سپریم کورٹ کی جانب سے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب قرار دیے جانے کا فیصلہ پی ڈی ایم کیلئے بہت بڑا جھٹکا ہے۔ پاکستان کی لگ بھگ 50فیصد آبادی پر مشتمل صوبہ پنجاب‘ حکومتی اتحاد بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ اب مرکز میں بھی اُنہیں شدید خطرہ لاحق ہے کیونکہ اب عمران خان کے ہاتھ میں کھیل کے تمام پتے آ چکے ہیں اور سیاسی طور پر وہی حاوی ہیں۔ اس سے ملک میں پہلے سے جاری سیاسی افراتفری میں مزید اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں بالآخر کوئی مداخلت بھی ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر اس فیصلے کے فوراً بعد کیا جانے والا مریم نواز کا ٹویٹ بتا رہا ہے کہ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن)اب جارحانہ بیانیہ اپنانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور وہ یہ فیصلہ آسانی سے تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالتی اختیارات پر پارلیمنٹ کی طرف سے قدغن لگانے کی تجویز بھی خاصی معنی خیز ہے کیونکہ پیپلز پارٹی عموماً اداروں کے احترام کا درس دیتی ہے اور انہی کے ذریعے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے‘ لیکن اس دفعہ پیپلز پارٹی نے بھی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف ہوئی عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرکے پیغام دیا ہے کہ حکومتی اتحاد اتنی آسانی سے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کرے گا اور عمران خان کی طرح جارحانہ رویہ اپنائے گا۔ معاشی اعتبار سے کرچی کرچی پاکستان کے لیے یہ سیاسی پیشرفت کسی بھی طور خوش آئند نہیں ہے۔
میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ حکومتی اتحاد کو عمران خان کی تقلید میں اتنا سخت قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا کیونکہ عمران خان اور پی ڈی ایم کے مابین ایک بہت واضح فرق موجودہے۔ پاکستان میں تقریباً ہر جگہ عمران خان کے حامی موجود ہیں‘ جو ان کے نظریے‘ سیاست اور بیانیے سے بہت متاثر ہیں۔ وہ عمران خان کے اینٹی امریکہ اور سازشی مفروضوں پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں اور پی ڈی ایم کو چور اور ڈاکو سمجھتے ہیں۔ اسی لیے جب عمران خان اُن پر اپنی تقاریر میں یا بیک ڈور رابطوں کے ذریعے دباؤ ڈالتے ہیں تو وہ باآسانی دباؤ میں آجاتے ہیں۔ ادھر پی ڈی ایم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس سرے سے کوئی بیانیہ ہے ہی نہیں‘ جبکہ انہوں نے حکومت میں آتے ہی جو سخت فیصلے لیے اس سے ان کی مقبولیت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے جس کا نتیجہ ہم نے 17جولا ئی کو صوبائی اسمبلی کے ہونے والے ضمنی انتخابا ت میں حکمران جماعت کی شکست کی صورت میں دیکھ لیا۔ اس لیے اگر حکومت تحمل اور استقامت کے ساتھ عدالت کے سامنے اپنا مؤقف رکھتی تو زیادہ بہتر تھا۔
بہرحال‘ حکومتی اتحاد نے اب جارحانہ رویہ اپنانے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ حکومت کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔اتحادی حکومت کا شکوہ ہے کہ عمران خان کی پونے 4سالہ بدترین کارکردگی کا ٹوکرا ہم نے اٹھایا ہے کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ملک دیوالیہ پن کا شکار ہونے جارہا ہے‘ یہ سیاست نہیں ریاست بچانے کا وقت ہے‘ حکومتی اتحاد نے اس پر لبیک کہا اور آئی ایم ایف سے اگلی قسط لینے کے لیے سخت ترین فیصلے لیے حالانکہ اقتدار کے پہلے مہینے میں شہباز شریف یہ فیصلے لینے میں ہچکچا رہے تھے کیونکہ انہیں ان فیصلوں کے ممکنہ نتائج صاف طور پر نظر آرہے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے آصف زرداری کی مشاورت سے اتنا بڑا رسک لیا۔ ان کو توقع تھی کہ ان سخت فیصلوں کے ثمرات اگلے برس تک عوام کو ملنا شروع ہو جائیں گے جس کے بعد وہ عوام کو ریلیف دے کر اگلے انتخابات کی بھرپور تیاری کرسکیں گے لیکن اب انہیں لگتا ہے کہ ان کے قدموں تلے بچھایا گیا قالین کھینچا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں انہیں اکتوبر میں انتخابات کروانے پر مجبور کردیا جائے گا‘ جس کا تمام تر فائدہ عمران خان کو ہوگا۔
