیکن پاکستان کو درست سمت میں ڈالنے کے لیے وہ یہ قربانی دینے کو تیار ہوئے۔ ان کی بات میں دم بھی ہے کیونکہ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کی خاطر جس طرح ملکی آئین کو نظر انداز کیا اور قومی معیشت کو دلدل میں دھکیلا اس کا خمیازہ ملک و قو م کو بھگتنا پڑا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت اس اہم ترین بیانیے کو مؤثر الفاظ میں اپنے ووٹر تک پہنچا نہیں پائی۔ دوسری جانب حال یہ تھا کہ عمران خان نے جس طرح ایک بیانیے سے دوسرے پر جمپ کیا اور پھر اسے سوشل میڈیا کے ذریعے اس تواتر سے پھیلایا کہ ان کے ووٹرز خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین کے دلوں میں آگ بھڑک اٹھی۔ عمران خان نے سیاسی مخالفین اور اداروں کو تندو تیز حملوں سے مسلسل پریشر میں رکھا۔ اب بھی عمران خان کو دیکھ لیں جنہوں نے صاف شفاف انتخابات کے نتیجے میں توقع سے زیادہ نشستیں حاصل کیں‘ وہ اب بھی الیکشن کمیشن پر تنقید کرنے پر لگے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ دھاندلی ہوئی۔ اس تنقید کی واحد وجہ فارن فنڈنگ کیس کو بتایا جا رہا ہے جس کی تلوار عمران خان کے سر پر لٹک رہی ہے۔ عمران خان اس سے بچنے کیلئے ملک کو کسی بھی حد تک لے جانے کو تیار ہیں‘ حالانکہ اس وقت ملک کی معاشی صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ تمام جماعتیں مل بیٹھ کر آگے کی راہ نکالیں تاکہ سیاسی استحکام آئے لیکن عمران خان اس مقصد کے لیے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کوتیار نہیں۔ ان کا مزاج انہیں اس چیزکی اجازت نہیں دیتا۔ اب وہ ممکنہ طور پر پنجاب کی حکومت بھی حاصل کرنے جارہے ہیں جس کے بعد وہ مزید جارحانہ رویہ اپنائیں گے اور اسلام آباد کی طرف پنجاب اور کے پی سے بیک وقت لانگ مارچ کریں گے۔ وفاقی حکومت فی الحال مزید مشکل فیصلے کرنے کے لیے اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کا اعلان کر چکی ہے‘ ایسے میں بے یقینی کی شدت اور انتشار کے خدشات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ہو سکتا ہے کہ غیر سیاسی قوتیں مداخلت کرنے پر مجبور ہو جائیں گی جس کے بعد نہ عمران خان کے ہاتھ کچھ آئے گا اور نہ ہی حکومت کے۔