معاملہ جب ملک اور قوم کا ہو تو مسائل کی دلدل سے نکلنے کیلئے رہنما کا کام اچھی لیڈر شپ مہیا کرنے کے علاوہ سٹیٹسمین کا کردار ادا کرنا بھی ہوتا ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے مصیبت کی اس گھڑی میں یہ فرائض بخوبی سرانجام دیے ہیں۔
بطور وزیراعظم ہمیں ان کی کئی باتوں سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیلاب کی اس ناگہانی صورتحال میں انہوں نے اندرون و بیرون ملک احسن کردار ادا کیا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے اقوام عالم کے سامنے پاکستان کا مقدمہ مؤثر انداز سے پیش کیا اور سیلاب سے ڈوبے وطنِ عزیز کیلئے انصاف کے متمنی ہوئے۔ان کا موقف تھا کہ پاکستان کو جس بے انتہا تباہی کا سامنا کرنا پڑا اس کی بڑی وجہ ترقی یافتہ ممالک کا کاربن اخراج ہے جس میں ہمارے ملک کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جنرل اسمبلی سے خطاب میں انہوں نے بہت خوبصورتی سے واضح کیا کہ پاکستان میں اس طرح کی قدرتی آفت کو پہلے نہیں دیکھا گیا۔ ہمیں پہلے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اب سیلاب کا سامنا ہے حالانکہ دنیا میں جو کاربن فضا میں بھیجی جارہی ہے پاکستان کا حصہ اس میں ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے اس کی وجہ ہم نہیں ہیں۔40 دن اور 40 راتوں تک ایک تباہ کن سیلاب ہم پر مسلط رہا جس نے صدیوں کا موسمیاتی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔آج بھی ملک کا بڑا حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ خواتین اور بچوں سمیت تین کروڑ 30 لاکھ افراد اب صحت کے خطرات سے دوچار ہیں جن میں ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔ ایک تہائی پاکستان ڈوبا ہوا ہے اور عالمی حدت کے تباہ کن اثرات نے پاکستان میں زندگی کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے عوام عالمی حدت کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔
گو کہ حکومت کے سیاسی مخالفین خاص طور پر تحریک انصاف کے چیئرمین یہ الزام لگا رہے ہیں کہ سیلاب کے اس دور میں شہبازشریف اپنے وزرا کے ساتھ بیرون ملک گھوم پھر رہے ہیں لیکن شاید وہ یہ بات فراموش کر بیٹھے ہیں کہ اس وقت بھی لاکھوں لوگ سڑکوں پر پڑے ہیں جن کے سروں پر نہ چھت ہے اور نہ کھانے کو دو وقت کی روٹی انہیں میسر ہے۔ اوپر سے سیلابی پانی‘ جس نے سندھ اور بلوچستان کو بری طرح متاثر کیا ہے اور وہاں کئی طرح کی بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں۔ یعنی جو سیلاب سے بچ گئے اب وہ ان جان لیوا بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں اور ابھی تک ملک کے کتنے ہی تباہ حال کونے ایسے ہیں جہاں ضروری مدد بھی نہیں پہنچ پائی۔
بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کمر بستہ ہیں اور مہنگائی کے مارے عوام معاشی مشکلات کے سبب اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد بھی ماضی کی طرح نہیں کرپا رہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جو افورڈ کرسکتے ہیں وہ بھی سیلاب متاثرین کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے بے حسی کی چادر نے ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ ابتدا میں جو فلڈ ریلیف کیمپ جگہ جگہ قائم ہوئے تھے وہ بھی کب کے لپیٹے جاچکے ہیں۔ دوسری جانب نکتہ چیں حلقوں نے شاید کبھی اس حقیقت پر بھی غور نہیں کیا کہ پاکستان کو 2010ء کے سیلاب کے مقابلے میں عالمی امداد نہایت کم ملی ہے ۔