"IYC" (space) message & send to 7575

سیاست کا جنازہ…

پاکستان میں سیلاب کی حالیہ تباہ کاریوں کا جائزہ لینے کیلئے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس کا دورۂ پاکستان ایک نیک شگون تھا۔ اس طرح کم از کم وہ اپنی آنکھوں سے تباہی کا سکیل دیکھ سکے جس نے ملک کی تین کروڑ سے زائد آبادی کو بری طرح متاثر کیا ہے‘ جن کی دوبارہ آباد کاری میں مہینوں نہیں بلکہ برسوں لگ سکتے ہیں۔ اپنے محدود وسائل کے سبب ہمیں اس آباد کاری کیلئے عالمی برادری کی مدد کی ازحد ضرورت ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اس حوالے سے ہمارے لیے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ پاکستان کی آواز کے ساتھ آواز ملائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ یکجہتی کا نہیں انصاف کا تقاضا ہے۔ عالمی برادری اپنی ذمہ داری پوری کرے خاص طور پر وہ ملک جنہوں نے درجہ حرارت بڑھا کر زمین کو نقصان پہنچایا ہے۔ سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ میں ذمہ دارملکوں سے عملی طور پر پاکستان کی مدد کرنے کا کہہ رہا ہوں۔
یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ بطورِ ملک و قوم ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اپنے حقیقی اور دیرینہ مسائل بھی دنیا کے سامنے رکھنے میں ناکام ہیں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مرہون منت ہیں۔ ہم دنیا کو یہ بھی بتانے سے قاصر ہیں کہ ہم کتنی بڑی تباہی کا شکار ہیں کیونکہ عالمی میڈیا میں اس وقت پاکستان کے حوالے سے جو ہیڈلائنز بن رہی ہیں وہ سیلاب کی تباہی سے زیادہ اس سیاسی ہلچل اور عدم استحکام کے حوالے سے ہیں‘ جو ملک میں برپا ہے۔ اس لیے کم از کم سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ پاکستان کی آنکھوں دیکھی صورتحال دنیا کو بتا سکیں گے کہ پاکستان کو واقعی مدد کی ضرورت ہے۔ ورنہ وہاں کے اخبارات اور ویب سائٹس ایک دن بتاتی ہیں کہ عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا پرچہ درج ہوگیا ہے تو دوسرے دن وہاں عمران خان کی للکاروں کا چرچہ ہوتا ہے جو وہ جلسوں میں کھڑے ہوکر قومی اداروں کے خلاف لگاتے ہیں۔ آخر ہم کیوں یک زباں ہوکر سیلاب زدگان کی مدد کی بات نہیں کررہے؟ یہ کون سی سیاسی حکمت عملی ہے کہ سیاسی طور پر قوم کو تقسیم بھی کرنا ہے اور ساتھ ساتھ ان کی امداد کیلئے کام کرنے کا دعویٰ بھی کرنا ہے؟ کیا بھوک سے بلکتے بچے ‘ بے سروسامان پڑے خاندان کسی مبینہ حقیقی آزادی کی منتظر ہیں یا پھر دو وقت کی روٹی کے؟
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ہم بطور قوم اتنی بڑی مصیبت کا سامنا کررہے ہوں اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے گریبان بھی پکڑ رہے ہیں۔ ورنہ جب کبھی ایسا موقع آیا‘ کیا سیاسی مخالف‘ کیا حزب اختلاف‘ سب یک زبان ہوکر ملک کیلئے کھڑے ہوگئے۔ 1965ء کی جنگ کا ذکر کریں تو ستمبر سے چند ماہ قبل ہی صدارتی انتخابات منعقد ہوئے تھے‘ جن میں ایک طرف ایوب خان نے اپنی جیت کیلئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا‘ تو دوسری جانب محترمہ فاطمہ جناح کو صدر بنوانے کیلئے سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اکٹھ کرکے بھرپور مہم چلائی۔ اس کے نتیجے میں تلخی بھی بہت ہوئی اور ملک کے مشرقی و مغربی حصوں میں سیاسی فضا مکدر ہو کر رہ گئی‘ لیکن بھارتی حملے کے بعد صدر ایوب خان کی ولولہ انگیز تقریر نے قوم کو متحد کردیا۔ یہ اتحاد گلیوں اور سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ ایوانِ صدر کے ڈرائنگ روم میں بھی نظر آیا‘ جہاں ایوب خان کے تمام سیاسی مخالفین ان کی دعوت پر اظہارِ یکجہتی کیلئے موجود تھے۔ معروف بیوروکریٹ اور صدر ایوب خان کے سیکرٹری الطاف گوہر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب ایوب خان اُن کی معیت میں ڈرائنگ روم میں پہنچے تو ایک لمحے کیلئے ٹھٹھک کر رہ گئے اور الطاف گوہر کے کان میں سرگوشی کی کہ تم نے میرے تمام دشمنوں کو اکٹھا کر لیا ہے‘ لیکن جب ایوب خان ان سے آگے بڑھ کر ملے تو ان میں کوئی ان کا دشمن نہ تھا بلکہ تمام پاکستانی تھے جو اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کے سنگ کھڑے تھے۔