حکومتی اتحاد اداروں سے تعاون کی جو توقع لگائے بیٹھا تھا‘ نہ صرف وہ توقع ٹوٹی ہے بلکہ انہوں نے دبے لفظوں میں یہ کہنا بھی شروع کردیا کہ عمران خان جب چاہتے ہیں اداروں پر سخت ترین تنقید کر دیتے ہیں لیکن انہیں کوئی نہیں پوچھتا اور نہ ہی ان کے خلاف فیصلے دیے جاتے ہیں۔ مثلاً 25 مئی کو اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے والوں کے لیے واضح عدالتی حکم تھا کہ وہ ڈی چوک نہیں جا ئیں گے‘ لیکن وہ پھر بھی گئے اور بعدازاں ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے یہ کہا گیا کہ شاید انہیں ہمارا پیغام نہ پہنچا ہو۔ دوسری جانب پاناما کیس کے دوران اور بعد میں بھی نواز شریف کے خلاف جس سطح پر جاکر کارروائی کی گئی‘ اس پر آج بھی عقل حیران ہے۔
اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آگے ہوگا کیا؟ حکومتی اتحاد کا کہنا ہے کہ انہیں لیول پلینگ فیلڈ یعنی کھیل میں برابری کے مواقع دیے جائیں۔ یعنی حکومت خود طاقتوروں کو مداخلت کی دعوت دے رہی ہے‘ جو اس کے سابقہ مؤقف کے خلاف ہے۔ اس حوالے سے پی ڈی ایم کا مؤقف ہے کہ عمران خان کو لاکر نظام میں جو ٹیڑھ پن پیدا کیا گیا ہے‘ پہلے اس کو ٹھیک کرنے کے لیے مداخلت کی جائے اور پھر تمام فریقوں کو لیول پلینگ فیلڈ دے کر مداخلت کرنے والے نیوٹرل ہو جائیں۔ (ن) لیگ چاہتی ہے کہ نواز شریف کو واپس آنے کی اجازت دے دی جائے اور عمران خان کی درپردہ سپورٹ بند کی جائے۔ دوسری جانب عمران خان چاہتے ہیں کہ ادارے ان کی جانب سے کھیلیں جیسا کہ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ہو رہا تھا۔ وہ اپنی تقاریر میں بارہا کہہ چکے ہیں کہ نیوٹرل کچھ نہیں ہوتا‘ سب کو حق کا ساتھ دینا چاہیے اور اپنے تئیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی حق پر ہیں۔ یعنی عمران خان طاقتوروں سمیت سب کی بھرپور سپورٹ چاہتے ہیں۔
اس ساری صورتِ حال میں تمام ریاستی اکائیوں کو میدان میں آ کر سیاسی فریقوں کو ایک ساتھ بٹھانا پڑے گا‘ کیونکہ میدانِ سیاست میں اس قدر کشیدگی آ چکی ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں اور ان کی آپس کی لڑائی ملک کو درپیش بے انتہا مسائل کو گمبھیر سے گمبھیر کرتی چلی جا رہی ہے۔ اگرچہ سیاسی جماعتیں اداروں پر بھی تنقید کے نشتر چلارہی ہیں لیکن پھر بھی اگر انہیں گارنٹی دی جائے کہ سب فریقوں کو لیول پلینگ فیلڈ دیا جائے گا جس کے نتیجے میں ملکی مسائل میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکتی ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک وہ اپنے باہمی مسائل خود سے حل نہیں کریں گی‘ تب تک کسی نہ کسی صورت مداخلت جاری رہے گی۔ اسی طرح پارلیمنٹ کو پہلی فرصت میں اہم ترین تعیناتی کا کوئی طریقہ کار وضع کرنا ہوگا کیونکہ اس ایک تعیناتی کی وجہ سے ہر تین سال بعد ملکی سیاست میں جو طوفان برپا ہوتا ہے‘ اس کو آخر ہم کیوں نہیں روکتے؟ خدارا! سیاسی جماعتیں اب ہوش کے ناخن لیں کہ یہی سب کے حق میں بہتر ہے کیونکہ ان کی نااہلی یا باہمی ناچاقی سے جو خلا پیدا ہوگا‘ وہ فوراً پُرہو جائے گا کیونکہ طاقت کے خلا کو پُر کرنے کے لیے بہت سے فریق ہمہ وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