اور تو اور بھوک سے بلکتے پاکستانی بچوں کے لیے یونیسف نے چار کروڑ ڈالر کی جس امداد کی اپیل کی تھی اس کا بھی صرف ایک تہائی حصہ ابھی تک پہنچ سکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ عالمی کساد بازاری ہے جس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کیونکہ روس اور یوکرین کی جنگ نے نہ صرف غذائی اشیا کی قیمتوں کو آگ لگادی ہے بلکہ انرجی کی قیمتیں بھی ہوشربا اضافے کا شکار ہیں۔ ایسے میں مغربی ممالک بھی ماضی کی طرح امداد دینے کے بجائے اپنی ضروریات زندگی کی فکر میں ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر وزیراعظم اور اہم وزرا کا بیرون ملک جانا ضروری تھا تاکہ ملک کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکتا۔
سیلاب کے دنوں میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیوگوتریس اور امریکی اداکارہ انجلینا جولی کا پاکستان آنا بھی ایک بڑی سہولت ثابت ہوا کیونکہ ان دونوں اہم شخصیات نے اپنی آنکھوں سے تمام تباہی دیکھی اور پھر دنیا کو اس مصیبت کے بارے میں آگاہ کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان سیلاب اور قرض دونوں میں ڈوب رہا ہے ‘ پاکستان کے قرضے معاف کرکے وہ پیسہ ماحولیات پر لگانے کی ترغیب دی جائے۔ اسی طرح انجلینا جولی کی پاکستان آمد بھی ایک بڑی خبر بنی ، جس کی ہیڈ لائنز عالمی سطح پر دکھائی دیں۔ انجلینا جولی کے آنے سے ان کے مداحوں، جو عالمی سطح پر پھیلے ہوئے ہیں ، کی توجہ بھی پاکستان پر مرکوز ہوگئی۔ لیکن بدقسمتی سے جہاں ہالی وڈ اور ترک اداکارہ پاکستانیوں کی مدد کے لیے پاکستان میں گراں قدر خدمات سرانجام دیتی رہیں ، وہیں ہمارے ٹاپ کے شوبز سٹارز کینیڈا میں ایوارڈ شو کی پریکٹس کررہے تھے ، جن کے ڈانس اور سٹائل کا سوشل میڈیا پر بھی خوب چرچا رہا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جس ملک نے ان شوبز ستاروں کو عزت ، دولت اور شہرت دی ، وہ اس مصیبت کی گھڑی میں اپنا فرض کیوں نہیں نبھارہے؟ وہ کیوں انجلینا جولی کی طرح مصیبت کے ماروں کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھ رہے؟
صرف فلمی ستارے ہی نہیں ہمارے سیاسی ستاروں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ سیلاب میں وزیر اعظم تو جگہ جگہ گئے اور مصیبت زدہ افراد کی داد رسی کرتے نظر آئے ، لیکن بہت سے دیگر سیاسی رہنما‘ جن میں حکومتی اور حکومت سے باہر‘ ہر دو دھڑوں کے رہنما شامل ہیں مصیبت کی اس گھڑی میں بروقت بروئے کار نہیں آئے۔ عمران خان کا تذکرہ تو پہلے ہوچکا جنہیں اقتدارحاصل کرنے کے لیے قبل از قت انتخابات کی جلدی ہے ، یہ سوچے بغیر کہ ملک کے دو صوبے سندھ اور بلوچستان بدترین تباہی کا شکار ہیں ۔ ایسے حالات میں بیک وقت الیکشن کروانا ناممکن ہے۔ دوسری جانب ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی نوجوان قیادت بھی سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ انہیں تو چاہیے تھا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں گاؤں گاؤں پہنچ کر لوگوں کی مدد کرتے، ان کی خدمت میں اسی طرح دن رات صرف کرتے جیسا کی الیکشن کے دنوں میں کرتے ہیں‘لیکن بدقسمتی سے ان کو غریب عوام کی یاد تب ہی آتی ہے جب ووٹ درکار ہوں، ورنہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اگر یہی صورتحال رہی تو عوام نے ان سیاستدانوں کو الیکشن میں مسترد کرکے اپنا غصہ نکالنا ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیجئے اور اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائیں۔