میاں نواز شریف کی واپسی کی تاریخ اس وقت ایک سیاسی معمہ بن چکی ہے۔ سابق وزیراعظم کب واپس آئیں گے‘ اس پر سب سے زیادہ بحث مسلم لیگ (ن) میں ہورہی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں‘ یا تو واقعی (ن) لیگ اس وقت دو گروپس میں تقسیم ہو چکی ہے جن میں سے ایک دھڑا میاں نواز شریف کی واپسی کا حامی تو دوسرا مخالف ہے۔ اسی وجہ سے لیگی رہنما جاوید لطیف‘ محمد زبیر اور مریم نواز اپنے لیڈر کی واپسی کی تاریخیں دے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب احسن اقبال اور خواجہ آصف وغیرہ یہ کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کو واپس آنا چاہیے لیکن کب‘ اس پر وہ اپنے لب سی لیتے ہیں۔ کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس بحث سے میاں نواز شریف کی واپسی کا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے اور یہ سیاسی آپشن سامنے لائی جا رہی ہے کہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے ملک میں سیاسی و انتخابی طورپر وہ لیول پلینگ فیلڈ بنائی جا سکتی ہے جو عمران خان کی مقتدرہ مخالف بیانیے سے حاصل کردہ عوامی مقبولیت کا توڑ ثابت ہوگی‘ جس سے پی ڈی ایم اور مقتدر حلقے سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ عمران خان جس طرح قومی اسمبلی کے 9 حلقوں سے ضمنی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فی الحال وہ اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ یہ بھی واضح ہورہا ہے کہ عمران خان کا مقابلہ کرنے کیلئے سیاسی میدان ہی سود مند ثابت ہو سکتا ہے نا کہ ٹیکنیکل ناک آوٹ کیونکہ تکنیکی طور پر انہیں باہر کرنا ان کے اس بیانیے کا توڑ ثابت نہیں ہو سکتا جس نے ملک کو سیاسی‘ معاشرتی اور معاشی محاذ پر تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ اسی لیے تو عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو واپس لانے کی سازش ہورہی ہے تاکہ مجھے نااہل کیا جا سکے۔
میاں نواز شریف کی واپسی میں ایک رکاوٹ تو ان کی قید کی سزا ہے جو انہیں العزیزیہ سٹیل ملز کیس میں سنائی گئی۔ 2018ء میں سپریم کورٹ کے پاناما فیصلے کی روشنی میں نیب نے میاں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملز‘ فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس دائر کیے تھے۔ احتساب عدالت نے 6 جولائی 2018ء کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال‘ ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی۔ 19 ستمبر 2018ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو رہا کرنے کا حکم جاری کردیا۔ دوسری طرف احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بری کرتے ہوئے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنادی اور اب وہ اسی ریفرنس میں بقیہ سزا کاٹیں گے۔ بعض قانونی ماہرین کے مطابق اس کیس میں ان کی ضمانت کے مواقع اس لیے روشن ہیں کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ انہیں ایون فیلڈ ریفرنس میں ضمانت دے چکی ہے اور یہ کیس العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس سے مشترک ہے کیونکہ دونوں کیسز میں میاں صاحب کو منی ٹریل دینا تھی۔ اگر عدالت کو ایک کیس میں ان کی منی ٹریل قبول ہے تو دوسرے کیس میں بھی یہ منی ٹریل قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں میاں نواز شریف وطن واپسی پر ضمانت ملنے سے جیل جانے سے بچ سکتے ہیں۔ جہاں تک تاحیات نااہلی کا تعلق ہے تو اس کے لیے (ن) لیگ پارلیمنٹ کا سہارا لے سکتی ہے۔
لیکن کنفیوژن یہ ہے کہ جاوید لطیف صاحب نے گزشتہ سال دسمبر میں بھی نواز شریف کی وطن واپسی کی خبر اڑائی تھی جو کہ غلط ثابت ہوئی۔ اسی طرح ہم نے گزشتہ ماہ جولائی میں اسحاق ڈار کی وطن واپسی کی بھی خبر سنی لیکن پنجاب میں (ن) لیگ کی ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد انہوں نے بھی اپنا ارادہ ترک کرلیا‘ یعنی میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار اگر مرکز میں اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی وطن واپس نہیں آرہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی مناسب وقت کا انتظار کررہے ہیں۔ اسی مناسب وقت کو عمران خان صاحب سازش کہہ کر پکار رہے ہیں۔ وہ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ بعض حلقے انہیں ممنوعہ فنڈنگ کیس اور توشہ خانہ ریفرنس میں نااہل کروا کر نوازشریف کو واپس لانا چاہتے ہیں جس کے لیے پی ٹی آئی کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرنے میں حکومت کا ساتھ دے۔ لیکن (ن) لیگ اس صورتحال کو دوسری طرح سے دیکھتی ہے۔ (ن) لیگ سے تعلق رکھنے والے کچھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ کوئی سازش نہیں بلکہ میاں نواز شریف کو نااہل کرانے والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور وہ اب اس غلطی کو سدھارنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جیسے ہی اس حوالے سے معاملات درست ہوں گے تو میاں صاحب وطن واپس آ جائیں گے۔
اسی دوران (ن) لیگ نے بظاہر گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کا کھیل بھی شروع کردیا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یہ کھیل تب کھیلتی ہے جب اسے کوئی مقصد پانا ہو۔ ایک جانب وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت پٹرول کی قیمت بڑھاتی ہے تو دوسری جانب مریم نواز ٹویٹ کرتی ہیں کہ میاں نواز شریف اس فیصلے میں شامل نہیں۔ یعنی اگر پارٹی کی ایک اندرونی میٹنگ میں بڑے میاں صاحب اور چھوٹے میاں صاحب میں اختلاف کی خبر مریم نواز خود لیک کررہی ہیں تو یہ ایک سیاسی چال ہے۔ اس وقت (ن) لیگ کی زیر قیادت حکومت کو سخت معاشی فیصلے کرنے پر عوامی سطح پر غیر مقبولیت کا سامنا ہے جس کا ہرجانہ اسے حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلیٰ قربان کرکے چکانا پڑا۔ (ن) لیگ کو اس وقت پوری شدت کے ساتھ اس بیانیے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے سے وہ عوام اور اپنے ووٹر کو یہ یقین دلا سکے کہ وہ جو فیصلے کررہے ہیں وہ نہ صرف ملکی مفاد میں ہیں بلکہ ان کی بنیادی وجہ گزشتہ حکومت کے عاقبت نا اندیش فیصلے ہیں۔ اس لیے لگتا یوں ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو اب پارٹی کی ناراض آواز کے روپ میں سامنے لایا جارہا ہے تاکہ مہنگائی میں پسے عوام کو لگے کہ ان کا مقبول لیڈر تو مصیبت میں ان کے ساتھ ہے اور مہنگائی کی وجہ سے اپنے بھائی کی حکومت پر تنقید کرنے سے بھی گریز نہیں کررہا۔ اسی طرح مریم نواز کو بھی اب پارٹی کے سینٹر سٹیج پر لایا جارہا ہے‘ ان کا دفتر جاتی امرا سے ماڈل ٹاون سیکرٹریٹ شفٹ کیا جارہا ہے تاکہ وہ وہاں بیٹھ کر کارکنوں اور لیڈروں سے ملاقاتیں کریں‘ ان سے روابط بڑھائیں اور پی ٹی آئی کی سیاسی مہم جوئی کا توڑ نکالیں۔ ان کی حمزہ شہباز کے ساتھ اچھی کوآرڈی نیشن ہے‘ یہ دونوںپارٹی کا نوجوان چہرہ ہیں اور مل کرکو اس بحران سے نکال سکتے ہیں۔ مریم نواز کا بیانیہ اور حمزہ شہباز کی انتظامی صلاحیت ایک طاقت ور مکا بن کر مخالفین کے دانت کھٹے کر سکتا ہے۔فی الوقت نوجوان ووٹر عمران خان کی حمایت میں نظر آتا ہے‘ جسے توڑنا (ن) لیگ کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ شاید اسی لیے (ن) لیگ کو اپنے قائد میاں نواز شریف کی ضرورت ہے جن کی واپسی پارٹی اور کارکنوں میں ایک نئی توانائی پھونک سکتی ہے۔ لیکن اس سب کا دارومدار میاں نواز شریف پر ہے کہ وہ کیسے اس صورتحال کو دیکھ رہے ہیں۔ کیا انہیں لگتا ہے کہ ان کی واپسی کا ان کی پارٹی کو اور حکومت کو فائدہ ہوگا؟ کیا واقعی انہیں عمران خان کے خلاف لیول پلینگ فیلڈ دیا جائے گا؟ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میاں صاحب واپس پاکستان آنا تو چاہتے ہیں لیکن ٹائمنگ کے حوالے سے‘ فی الوقت وہ بھی اپنی پارٹی کی طرح کنفیوژن کا شکار ہیں۔