آخر اب ہم یہ جذبہ کیوں نہیں جگا سکتے؟ عمران خان خود کو سپورٹس مین‘ جبکہ وزیراعظم خود کو عملی سیاستدان کہتے ہیں‘ لیکن اس وقت وہ جس طرح دست و گریباں ہیں وہ ناقابلِ تلافی صورتحال ہے۔ ایک جانب عمران خان روزانہ کی بنیاد پر ایک نئے الزام‘ ایک نئے مفروضے اور ایک نئے سسپنس کے ساتھ الزامات کا پلندہ لیے حاضر ہو جاتے ہیں۔ کبھی انہیں مائنس ون ہونے کا خدشہ نظر آنے لگتا ہے تو کبھی انہیں لگتا ہے کہ تمام دنیا انہی کے گرد گھومتی ہے۔ اس قدر خود پسندی اور نرگسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ انہیں سیلاب زدگان کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی کوئی خوف۔ انہیں مسئلہ ہے تو صرف اتنا کہ سیلاب کی وجہ سے ان کی سیاسی تحریک کو بریکیں نہ لگ جائیں۔ ایک جانب امریکہ سے امداد بھی لینی ہے تو دوسری جانب اس پر ساز ش کا الزام بھی لگانا ہے۔ ایک جانب اداروں پر نہایت منفی اور لایعنی تنقید بھی کرنی ہے اور پھر مظلوم بھی بننا ہے کہ میرے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرکے مائنس ون کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ ادھر حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ سیلاب‘ مہنگائی اور مسائل سے مارے عوام کے درمیان میں گھری حکومت کو بھی عمران خان کے خلاف نت نئے مقدمے بنانے سے فرصت نہیں۔ دہشت گردی‘ توہین عدالت‘ بغاوت اور نجانے کون کون سے مقدمے خان صاحب کے سر پر تھوپ دیے ہیں جس سے وہ ان کو سیاسی انجام تک پہنچانے میں تو کامیاب نہیں ہو سکے‘ البتہ عالمی سطح پر اپنی سبکی ضرور کروارہے ہیں۔ جب عالمی سطح پر ہیڈ لائنز بنتی ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بن گیا تو اس پر مغربی ممالک تاسف سے دیکھتے ہیں کہ کیسے ایک قومی لیڈر پر خودکش حملہ آوروں جیسے الزامات لگ رہے ہیں؟ انہی اقدامات کے باعث قوم سیاستدانوں کے خلاف تاسف کا اظہار کررہی ہے کہ آخر ہم کہاں پھنس گئے ہیں؟ ہمیں کیوں ایسی لیڈر شپ ملی ہے جو ہمارے درد کی دوا کے بجائے اپنے اقتدار کی خاطر مرنے مارنے پر تلی بیٹھی ہے۔
اب یہی دیکھیں کہ الیکشن کمیشن نے سیلاب کی حالیہ تباہی کے بعد رواں ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات کو ملتوی کردیا ہے‘ جس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ بہت سے علاقوں کے تباہ حال انفراسٹرکچر کے باعث وہاں پولنگ کیلئے استعمال ہونے والی سرکاری اور نجی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ فوج‘ رینجرز اور پولیس کی بڑی تعداد اس ماحول میں سکیورٹی فراہم کرنے سے قاصر ہے لیکن عمران خان صاحب کو ضمنی انتخابا ت کا یہ التوا بھی دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سازش نظر آرہی ہے۔ یہ انتخابات اب نہ ہوئے تو اگلے ماہ ہوجائیں گے‘ آخر اس کے خلاف پی ٹی آئی کو احتجاجی تحریک چلانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ انتخابات کسی ناگزیر وجہ کی بنیاد پر ملتوی کردیے گئے ہیں؟ عمران خان کس بات سے خوفزدہ ہیں؟ کیا انہیں یہ خوف ہے کہ سیلاب زدگان پر توجہ کرنے سے کہیں ان کا سیاسی مومینٹم ٹوٹ نہ جائے؟ خدارا سب ہوش کے ناخن لیں اور ملک کا سوچیں‘ ورنہ اس وقت سیلاب زدہ علاقوں میں ناکافی امدادی کارروائیوں کے سبب وہاں کے لوگوں کا غصہ جس نہج کو پہنچ رہا ہے‘ یہ نہ ہو وہی مل کر آپ کی سیاست کا جنازہ نکال دیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں